اقوامِ متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے معائنہ کار ایران چھوڑ کر واپس روانہ ہوگئے
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
اقوامِ متحدہ کے جوہری نگران ادارے (آئی اے ای اے) کے معائنہ کار ایران سے واپس روانہ ہوگئے، آئی اے ای اے نے اس امر کی تصدیق کرتے ہوئے ایران میں انتہائی ضروری نگرانی کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے، اگرچہ ایران نے اسرائیل اور امریکا کی جانب سے اس کی جوہری تنصیبات پر حملوں کے بعد باضابطہ طور پر تعاون معطل کر دیا ہے۔
An IAEA team of inspectors today safely departed from Iran to return to the Agency headquarters in Vienna, after staying in Tehran throughout the recent military conflict.
— IAEA – International Atomic Energy Agency ⚛️ (@iaeaorg) July 4, 2025
ڈان اخبار میں شائع عالمی خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی نے ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں کہا کہ آئی اے ای اے کی ایک ٹیم نے آج ایران سے محفوظ طریقے سے روانگی اختیار کی تاکہ وہ ویانا میں ادارے کے صدر دفتر واپس جا سکیں، یہ ٹیم حالیہ فوجی تنازع کے دوران تہران میں موجود رہی۔
آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی نے ایران کے ساتھ فوری طور پر نگرانی اور تصدیقی سرگرمیوں کی بحالی کے لیے طریقہ کار پر تبادلہ خیال کی اہمیت پر زور دیا۔
ایران نے بدھ کے روز باضابطہ طور پر اقوامِ متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے ساتھ تعاون معطل کر دیا تھا، جس کے بعد اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات پر اپنے پہلے فوجی حملے کیے، اور گزشتہ ماہ امریکا نے بھی حملے کیے تھے۔
جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) کا رکن ہونے کے ناطے، ایران کو اپنے افزودہ یورینیم کی مکمل معلومات دینا ہوتی ہیں، جس کی عام طور پر آئی اے ای اے سخت نگرانی کرتا ہے، تاہم، ایران کی تنصیبات پر بمباری کے بعد صورت حال پیچیدہ ہو گئی ہے۔
Post Views: 2ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ا ئی اے ای اے
پڑھیں:
غزہ میں عالمی فورس کیلیے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے‘اردن ‘جرمنی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-01-19
عمان/برلن( مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ‘غزہ پلان’ کے تحت جنگ بندی کے بعد علاقے میں عالمی استحکام فورس کی تعیناتی کی تجاویز پراردن اور جرمنی، نے واضح کیا ہے کہ اس فورس کی کامیابی اور قانونی حیثیت کے لیے اسے لازماً اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا مینڈیٹ حاصل ہونا چاہیے۔ عالمی میڈیا کے مطابق، امریکا کی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے تحت زیادہ تر عرب اور مسلمان ممالک پر مشتمل ایک اتحاد فلسطینی علاقے میں فورس تعینات کرنے کی توقع ہے۔ بین الاقوامی استحکام فورس غزہ میں منتخب فلسطینی پولیس کو تربیت دینے اور ان کی معاونت کرنے کی ذمہ دار ہوگی، جسے مصر اور اردن کی حمایت حاصل ہوگی۔ اس فورس کا مقصد سرحدی علاقوں کو محفوظ بنانا اور حماس کو ہتھیاروں کی اسمگلنگ سے روکنا بھی ہوگا۔ اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے کہا کہ “ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اگر اس استحکام فورس کو مؤثر طریقے سے اپنا کام کرنا ہے تو اسے سلامتی کونسل کا مینڈیٹ حاصل ہونا ضروری ہے۔تاہم، اردن نے واضح کیا کہ وہ اپنے فوجی غزہ نہیں بھیجے گا۔ الصفدی کا کہنا تھا کہ ہم اس معاملے سے بہت قریب ہیں، اس لیے ہم غزہ میں فوج تعینات نہیں کر سکتے، تاہم انہوں نے کہا کہ ان کا ملک اس بین الاقوامی فورس کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔دوسری جانب، جرمنی کے ویزرخارجہ یوان واڈیفول نے بھی فورس کے لیے اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کی حمایت کی اور کہا کہ اسے بین الاقوامی قانون کی واضح بنیاد پر قائم ہونا چاہیے۔جرمن وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ان ممالک کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے جو نہ صرف غزہ میں فوج بھیجنے کے لیے تیار ہیں بلکہ خود فلسطینیوں کے لیے بھی اہم ہے جبکہ جرمنی بھی چاہے گا کہ اس مشن کے لیے واضح مینڈیٹ موجود ہو۔خیال رہے کہ گزشتہ ماہ اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ یہ منصوبہ ’اسرائیلی قبضے کی جگہ امریکی قیادت میں ایک نیا قبضہ قائم کرے گا، جو فلسطینی حقِ خودارادیت کے منافی ہے‘۔واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ نے اس خطے میں بین الاقوامی امن فورسز کئی دہائیوں سے تعینات کر رکھی ہیں، جن میں جنوبی لبنان میں فورس بھی شامل ہے، جو لبنانی فوج کے ساتھ مل کر حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان نومبر 2024 کی جنگ بندی پر عملدرآمد کو یقینی بنا رہی ہے۔