یمن کے طویل بحران پر گہری تشویش ہے: پاکستان
اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT
اقوام متحدہ میں پاکستان مستقل مندوب عاصم افتخار احمد—فائل فوٹو
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے کہا ہے یمن کے طویل بحران پر گہری تشویش ہے۔ انہوں نے کشیدگی کو کم کر نے کے لئے جامع مذاکرات کے ذریعے سیاسی، انسانی اور سماجی و اقتصادی چیلنجز سے نمٹنے پر زور دیا ہے۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ برسوں کے تنازعات نے یمنی عوام کو بے پناہ مصائب سے دوچار کیا ہے اور سیاسی تقسیم، اقتصادی تباہی ماحولیاتی انحطاط نے ان کی حالت زار کو مزید خراب کر دیا ہے۔
اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب عاصم افتخار نے کہاہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر اہم اورحل طلب معاملہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یمن میں تنازعات نے وسیع علاقائی جہت اختیار کر لی ہے، جس کے بین الاقوامی امن اور سلامتی پر سنگین مضمرات ہیں۔
پاکستانی مندوب نے کہا کہ صورت حال کو فوری، اجتماعی اور تعمیری اقدام کا تقاضہ کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کے لیے غزہ میں فوری جنگ بندی اور بین الاقوامی قانونی جواز کے مطابق فلسطینیوں کی ریاست کا احساس کرنے کے لیے فوری اور قابل اعتماد اقدامات کی ضرورت ہے۔
قحط کے خطرے کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے، انہوں نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ او سی ایچ اے کی انسانی ہمدردی کی اپیل پر فراخدلی سے جواب دے۔
عاصم افتخارنے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو ایک مشترکہ اور واضح پیغام بھیجنا چاہیے کیونکہ یمن کے لوگ امن، وقار اور خوف، بھوک اور مایوسی سے پاک مستقبل کے مستحق ہیں۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ میں پاکستان مندوب عاصم افتخار انہوں نے کہا کہ نے کہا
پڑھیں:
ماحولیاتی تباہ کاریوں کو اب قدرتی نہیں، بلکہ انسان ساختہ جرائم کہیں گے، شیری رحمان
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی کی چیئرپرسن سینیٹر شیری رحمان نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان ماحولیاتی آفات کی زد میں ہے، اور یہ ہماری آخری وارننگ ہے۔
اسلام آباد میں منعقدہ کانفرنس ’ماحولیاتی آفات یا اجتماعی اقدام: پاکستان کی آخری وارننگ‘ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک تیزی سے درجہ حرارت، سیلاب، گلیشیئر پگھلاؤ اور پانی کے بحران کا سامنا کر رہا ہے، مگر ہم ابھی تک اجتماعی غفلت کا شکار ہیں۔
شیری رحمان نے انکشاف کیا کہ جرمن واچ کے کلائمیٹ رسک انڈیکس 2025 کے مطابق پاکستان دنیا کا سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے۔ ان کے مطابق ملک میں 50 ڈگری سینٹی گریڈ کی گرمی، اچانک سیلاب اور ژالہ باری معمول بن چکے ہیں۔ گزشتہ 5 سال میں پاکستان کے گلیشیئرز کا 16 فیصد ماس ختم ہو چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی 90 فیصد آبی کھپت زرعی شعبے میں ہوتی ہے، جو ماحولیاتی جھٹکوں کی زد میں ہے۔ ملک کی 37 فیصد افرادی قوت زرعی معیشت سے وابستہ ہے، لیکن یہ شعبہ بحران کا شکار ہے۔ مزید برآں، 45 فیصد پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے ہیں جبکہ 21 فیصد کو غذائی قلت کا سامنا ہے۔
مزید پڑھیں: ماحولیاتی بجٹ میں کٹوتی اور گرین ٹیکنالوجی پر ٹیکس: کیا پاکستان ماحول دوست ترقی سے منہ موڑ رہا ہے؟
شیری رحمان کے مطابق، 8.3 ملین کسان خاندان موسمیاتی اثرات سے متاثر ہیں، ان کی فصلیں اور مویشی تباہ ہو رہے ہیں۔ ماحولیاتی تباہ کاریاں دیہی سے شہری علاقوں کی طرف ہجرت میں تیزی لا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فضائی آلودگی ہر سال 1.28 لاکھ پاکستانیوں کی جان لے رہی ہے اور یہ آلودگی ملکی معیشت کو سالانہ 7 فیصد نقصان پہنچا رہی ہے۔
سینیٹر شیری رحمان نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان ماحولیاتی تباہ کاریوں کو اب قدرتی نہیں بلکہ انسان ساختہ جرائم کہا جانا چاہیے۔ سوات کے حالیہ سیلاب میں انسانی کوتاہی کے باعث قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور ریسکیو تاخیر سے پہنچی۔ عطا آباد جھیل میں ہوٹلوں کی جانب سے گندے پانی کا اخراج اس بگاڑ کی ایک واضح مثال ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ غیر قانونی مائننگ، جنگلات کی کٹائی، دریا کنارے تجاوزات اور فوسل فیولز کا بڑھتا استعمال ماحولیاتی بحران کو سنگین تر بنا رہا ہے۔ انہوں نے بجٹ پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے وزارتِ ماحولیاتی تبدیلی کا بجٹ 3.5 ارب سے کم کرکے 2.7 ارب کر دیا ہے، اور ماحولیاتی تحفظ کے فنڈز بھی 7.2 ارب سے کم ہو کر 3.1 ارب رہ گئے ہیں۔
شیری رحمان نے خبردار کیا کہ ہر سال 27 ہزار ہیکٹر زرخیز زمین ختم ہو رہی ہے مگر کوئی بحالی اسکیم موجود نہیں۔ انہوں نے الیکٹرک گاڑیوں پر ٹیکس کو قومی مفاد کے خلاف اقدام قرار دیا اور کہا کہ محکمہ موسمیات اور NDMA تنہا یہ بحران نہیں سنبھال سکتے، نجی شعبے کی شراکت سے قومی ماحولیاتی نظام (National Climate Ecosystem) تشکیل دینا ہو گا۔
مزید پڑھیں: ’ماحولیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے ریکارڈ بجٹ مختص‘، مریم اورنگزیب کا دعویٰ
انہوں نے زور دیا کہ پاکستان 2030 تک ماحولیاتی تحفظ کے لیے 348 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا متقاضی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کاربن کا بڑا حصہ خارج کر رہے ہیں، مگر خمیازہ ترقی پذیر ممالک بھگت رہے ہیں۔
شیری رحمان نے نوجوانوں کو ماحولیاتی بحران کا سب سے بڑا ہدف قرار دیتے ہوئے کہا کہ 26 ملین بچے اسکولوں سے باہر ہیں، تعلیم میں ماحولیاتی شعور شامل کرنا ناگزیر ہے۔ نوجوانوں کو گرین ٹیکنالوجی، ایگریکلوجی، اور ری اسٹوریشن میں تربیت دینا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ نظامی ربط ٹوٹ چکا ہے، وارننگ سسٹمز کمزور ہو گئے ہیں، اور کوئی ادارہ جوابدہ نظر نہیں آتا۔ یہ بحران رک نہیں رہا بلکہ پورے ملک میں پھیل رہا ہے۔
آخر میں شیری رحمان نے پرزور اپیل کی کہ یہ فیصلہ کن لمحہ ہے: یا ہم متحد ہو کر ماحولیاتی بحران کا مقابلہ کریں یا تباہی کے لیے تیار ہو جائیں۔ ان کے بقول، یہ صرف ماحولیاتی بحران نہیں، ایک انسانی بحران ہے اور اس کا حل اجتماعی سیاسی، مالیاتی اور سماجی ارادے سے ہی ممکن ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
’ماحولیاتی آفات یا اجتماعی اقدام: پاکستان کی آخری وارننگ‘ پاکستان سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان کلائمیٹ رسک انڈیکس 2025