افغانستان کو تنہا نہ چھوڑیں، دیرپا امن کیلیے عملی اقدام ہی واحد راستہ ہے، پاکستان کا اقوام متحدہ میں مؤقف
اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT
نیویارک:
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں افغانستان کی صورتحال پر مباحثے میں پاکستان کے مستقل مندوب سفیر عاصم افتخار احمد نے عالمی برادری پر زور دیا کہ افغانستان کو تنہا نہ چھوڑیں، دیرپا امن کیلیے عملی اقدام ہی واحد راستہ ہے۔
پاکستان کے مستقل مندوب سفیر عاصم افتخار احمد نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ،
محترم صدرِ اجلاس،
ہم آپ کے شکر گزار ہیں کہ آپ نے اس اہم بحث کا انعقاد کیا۔ یہ افغانستان کی صورتحال پر غور و فکر کا ایک اہم موقع ہے۔ پاکستان افغانستان کا قریبی ترین ہمسایہ ملک ہے۔ ہمارے دونوں عظیم ممالک جغرافیہ، تاریخ، ثقافت، نسل، زبان، مذہب اور تہذیب کے مضبوط برادرانہ رشتوں سے بندھے ہوئے ہیں۔ ایک فوری ہمسایہ ہونے کے ناتے، افغانستان میں امن و استحکام پاکستان کے لیے ایک قدرتی ضرورت ہے۔
افغان عوام نے شدید مصائب کا سامنا کیا ہے۔ چالیس سالہ خانہ جنگیوں، غیر ملکی مداخلتوں، تشدد اور دہشتگردی نے اس ملک کو تباہی، عدم استحکام، انتشار اور بے دخلی سے دوچار کیا—جس کے اثرات سرحدوں سے باہر بھی محسوس کیے گئے۔
چار دہائیوں میں پہلی مرتبہ افغانستان میں جنگ کا خاتمہ دیکھنے کو ملا ہے۔ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کو تقریباً چار سال ہو چکے ہیں۔
اب ایک پُرامن افغانستان کے لیے نئی امیدیں جنم لے رہی ہیں ایسا افغانستان جو اپنے شہریوں کے ساتھ، ہمسایوں اور عالمی برادری کے ساتھ ہم آہنگ ہو؛ جہاں ہر فرد کو—خواہ وہ کسی بھی جنس، نسل، سیاسی وابستگی یا مذہب سے تعلق رکھتا ہو—عزت اور انصاف حاصل ہو؛ اور ایک ایسا خوشحال افغانستان جو دہشتگردی سے پاک ہو اور عالمی برادری کا حصہ بن چکا ہو۔
تاہم، امید کے ساتھ ساتھ مایوسی اور خوف بھی موجود ہیں۔ افغان عوام بدستور مصائب کا شکار ہیں—پابندیاں، غیر فعال بینکاری نظام، نقدی کا بحران، غربت، کم ہوتی انسانی امداد، دہشتگردی، منشیات اور انسانی حقوق سے متعلق خدشات نے ان کی زندگی کو مزید مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ افسوس کہ افغان سرزمین تاحال دہشتگردوں، بالخصوص پراکسی گروہوں، کے ذریعے دوسرے ممالک خصوصاً پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔
محترم صدرِ اجلاس،
ہمیں افغانستان کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے۔ عملی اور حقیقت پسندانہ مصروفیت، مکالمے اور سفارتکاری کے ذریعے ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔ پاکستان نے عبوری حکومت سے اعلیٰ سطحی رابطے مستقل طور پر برقرار رکھے ہیں۔ نائب وزیرِ اعظم و وزیرِ خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے 19 اپریل کو کابل کا دورہ کیا، جبکہ مئی میں بیجنگ میں افغانستان، پاکستان اور چین کے وزرائے خارجہ کی سہ فریقی بات چیت کامیابی سے ہوئی۔ ہم ماسکو فارمیٹ، ہمسایہ ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس، اور شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) جیسے علاقائی پلیٹ فارمز کی بھی حمایت کرتے ہیں۔
ہم اقوام متحدہ کی زیر قیادت کوششوں، جیسے دوحہ عمل، کی حمایت کرتے ہیں تاکہ عبوری حکومت سے باضابطہ رابطہ قائم رکھا جا سکے۔ پاکستان نے سب سے پہلے مسلسل روابط کی ضرورت پر زور دیا اور ایک واضح روڈ میپ تجویز کیا تھا۔ ہم طالبان کے ذریعہ پوست کی کاشت پر پابندی کے بعد کسانوں کو متبادل روزگار کی فراہمی کے لیے اقوام متحدہ کی کوششوں کو سراہتے ہیں، جو ایک مثبت قدم ہے۔
ایک جامع اور شراکتی فریم ورک کی فوری ضرورت ہے جو تمام مسائل کو یکساں اہمیت دے اور علاقائی خدشات کو بھی شامل کرے، جیسا کہ آزاد تجزیاتی رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے۔
محترم صدر،
ہماری اولین ترجیح انسانی بحران کو روکنا ہونی چاہیے۔ 2025 کے انسانی ضروریات اور امدادی منصوبے کو ابھی تک صرف 15.
افغانستان کے مسائل کا براہِ راست اثر ہم پر بھی پڑتا ہے۔ پاکستان نے دہائیوں سے لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دی ہے اور اپنی محدودات کے باوجود ہم کمزور افغانوں کی حفاظت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اگست 2021 سے اب تک، ایک ملین سے زائد غیر دستاویزی افراد نے پاکستان میں داخلہ لیا ہے، جس سے قانون و نظم عامہ جیسے مسائل نے جنم لیا۔ ہماری رائے میں عالمی برادری کو اس بوجھ میں مساوی حصہ ڈالنا چاہیے۔
دوسری بات، ہمیں افغان معیشت اور بینکاری نظام کو بحال کرنا ہوگا، بشمول مالی اثاثوں کو غیر منجمد کرنا، تاکہ تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دیا جا سکے۔ پاکستان اس ضمن میں علاقائی روابط کے منصوبے—TAPI، CASA-1000، ازبکستان-افغانستان-پاکستان ریلوے، اور CPEC کی توسیع—پر عملدرآمد کے لیے پرعزم ہے، جو نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے میں ترقی اور امن کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
تیسری بات، ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ افغانستان کے پورے علاقے پر صرف ایک ہی انتظامیہ کا کنٹرول ہے اور اس کو کوئی سنجیدہ چیلنج درپیش نہیں۔ ہمیں ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جو افغانستان کو دوبارہ جنگ کی طرف دھکیل سکتے ہیں، جس سے پورا خطہ متاثر ہو سکتا ہے۔ ہمیں یہ بھی یقینی بنانا ہوگا کہ افغانستان کے اندر یا باہر کوئی “بگاڑ پیدا کرنے والا عنصر” افغانستان میں عدم استحکام اور دہشتگردی کو ہوا نہ دے۔
چوتھی بات، ہمیں یقینی بنانا ہوگا کہ افغانستان ایک بار پھر دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہ بنے، جو نہ صرف ہمسایہ ممالک بلکہ پورے خطے اور دنیا کے لیے خطرہ ہو۔ افغانستان سے جنم لینے والی دہشتگردی ہمارے لیے شدید خطرہ ہے، بالخصوص پاکستان کے لیے۔ داعش (ISIL-K) عبوری حکومت کو نشانہ بنا رہی ہے جبکہ القاعدہ، الفتنہ الخوارج، ٹی ٹی پی اور بلوچ شدت پسند گروہ افغانستان کے غیر حکومتی علاقوں سے بدستور سرگرم ہیں۔ افغانستان کسی بھی ملک کے خلاف دہشتگردی کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔
ٹی ٹی پی، جس کے تقریباً 6,000 جنگجو ہیں، اقوام متحدہ کی جانب سے نامزد سب سے بڑا دہشتگرد گروپ ہے جو افغان سرزمین سے پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔ ٹی ٹی پی اور داعش کے مابین باہمی بھرتیوں کی وجہ سے یہ گروپ صرف ہمارے لیے ہی نہیں، بلکہ خطے اور دنیا کے لیے بھی خطرہ بن چکے ہیں۔
ہم مسلسل افغان سرزمین سے ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کی پاکستان میں دراندازی کی کوششوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جدید ہتھیاروں، گولہ بارود اور وہ ساز و سامان قبضے میں لیا ہے جو افغان سرزمین پر بین الاقوامی افواج چھوڑ گئی تھیں۔ یہی ہتھیار پاکستان پر حملوں کے لیے استعمال ہو رہے ہیں، جن میں حالیہ دو ہفتوں کے دوران شدید حملے شامل ہیں۔
یہ واقعات ہمارے خلاف دہشتگردی کے خطرے کی شدت اور نوعیت کو واضح کرتے ہیں۔ پاکستان اپنی عوام کے تحفظ کے لیے تمام ممکنہ اقدامات جاری رکھے گا۔
ہمارے پاس ایسے مصدقہ شواہد بھی موجود ہیں جو ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور مجید بریگیڈ جیسے گروہوں کے مابین تعاون کو ظاہر کرتے ہیں، جن کا مقصد پاکستان کے تزویراتی انفراسٹرکچر اور ترقیاتی منصوبوں کو سبوتاژ کرنا ہے۔
محترم صدر،
پاکستان عالمی برادری کی ان توقعات سے مکمل طور پر متفق ہے جو عبوری حکومت سے وابستہ کی گئی ہیں، بالخصوص خواتین کے حقوق اور وسیع تر سیاسی و سماجی شمولیت کے حوالے سے۔ ہم افغانستان میں خواتین اور بچیوں پر جاری پابندیوں پر شدید تشویش رکھتے ہیں، جو نہ صرف بین الاقوامی معیارات بلکہ اسلامی روایات کے بھی خلاف ہیں۔
جنوری میں مسلم ورلڈ لیگ کے زیرِ اہتمام منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس میں “اسلام آباد اعلامیہ” کے ذریعے اس بات پر اجماع کیا گیا کہ بچیوں کی تعلیم ایک بنیادی انسانی حق ہے جو اسلامی اقدار میں جڑیں رکھتا ہے۔
پاکستان افغان نوجوانوں کے لیے تعلیمی سرگرمیوں اور مواقع کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ علامہ اقبال اسکالرشپ پروگرام کا تیسرا مرحلہ جاری ہے، جس سے 4,500 افغان طلبا و طالبات مستفید ہو رہے ہیں، جن میں سے ایک تہائی طالبات ہیں۔
محترم صدر،
جو کچھ طاقت کے زور پر حاصل نہ ہو سکا، وہ پابندیوں، مالی دباؤ یا تنہائی سے بھی حاصل نہیں ہو گا۔ بلکہ اس سے افغانستان میں غربت اور بھوک بڑھے گی، نیا تنازعہ جنم لے گا، اور مہاجرین کا ایک اور ریلا آئے گا، جسے افغانستان کے ہمسائے مزید برداشت نہیں کر سکتے۔
عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ مشترکہ آواز میں بات کرے تاکہ عبوری حکومت کو اپنے وعدوں پر کاربند رکھا جا سکے—بالخصوص اس وعدے پر کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہو، اور ایک مستحکم، ترقی یافتہ، دہشتگردی سے پاک اور پرامن افغانستان کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کیا جا سکے۔
پاکستان علاقائی اور عالمی رابطوں کی کوششوں میں شراکت کے لیے تیار ہے۔ ان کوششوں میں واضح اہداف، باہمی اقدامات، اور ایک حقیقت پسندانہ روڈ میپ ہونا چاہیے جو افغانستان کے منفرد سماجی و سیاسی ڈھانچے کے مطابق ہو اور وہاں کے عوام کے بہترین مفاد میں ہو۔ پاکستان افغانستان میں دیرپا امن و استحکام کے قیام کے لیے اپنا تعمیری اور فعال کردار جاری رکھے گا۔
میں آپ کا شکر گزار ہوں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ کی افغانستان میں افغانستان کے کہ افغانستان افغان سرزمین عالمی برادری افغانستان کو عبوری حکومت پاکستان کے جاری رکھے کہ افغان کرتے ہیں جو افغان ٹی ٹی پی اور ایک جا سکے کے لیے
پڑھیں:
پاک افغان تعلقات اورمذاکرات کا پتلی تماشہ
پاکستان اور افغانستان کے حالات نہ صرف کشیدگی بلکہ جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ دہشت گردی کے واقعات اور افغان طالبان کی دوغلی پالیسی ہے۔ حالیہ دنوں میں قطر اور ترکیہ کی میزبانی اور ثالثی کے کردار کے باوجود مذاکرات ناکام ہوئے ہیں۔ اس ناکامی نے مستقبل کی بہتری کے امکانات پرسوالات کھڑے کردیے ہیں۔
اس کا مجموعی اثر خطے میں دہشت گردی کی وجوہات کو دور کرنے میں مدد دے سکتا تھا۔ حالیہ مذاکرات کے نتیجے میں جو امید کے پہلو قائم ہوئے تھے کہ معاملات بات چیت کی صورت میں حل ہوسکیں گے، وہ بھی دم توڑ گئے ہیں۔ اب حالات ایک ایسے مقام پر کھڑے ہیں جہاں سفارت کاری کے بجائے کشیدگی بڑھے گی اور ایسے لگتا ہے کہ مذاکرات کی حکمت عملی کی ناکامی نے امن کے حمایتیوں کو مایوس کیا ہے۔
ان مذاکرات میں تین مواقع ایسے بھی دیکھنے کو ملے جہاں امید بندھی تھی کہ مفاہمت میں ایک بڑی پیش رفت سامنے آسکتی ہے جو تعلقات کی بہتری میں کلیدی کردار ادا کرنے کا سبب بن سکتی ہے ۔ اصولاً قطر اور ترکیہ کی مدد کی بنیاد پر مذاکرات آگے بڑھنا چاہیے تھے لیکن کابل میں بیٹھی افغان طالبان قیادت اور دہلی میں بیٹھی بھارت کی قیادت ان مذاکرات کو ناکام بنانے میں مصروف تھی ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ جب بھی بات چیت آگے بڑھتی تو مذاکرات میں شامل افغان وفد کہتا کہ وہ کابل اور قندھار سے اجازت لے لیں لیکن انھیں اجازت کے بجائے نئے مطالبات کی لسٹ مل جاتی ، یوں مذاکرات میں ڈیڈ لاک پیدا ہوتا رہا۔قطر اور ترکیہ کو بھی کافی سبکی کا سامنا کرنا پڑا کہ افغان حکومت کا طرز عمل سفارتی آداب کے برعکس تھا ۔پاکستان نے یہ بھی واضح کردیا کہ ہم نے صرف قطر اور ترکیہ کی درخواست پر مذاکرات میں شرکت کی تھی۔حالانکہ ہمیں پہلے سے اندازہ تھا کہ افغان حکومت کا ایجنڈا پاکستانی مفادات کے برعکس ہے، وہ دہشت گردی ، ٹی ٹی پی اور دیگر ایشوز پر نہ تو سنجیدہ ہے اور نہ ہی کوئی عملی اقدامات کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا چاہتا ہے۔
پاکستان کا واحد ایجنڈا دہشت گردی کے لیے افغانستان کی سرزمین کے استعمال کو روکنا تھا اور پاکستان افغان حکومت سے تحریری ضمانت یا معاہدہ چاہتا تھا۔لیکن افغان طالبان حکومت کی جانب سے تحریری معاہدے سے انکاری اور انحراف ہی مذاکرات کی ناکامی کی بنیادی وجہ بنا ۔حالانکہ افغان حکومت کو پاکستان نے ٹی ٹی پی کی دہشت گردی پر مبنی شواہد بھی پیش کیے اور اسے افغان حکومت نے تسلیم بھی کیا مگر تحریری معاہدہ کرنے سے انکار کیا جو ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس اہم معاملے پر تاخیری حربے اختیار کرنا چاہتے تھے ۔پاکستان افغانستان کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے اہل دانش کے بقول اگر افغانستان کا وفد بااختیار ہوتا تو مفاہمت کا راستہ نکل سکتا تھا لیکن افغانستان میں موجود افغان طالبان کی قیادت نے مذاکرات کو ناکام بنایا ، یقیناً یہ افغان طالبان اور بھارت کا ایجنڈا تھا۔
طالبان قیادت کو یاد رکھنا چاہیے کہ جنگ کی بات کرنا بہت آسان ہوتا ہے مگر جنگ کے نتیجے میں جو حالات کا بگاڑ پیدا ہوتا ہے، وہ ممالک کو بہت پیچھے کی طرف دھکیل دیتا ہے۔یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ قطر اور ترکیہ کے بعد بڑی عالمی طاقتیں یعنی امریکا اور چین اس ڈیڈ لاک میں کوئی کردار ادا کرنے کی کوشش کریں گے یا دونوں ممالک کو جنگ کے میدان میں دھکیل دیںگے۔
کچھ سادہ لوح یا حد سے زیادہ چالاک سفارت کار اس نقطہ پر زور دیتے ہیں کہ پاکستان کو افغانستان سے تحریری معاہدے پر زور نہیں دینا چاہیے تھا اور نہ ہی افغان طالبان نے تحریری ضمانت دینی تھی ۔ان کی رائے یہ تھی کہ اگر زبانی طور پر افغان حکومت افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہ ہونے اور ٹی ٹی پی کے خلاف کاروائی کی یقین دہانی کراتی تو ہمیں یہ آفر قبول کرنی چاہیے تھی ۔لیکن حقائق یہ بتاتے ہیں کہ زبانی یقین دہانی کابل کئی دفعہ کرچکا ہے اور بار بار اس پر عملدرآمد کی ناکامی نے پاکستان کو تحریری معاہدے پر مجبور کیا ۔دوئم، افغان حکومت نے قطر اور ترکیہ کو بھی افغان طالبان کی طرف سے زبانی ضمانت دینے سے انکار کیا تھا جو عملی طور پر مذاکرات کی ناکامی کی وجہ بنی۔
اس وقت چین یا امریکا یا سعودیہ عرب بھی معاملات کے سدھار میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ دونوں ممالک جنگ یا کشیدگی سے بچ سکیں۔ ہمیں اپنے سفارتی کارڈ یا سیاسی حکمت عملیوں کو اور زیادہ ذمے داری کے ساتھ کھیلنا ہو گا۔یہ بات بھی سمجھنی ہوگی کہ افغانستان پاکستان کے تحفظات کو کسی بھی طور پر سمجھنے کے لیے تیار نہیں تو ایسے میں کیا حتمی نتیجہ جنگ کی صورت ہی میں نکالنا لازم ہے۔ ہمیں مذاکرات کی ترتیب میں نئی حکمت عملی کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہیے۔افغان حکومت کے پاس ترکیہ اور قطر میں مفاہمت کو پاکستان کے ساتھ آگے بڑھانے کا اچھا موقع تھا مگر افغان حکومت فائدہ نہیں اٹھا سکی اور آج دونوں ممالک جو کل تک برادر اسلامی ملک تھے اب جنگ کی حالت میں ہیں۔
افغانستان کو بھارت سے خبردار رہنا چاہیے جو اسے ایک بڑے سیاسی ہتھیار کی بنیاد پر پاکستان کی مخالفت میں استعمال کرنا چاہتا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان نیا سیاسی رومانس بھی پاکستان دشمنی کی بنیاد پر دیکھا جارہا ہے ۔اس لیے خود افغان طالبان حکومت کو اپنی سیاسی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور خود کو پاکستان دشمنی کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے بجائے تعلقات کی بہتری کو ہی اپنا ایجنڈا بنانا چاہیے۔
اس وقت جو منظرنامہ سامنے آیا ہے اس میں یقیناً یہ عمل ضروری نہ ہو کہ ہمیں جارحانہ راستہ اختیار کرنا ہے لیکن یہ امکان موجود ہے کہ ان مذاکرات کی ناکامی کے بعد کشیدگی اور دہشت گردی کا پھیلاؤ بڑھ سکتا ہے ، ٹی ٹی پی پاکستان میں جنگ کا دائرہ کار مزید پھیلا سکتی ہے۔ طالبان افغان حکومت کا حالیہ طرز عمل بھارتی ایما پر پاکستان دشمنی کی بنیاد پر ہی دیکھنے کو مل رہا ہے۔