فیلڈ مارشل سید عاصم منیر—تصویر بشکریہ آئی ایس پی آر

فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی زیرِ صدارت کور کمانڈرز کانفرنس نے عزم کا اظہار کیا ہے کہ ہمارے شہداء کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔

پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق کور کمانڈرز کانفرنس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ پاکستان کے عوام کا تحفظ اور سلامتی مسلح افواج کی اولین ترجیح ہے۔

کور کمانڈرز کانفرنس میں کہا گیا ہے کہ بھارتی حمایت یافتہ اور اسپانسرڈ پراکسیز کے خلاف ہر سطح پر فیصلہ کن اور جامع کارروائیاں جاری رکھنا ناگزیر ہے۔

کور کمانڈر کانفرنس سے خطاب میں آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے کہا کہ بھارت کی دو طرفہ فوجی کشیدگی میں کسی تیسرے فریق کو شامل کرنا بھارت کی بلاک پولیٹکس کو فروغ دینے کی بے بنیاد کوشش ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ درحقیقت دنیا واضح طور پر بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اور ہندوتوا انتہا پسندی کے خطرناک رجحانات سے بدظن ہوتی جا رہی ہے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق فورم کو آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے تاریخی اور منفرد دورۂ امریکا کے بارے میں بھی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ دورۂ امریکا کے دوران امریکی قیادت کو پاکستان کا دو طرفہ معاملات پر مؤقف پیش کیا گیا۔

ملک دشمن عناصر اور سہولت کاروں کیخلاف ریاست پوری طاقت سے نمٹے گی، کور کمانڈر کانفرنس

آئی ایس پی آر کے مطابق شرکاء نے شہدائے افواج، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور شہریوں کی قربانیوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا،

پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کا کہنا ہے کہ فورم کو بتایا گیا کہ اعلیٰ سطح کی امریکی قیادت کو علاقائی اور بین الاقوامی امور پر پاکستان کا بامقصد مؤقف براہِ راست پیش کیا گیا۔

آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ فورم نے مشرقِ وسطیٰ اور ایران کی حالیہ پیش رفت کے تناظر میں داخلی و خارجی سلامتی اُمور کا تفصیلی جائزہ لیا اور طاقت کے استعمال کے بڑھتے عالمی رجحان کو بحیثیت ترجیحی پالیسی ٹول استعمال پر تشویش کا اظہار کیا۔

پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے مطابق کور کمانڈرز کانفرنس میں بتایا گیا کہ پہلگام واقعہ کے بعد بھارتی جارحیت کو شکست ہوئی، اب بھارت پراکسیز کے ذریعے مذموم ایجنڈا آگے بڑھانے کی کوشش کررہا ہے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے کہا کہ اس بھونڈی کوشش کا مقصد بھارت کا خطے میں نیٹ سیکیورٹی پرووائڈر کے خود ساختہ کردار کو گمراہ طور پر پیش کرنا ہے۔

پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کا کہنا ہے کہ فورم نے دہشت گرد پراکسیز کے خلاف فورسز کی حالیہ کامیابیوں کا جائزہ لیا۔

آئی ایس پی آر نے بتایا ہے کہ آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے وزیرِ اعظم شہباز شریف کے ہمراہ ایران، ترکیہ، آذربائیجان، سعودی عرب، یو اے ای کے کامیاب دوروں میں پاکستان کے فعال سفارتی کردار کی تفصیلات سے فورم کو آگاہ کیا۔

پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے مطابق فورم کو جنگ کی بدلتی نوعیت اور ابھرتے خطرات کے پیشِ نظر پاک فوج کی حکمتِ عملی اور جدتوں پر بریفنگ دی گئی۔

آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے ٹرائی سروسز ہم آہنگی کو مزید مضبوط کرنے میں پاک بحریہ اور فضائیہ کی قیادت کو بھی سراہا۔

آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے ملک کو درپیش تمام خطرات کے خلاف پاک فوج کی آپریشنل تیاریوں پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: ا رمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے ا ئی ایس پی ا ر کے مطابق کور کمانڈرز کانفرنس پاک فوج کے شعبہ کا کہنا ہے کہ کا اظہار کیا فورم کو

پڑھیں:

عدیل اکبرکو کیاکرناچاہیے تھا؟

میرا موبائل اکثر ہینگ ہو جاتا ہے‘ یہ چلتے چلتے رک جاتا ہے‘ فون کرتا ہوں تو فون نہیں ہوتا‘ کوئی ایپ کھولتا ہوں تو وہ نہیں کھلتی‘ اسکرین‘ بلیک ہو جاتی ہے‘ آواز بند ہو جاتی ہے اور میں فون کسی کو ملاتا ہوں اور وہ مل کسی دوسرے کو جاتا ہے تو میں پھر کیا کرتا ہوں‘ میں فون کو آف کر دیتا ہوں اور اسے چند سیکنڈ بعد جب دوبارہ آن کرتا ہوں تو یہ سو فیصد ٹھیک ہو جاتا ہے۔ 

آئی ٹی کی زبان میں اس عمل کو ری اسٹارٹ کہتے ہیں اور یہ عمل صرف موبائل فون تک محدود نہیں بلکہ تمام کمپیوٹر گیجٹس کو اکثر اوقات اس عمل سے گزارنا پڑتا ہے‘ انھیں ری اسٹارٹ کرنا پڑتا ہے۔

ہم انسان بھی قدرت کا بڑا سا اسمارٹ فون ہیں‘ ہمارے اندر بھی ہزاروں ایپس کھلی رہتی ہیں‘ ہم بظاہر ایک کام کر رہے ہوتے ہیں لیکن ہمارے اندر سیکڑوں مختلف کام چل رہے ہوتے ہیں‘ انسان کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ صرف تین فیصد لمحہ موجود میں رہتا ہے‘ اس کی توجہ کا باقی 97 فیصد ماضی اور مستقبل میں زندگی گزارتا ہے۔ 

یہ ماضی کے بوجھ تلے دبا رہتا ہے یا پھر مستقل اس کے دل کو کھرچ رہا ہوتا ہے چناں چہ ہم سب کے اندر ہر وقت اندیشوں اور خواہشوں کی سیکڑوں ایپس کھلی رہتی ہیں‘ ہمارا دماغ سائز اور وزن میں جسم کا صرف دو فیصد ہے لیکن یہ ہمارے جسم کی 20 فیصد توانائی استعمال کرتا ہے۔ 

آپ کبھی نوٹ کیجیے گا آپ کو پریشانی‘ ٹینشن یا اینگزائٹی میں زیادہ بھوک لگتی ہے بالخصوص آپ میٹھا زیادہ کھاتے ہیں اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر آپ کا وزن اچانک گرنے لگتا ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ جب آپ کے دماغ میں اینگزائٹی‘ ڈپریشن اور پریشانی کی ایپس کھلتی ہیں تویہ دھڑا دھڑ جسم کی توانائی کھانے لگتی ہیں۔

لہٰذا آپ کی بھوک بڑھ جاتی ہے یا پھر دماغ جسم کا انرجی اسٹور خالی کر دیتا ہے‘ دوسرایہ ایپس جب مسلسل چلتی ہیں تو پھر ایک وقت آتا ہے جب آپ ہینگ ہونے لگتے ہیں اور اس وقت آپ کے پاس دو آپشن ہوتے ہیں‘ آپ موبائل فون کی طرح ’’ڈیڈ‘‘ ہو جائیں اور آپ کا ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر دونوں اڑ جائیں یا پھر آپ اپنے آپ کو آف کر کے ری اسٹارٹ کر لیں۔

دوسرا آپشن زیادہ بہتر ہے چناں چہ آپ جوں ہی ہینگ ہوں آپ خود کو آف اور ری اسٹارٹ کریں آپ زیادہ سے زیادہ سات دن میں نارمل ہو جائینگے اور اگر آپ یہ نہیں کرینگے تو پھر عدیل اکبر کی طرح غیر فطری موت کا شکار ہو جائیں گے۔

دنیا میں زندگی جہاں بھی موجود ہے اس کے پاس اپنے بچاؤ کے صرف دو آپشن ہیں‘ فائیٹ یا فلائیٹ‘ تمام جان دار اپنے بچاؤ کے لیے لڑتے ہیں یا پھر خطرے کی جگہ سے بھاگ جاتے ہیں‘ انسان کے پاس بھی صرف یہی دو آپشن ہوتے ہیں‘ آپ لڑیں یا پھر بھاگ جائیں۔ 

عقل کا تقاضا یہ ہے ہم بیک وقت دونوں آپشنز استعمال کریں‘ آپ حالات سے ضرور لڑیں لیکن اس لڑائی میں جان دینے کی کوئی ضرورت نہیں‘ دنیا میں مرنا کوئی کمال نہیں‘ یہ کوئی بہادری نہیں‘ بہادری تمام تر مسائل اور چیلنجز کے باوجود زندہ رہنا اور بھرپور زندگی گزارنا ہے۔

چناں چہ ہمیں ہر جنگ سے پہلے اپنی لڑائی کی حد طے کرنی چاہیے اور جوں ہی ہم اس حد تک پہنچ جائیں تو فوراً ہتھیار پھینکیں اور بھاگ جائیں کیوں کہ ہم اگر زندہ رہیں گے تو ہمارے دوبارہ لڑنے اور جیتنے کے چانسز ہوں گے بصورت دیگر ہم منوں مٹی کے اندر ہوں گے اور ہم نے جن کے لیے جان دی ہو گی وہ ہماری قبر پر دعا کے لیے بھی نہیں پہنچ پائیں گے۔

لہٰذا دونوں آپشن استعمال کریں‘ ایک حد تک لڑیں اور اس کے بعد دوبارہ حملے کی نیت سے پسپائی اختیار کریں‘ یہ یاد رکھیں‘ دنیا میں ہر کام جہاد اور ہر جنگ مقدس نہیں ہوتی‘ ہم کارپوریٹ ورلڈ میں سانس لے رہے ہیں اور اس میں دو چار ماہ بعد ہر چیز بدل جاتی ہے۔ 

آپ امریکا کی مثال لے لیں‘ جوبائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکا میںکتنا فرق ہے‘ افغانستان اور پاکستان کے تعلقات میںکتنی جلدی تبدیلی آئی‘ بھارت اور بنگلہ دیش ایک ہفتے میں دوست سے دشمن بن گئے‘ شمالی کوریا اور روس دو ماہ میں چین کے دشمن سے دوست بن گئے۔ 

نریندر مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ کے تعلقات چار دن میں الٹ گئے اور ایلون مسک اور ٹرمپ کے درمیان ایک ہفتے میں دو براعظموں جتنی دوری آ گئی‘ ہماری زندگی میں بھی اتنی تیزی سے تبدیلیاں آتی رہتی ہیں‘ ہم آج ایک صورت حال کا شکار ہیں‘ اگلے دن اٹھیں گے تو ہر چیز بدل چکی ہوگی۔

لہٰذا کل ہمارے لیے کیا تحفہ لے کر طلوع ہوتا ہے آپ آنے والے دن کو کم از کم اتنا موقع ضرور دیں‘ سال میں جب موسم اور دن ایک جیسے نہیں رہتے توپھر ہمارے حالات کیسے اور کیوں مستقل رہ سکتے ہیں لہٰذا آپ وقت کو وقت دے کر دیکھیں‘ یقین کریں وقت آپ کو کبھی مایوس نہیں کرے گا۔

میں اب آپ کو ری اسٹارٹ کرنے کے تین طریقے بتاتا ہوں‘ یہ نسخے آزمودہ ہیں اور ان کا رزلٹ بھی سو فیصد ہے‘ آپ انھیں آزما کر دیکھیں‘یہ اگر کارگر ثابت ہوں تو میرے لیے دعا کر دیجیے گا۔ 

نسخہ نمبر ون چھٹی ہے‘ آپ جب کسی صورت حال شکار ہو جائیں‘ نوکری میں الجھ جائیں‘ باس ہٹلر نکل آئے‘ ورک لوڈ بڑھ جائے‘ گھر میں کشیدگی ہو جائے‘ مقدمہ بازی شروع ہو جائے‘ پراپرٹی پر قبضہ ہو جائے‘ لڑائی مار کٹائی ہو جائے‘ فراڈ ہو جائے یا کسی بیماری میں پھنس جائیں تو آپ فوری طور پر چھٹی لے لیں۔ 

یہ چھٹی کم از کم سات دن کی ہونی چاہیے‘ آپ کو اگر چھٹی نہیں ملتی تو میڈیکل سرٹیفکیٹ دے کر غائب ہو جائیں اور اگر یہ بھی ممکن نہیں تو موبائل فون بند کریں اور غائب ہو جائیں۔ 

آپ اس کے بعد سات دن اکیلے کسی اجنبی جگہ پر گزاریں‘ آپ کسی پہاڑی یا سمندری مقام پر چلے جائیں اور کسی دوست یا جاننے والے سے رابطہ نہ کریں‘ موبائل فون اور لیپ ٹاپ ہرگز استعمال نہ کریںاور روز صرف تین کام کریں‘ صبح پانچ بجے اٹھ جائیں‘ لمبی واک کریں‘ہلکا کھانا کھائیں اور رات 9 بجے سو جائیں۔ 

موبائل فون بالکل استعمال نہ کریں‘ کتابیں پڑھیں‘ لوکل لوگوں کے ساتھ گپ لگائیں اور انھی کے کھانے کھائیں‘ آپ اللہ کے کرم سے سات دن میں نیا جنم لے کر واپس آئیں گے۔

یہ وہ نسخہ ہے جو دنیا کے تمام کام یاب لوگ استعمال کرتے ہیں‘ بل گیٹس نے جنگل میں لیک کے کنارے ایک گھر بنا رکھا ہے‘ یہ ہر ماہ تین دن کے لیے وہاں چلا جاتا ہے‘ اس گھر میں کوئی ماڈرن گیجٹ نہیں‘ یہ وہاں قدرتی زندگی گزارتا ہے اور نیا بن کر واپس آ جاتا ہے، آپ بھی یہ کر کے دیکھیں۔ 

نسخہ نمبر دو‘ آپ اگر کسی شہر یا جاب میں پھنس گئے ہیں‘ دفتر کا ماحول تیزابی یا ٹاکسک ہے اور آپ نفسیاتی‘ ذہنی اور جسمانی لحاظ سے بیمار ہو چکے ہیں تو آپ پہلے نبھانے کی کوشش کریں اگر کامیاب ہو جائیں تو ٹھیک ورنہ دل مضبوط کر کے چھوڑ دیں۔ 

طلاق لیں یا دے دیں‘ نوکری پر لات ماریں اور اگر گاؤں‘ شہر یا ملک چھوڑنا پڑتا ہے تو فوراً چھوڑ دیں‘ آپ یہ یاد رکھیں آپ انبیاء کرام سے بڑے نہیں ہیں اور زیادہ تر انبیاء کرام کو اپنے خاندان‘ قبیلے‘ والدین‘ دوست احباب اور بیوی بچے چھوڑنا پڑے تھے‘ شہر سے بھی ہجرت کرنی پڑی اور ان کی زمین ‘ جائیداد اور کاروبار بھی ختم ہوئے۔ 

یہ لوگ جب اللہ تعالیٰ کے قرب اور مدد کے باوجود ’’گیواپ‘‘ پر مجبور ہو گئے تو پھر آپ اور ہم کیا چیز ہیں؟ جب دنیا کے تمام بڑے‘ کام یاب اور فاتح وطن اور خاندان چھوڑنے پر مجبور ہوئے تو پھر آپ اور میں کسی کھیت کی مولی ہیں‘ ہمارے سامنے بھٹو خاندان جلاوطن ہوا‘ شریف خاندان تین مرتبہ اقتدار سے نکلا‘ دربدر ہوا‘ عمران خان آج جیل میں پڑا ہے اور جنرل پرویز مشرف بھی آخری وقت ملک سے باہر گزارنے پر مجبور ہو گیا تو پھر ہم کیا ہیں۔

چنانچہ یہ آپشن ضرور اور فوراً لیں آپ بچ جائیں گے اور آپ کی زندگی بھی بدل جائے گی اور آخری نسخہ‘ یہ ایک کہانی ہے‘ آپ اس کہانی کو لکھ کر سامنے لگا لیں‘ یہ زندگی کے ہر مشکل وقت میں آپ کی مدد کرے گی۔

بادشاہ نے قیدی کو سزائے موت سنا دی‘ قیدی نے بادشاہ سے دو منٹ مانگے اور پھر عرض کیا‘ بادشاہ سلامت اگرمیں مر گیا تو میرے ساتھ ایک حیران کن فن بھی مر جائے گا‘ میں پوری دنیا میں اس فن کا واحد ماہر ہوں‘ بادشاہ نے پوچھا ’’وہ کیا فن ہے؟‘‘ قیدی نے جواب دیا ’’جناب میں گھوڑے کو اڑانا سکھا سکتا ہوں۔ 

بادشاہ نے پوچھا ’’کیسے؟‘‘ قیدی نے جواب دیا اگر مجھے چھوٹا سا محل‘ دس پندرہ نوکر چاکر اور آپ کاعزیز ترین گھوڑا مل جائے تو میں اسے اڑھائی سال میں اڑا کر دکھا دوں گا‘ بادشاہ نے پوچھا ’’اور اگرتم ناکام ہو گئے تو پھر‘‘ قیدی نے جواب دیا‘ آپ میرا سر اتار دیجیے گا۔

بادشاہ نے وزیر کو حکم دیا ‘اسے اس کی خواہش کے مطابق سب کچھ دے دو اور اگر یہ اڑھائی سال بعد ناکام ہو جائے تو اس کی گردن کاٹ دینا یوں قیدی کو محل‘ نوکر اور گھوڑا مل گیا‘ وہ جب گھوڑا لے کر جا رہا تھا تو کسی نے اس سے کہا‘ او بے وقوف انسان دنیا میں کبھی گھوڑا بھی اڑا ہے‘ تم بالآخر مارے جاؤ گے۔ 

قیدی نے ہنس کر جواب دیا ’’بے وقوف میں نہیں تم لوگ ہو‘ میں پھانسی لگنے والا تھا لیکن مجھے اس ڈیل سے اڑھائی سال مل گئے‘ میں اس عرصے میں محل میں رہوں گا اور بادشاہ کے گھوڑے کو انجوائے کروں گا۔

پوچھنے والے نے پوچھا اور تم اس کے بعد کیا کرو گے‘ اس نے جواب دیا اڑھائی سال میں ہو سکتا ہے بادشاہ مر جائے‘ ہو سکتا ہے میں نہ رہوں اور یہ بھی عین ممکن ہے گھوڑا واقعی اڑنا سیکھ جائے۔

آپ بھی بے شک جو کرنا چاہتے ہیں کریں لیکن اس سے پہلے ٹائم ضرور بائی کریں‘ ہو سکتا ہے آپ کو تکلیف دینے والا مر جائے‘ آپ کا بلاوا آ جائے یا پھر آپ نے جو کام اسٹارٹ کیا ہے وہ واقعی ہو جائے۔

کاش عدیل اکبر کو یہ تین تکنیکس معلوم ہوتیں تو شاید یہ آج بھی زندہ ہوتا۔

متعلقہ مضامین

  • امریکہ نے فیلڈ مارشل کی تعریفیں بہت کیں لیکن دفاعی معاہدہ ہندوستان کیساتھ کرلیا، پروفیسر ابراہیم
  • ہانیہ عامر کی عاصم اظہر کی سالگرہ میں شرکت
  • فیلڈ مارشل کو سلام، گلگت بلتستان کو ترقی کے تمام مواقع دیئے جائینگے: صدر زرداری
  • عدیل اکبرکو کیاکرناچاہیے تھا؟
  • مارشل آرٹس اسٹار راشد نسیم نے مزید 4 نئےعالمی ریکارڈز بنا ڈالے
  • فیلڈ مارشل ایوب خان کے پڑپوتے کے گھر چوری، سابق صدر کی یادگار اشیاء بھی غائب
  • ملتان یونیورسٹی اور لیجنڈ انسٹیٹیوٹ کے طلباء و اساتذہ کا ملتان گیریژن کا دورہ، شہداء کو خراجِ عقیدت اور پاک فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو سراہا
  • وزیراعلیٰ بلوچستان کا شہید ایس ایچ او کے اہلِ خانہ سے تعزیت، اعزازات اور مالی امداد کا اعلان
  • چیئرمین کل مسالک علماء بورڈ مولانا عاصم مخدوم کی اٹلی میں پوپ لیو سے ملاقات
  • افغان سرزمین سے دہشتگردی برداشت نہیں کرینگے، ہمسایوں سے امن چاہتے ہیں: فیلڈ مارشل