کیا روس کے بعد پاکستان بھی افغانستان کو تسلیم کر سکتا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
روس نے حال ہی میں افغانستان میں قائم طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا ہے جس کو خطے کے لیے ایک بڑی پیشرفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ جمعے کو یہی سوال جب پاکستان دفتر خارجہ ترجمان شفقت علی خان کے سامنے رکھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم نے روس کی جانب سے کابل میں حکومت کو تسلیم کیے جانے کی خبر دیکھی ہے، روس اس خطے کا اہم ملک ہے اور یہ 2 خودمختار ممالک کا باہمی معاملہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: روس نے افغان طالبان کی حکومت باضابطہ طور پر تسلیم کرلی
سفارتی ماہرین اسے ایک بہت بڑی اور خوش آئند پیشرفت قرار دے رہے ہیں جو خطے کا اقتصادی مستقبل سنوارنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
6 اہم ممالک کے افغان طالبان کے ساتھ سفارتی تعلقاتاس وقت چین، پاکستان، ایران، ازبکستان، متحدہ عرب امارات اور ترکیہ کے افغان ساتھ سفارتی تعلقات موجود ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ممکنہ عالمی تبدیلیوں کے تناظر میں یہ ممالک افغان طالبان حکومت کو تسلیم کر سکتے ہیں۔
چینچین نے افغانستان کے ساتھ اپنے سفارتی اور تجارتی تعلقات کو مضبوط کیا ہے۔ دسمبر 2023 میں چین نے افغان طالبان حکومت کی جانب سے بیجنگ میں سفیر تعیّنات کرنے کی منظوری دی جو ایک بڑی سفارتی پیشرفت تھی لیکن چین نے اس کے بعد بھی باقاعدہ طور پر افغان طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ سفارتی ماہرین کے مطابق چین روس کو فالو کرتے ہوئے افغان طالبان حکومت کو تسلیم کر سکتا ہے۔
پاکستان15 اگست 2021 افغان طالبان حکومت کے برسر اقتدار آنے سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات بہت زیادہ خراب رہے لیکن اس کے باوجود اکتوبر 2021 میں افغان حکومت کا اسلام آباد میں سفارتخانہ کھولا گیا۔ افغانستان کی جانب سے دہشتگرد حملوں کی سہولت کاری کے الزامات پر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہت کشیدہ رہے اور پھر ستمبر 2023 میں نگران حکومت نے پاکستان میں موجود افغان پناہ گزینوں کی ملک بدری کا فیصلہ کیا تو اس پر بھی افغان طالبان حکومت کا شدید رد عمل آیا۔ لیکن اس سال 19 اپریل کو نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار کا دورہ کابل اور اس کے بعد 21 مئی کو بیجنگ میں پاکستان چین اور افغانستان کے درمیان سہ فریقی مذاکرات کے بعد صورتحال میں خاصا بدلاؤ آیا۔ اس کے بعد پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے ہاں باقاعدہ سفیر تعیّنات کیے اور تجارتی معاہدے بھی کیے۔
مزید پڑھیے: روس کھل کر امریکا اور اسرائیل کے خلاف ایران کی مدد کرے، خامنہ ای کی پیوٹن سے اپیل
دہشتگردی کے معاملے پر اب بھی پاکستان کے افغانستان کے ساتھ تحفظات چلے آ رہے ہیں اور جمعے کو بھی ترجمان دفتر خارجہ نے میڈیا بریفنگ کے دوران بتایا کہ ہمارے افغانستان سے باہمی تعلقات انتہائی اہم ہیں۔
ان تعلقات میں ہم مسلسل دہشتگردی کا معاملہ اپنے افغان دوستوں کے ساتھ اٹھاتے رہتے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات مزید بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ پاک افغان تعلقات میں بنیادی مسئلہ دہشتگردی ہے اور ہندوستان اس دہشتگردی میں ملوث ہے۔
متحدہ عرب اماراتمتحدہ عرب امارات نے بھی افغان طالبان حکومت کی جانب سے سفیر کی تعیناتی کو قبول کیا تھا جو کہ ایک طرح سے ڈی فیکٹو تسلیم کیا جانا شمار ہو سکتا ہے۔
ازبکستان، ایران اور ترکیہازبکستان نے سنہ 2021 میں طالبان سفیر کو اپنے ہاں تاشقند میں متعین کیا اور پھر دسمبر 2023 میں طالبان کو دہشتگردوں کی فہرست سے خارج کیا۔
اس کے علاوہ ترکیہ اور ایران کے بھی افغانستان کے ساتھ اسی نوعیت کے سفارتی تعلقات ہیں۔
دیگر ممالک بھی تسلیم کر لیں تو سالوں سے رکے منصوبے شروع ہو سکتے ہیں، ایمبیسیڈر مسعود خانپاکستان کے اقوام متحدہ میں سابق مستقل نمائندے اور امریکا میں سابق سفیر ایمبیسیڈر مسعود خان نے وی نیوز سے گفتگو کے دوران اسے انتہائی اہم پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کے لیے اہم پیشرفت ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ روس کے اس اقدام کی کئی دیگر ممالک بھی پیروی کریں گے خاص طور پر خطّے کے وہ ممالک جو اس حوالے سے جھجھک کا شکار تھے۔
مزید پڑھیں: پاکستان اور افغانستان کا کابل ملاقات میں ہونے والے فیصلوں پر جلد عملدرآمد پر اتفاق
انہوں نے کہا کہ سنہ 2021 کے بعد سے افغان طالبان حکومت نے وہاں بہت سے ٹیکسز نافذ کیے ہیں، بجٹ کے بغیر دیے ہیں، اب ان کا حق بنتا ہے کہ ان کو تسلیم کیا جائے اور باقی ممالک بھی تقلید کریں گے۔ اس سے افغانستان کو بین الاقوامی سطح پر نمائندگی ملے گی اور اُس کی اقوام متحدہ کی رکنیت کے لیے بھی راہ ہموار ہو گی۔ اس پیشرفت سے خطہ معاشی ترقی کرے گا اور سالوں سے رکے ہوئے کاسا ون اور ترکمانستان۔افغانستان۔پاکستان۔انڈیا (تاپی) جیسے اقتصادی منصوبے روبہ عمل آئیں گے اور سب سے اہم بات کہ مشترکہ کوششوں سے خطّے میں دہشت گردی کو ختم کیا جا سکے گا۔
پاکستان چند اسلامی ممالک سے مشاورت کے بعد ہی افغانستان کو تسلیم کر سکتا ہے، ایمبیسیڈر مسعود خالدپاکستان کے سابق سینیئر سفارتکار ایمبیسیڈر مسعود خالد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈی فیکٹو طور پر تو چین اور ترکیہ نے بھی تسلیم کیا ہوا ہے لیکن روس نے باقاعدہ طور پر تسلیم کیا جو کہ ایک اہم بات ہے۔
انہوں نے کہا کہ روس سلامتی کونسل کا مستقل رکن اور ایک انتہائی اہم ملک ہے اور اس کی جانب سے افغان طالبان حکومت کو تسلیم کیا جانا ایک اہم پیشرفت ہے، ممکنہ طور پر وہ ماضی میں افغان طالبان کے ساتھ کشیدہ تعلقات کو ختم کرنا چاہتا ہو اور پھر اس کے اپنے ہاں بھی چیچنیا میں ایسے عناصر موجود ہیں جو طالبان سے مشابہہ ہیں لیکن عمومی طور پر دیکھا جائے تو روس خطے میں استحکام لانا چاہتا ہے۔ روس کی پیچھے دیگر ممالک بھی اس بارے پیشرفت کرنا چاہتے ہیں لیکن اقوام متحدہ میں طالبان سے متعلق معاملات اس سلسلے میں رکاوٹ ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: پاکستان اور افغانستان: تاریخ، تضاد اور تعلقات کی نئی کروٹ
مسعود خالد نے کہا کہ پاکستان کے بھی افغان طالبان حکومت کے ساتھ ڈی فیکٹو تعلقات تو موجود ہیں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے ہاں سفیر تعیّنات کیے ہوئے ہیں لیکن پاکستان اگر تسلیم کرے گا تو اسلامی ممالک سے مشاورت کے بعد ہی کرے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغانستان افغانستان کو تسلیم کرنا پاکستان چین روس متحدہ عرب امارات.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغانستان افغانستان کو تسلیم کرنا پاکستان چین متحدہ عرب امارات افغان طالبان حکومت کو تسلیم پاکستان اور افغانستان افغانستان کے ساتھ متحدہ عرب امارات ایمبیسیڈر مسعود افغانستان کو ان کو تسلیم کو تسلیم کر پاکستان کے کی جانب سے بھی افغان تسلیم کیا ممالک بھی ان تعلقات نے افغان سکتا ہے کے بعد کہا کہ کے لیے ہے اور
پڑھیں:
افغانستان ثالثی کے بہتر نتائج کی امید، مودی جوتے کھا کر چپ: خواجہ آصف
سیالکوٹ (نوائے وقت رپورٹ) وزیر دفاع خواجہ آصف نے نجی ٹی وی سے گفتگو میں بتایا ہے کہ طورخم بارڈر غیرقانونی طور پر مقیم افغانوں کی بیدخلی کیلئے کھولا گیا ہے۔ کسی قسم کی تجارت نہیں ہو گی۔ بیدخلی کا عمل جاری رہنا چاہئے تاکہ اس بہانے دوبارہ نہ ٹک سکیں۔ اس وقت ہر چیز معطل ہے۔ ویزا پراسس بھی بند ہے۔ جب تک گفت و شنید مکمل نہیں ہو جاتی یہ پراسس معطل رہے گا۔ افغان باشندوں کا معاملہ پہلی دفعہ بین الاقوامی سطح پر آیا۔ ترکیہ اور قطر خوش اسلوبی سے ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ پہلے تو غیرقانونی مقیم افغانوں کا مسئلہ افغانستان تسلیم نہیں کرتا تھا۔ افغانستان کا مؤقف تھا کہ غیرقانونی مقیم افغانوں کا مسئلہ پاکستان کا ہے۔ اب اس کی بین الاقوامی سطح پر اونرشپ سامنے آ گئی۔ سیز فائر کی خلاف ورزی ہم تو نہیں کر رہے افغانستان کر رہا ہے۔ اس ثالثی میں چاروں ملکوں کے اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے گفتگو کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ساری قوم خصوصاً خیبر پی کے کے عوام میں سخت غصہ ہے۔ اس مسئلے کی وجہ سے خیبر پی کے صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ حل صرف واحد ہے کہ افغان سرزمین سے دہشت گردی بند ہو۔ اگر دونوں ریاستیں سویلائزڈ تعلقات بہتر رکھ سکتے تو یہ قابل ترجیح ہو گا۔ بھارت کے پراکسی وار کے ثبوت کی اگر ضرورت پڑی تو دیں گے۔ بھارت ہمیں مشرقی اور مغربی محاذوں پر مصروف رکھنا چاہتا ہے۔ مشرقی محاذ پر تو بھارت کو جوتے پڑے ہیں۔ مودی تو چپ ہی کر گیا ہے۔ اس محاذ پر پرامید ہیں کہ دونوں ملکوں کی ثالثی کے مثبت نتائج آئیں گے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے ترجمان افغان طالبان کے گمراہ کن بیان پر ردعمل میں کہا ہے کہ پاکستان کی افغان پالیسی پر تمام پاکستانی متفق ہیں۔ اس اتفاق رائے میں پاکستان کی قوم‘ سیاسی اور فوجی قیادت شامل ہے۔ افغان طالبان بھارتی پراکسیز کے ذریعے دہشتگردی میں ملوث ہیں۔ طالبان حکومت اندرونی دھڑے بندی اور عدم استحکام کا شکار ہے۔ خواتین‘ بچوں اور اقلیتوں پر جبر افغان طالبان کا اصل چہرہ ہے۔ طالبان چار برس بعد بھی عالمی وعدے پورے نہ کر سکے اور بیرونی عناصر کے ایجنڈے پر عمل کر رہے ہیں۔ پاکستان کی افغان پالیسی قومی مفاد اور علاقائی امن کیلئے ہے۔ پاکستان سرحد پار دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن اقدامات جاری رکھے گا۔ جھوٹے بیانات سے حقائق نہیں بدلیں گے۔
پشاور (نوائے وقت رپورٹ) طورخم بارڈر سے 20 روز بعد غیرقانونی مقیم افغان باشندوں کی واپسی شروع ہو گئی۔ تاہم طورخم سرحد تجارت اور پیدل آمدورفت کیلئے بدستور بند رہے گی۔ ضلع خیبر کے ڈپٹی کمشنر بلال شاہد نے کہا ہے کہ طورخم سرحدی گزرگاہ کو ملک میں غیر قانونی رہائش پذیر افغان شہریوں کو بے دخل کرنے کیلئے کھول دیا گیا ہے۔ سینکڑوں افغان پناہ گزیں طورخم امیگریشن سینٹر پہنچ گئے جنہیں امیگریشن عملہ ضروری کارروائی کے بعد انہیں افغانستان جانے کی اجازت دیدی گئی۔ دوسری طرف چمن بارڈر سے ایک روز میں 10 ہزار 700 افغان مہاجرین کو افغانستان واپس بھجوایا گیا۔