پورانظام تبدیل کیے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا. شاہد خاقان عباسی
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔05 جولائی ۔2025 )عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ اورسابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ پاک پتن میں بچوں کی اموات، سانحہ سوات اور کراچی میں عمارت منہدم ہونے کے واقعات حکومتوں کی ناکامی ہیں، انہیں ذمہ داری کا احساس نہیں، پورا نظام تبدیل کیے بغیر آگے نہیں بڑھا جاسکتا.
(جاری ہے)
نجی ٹی وی سے گفتگو میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ حکومت ناکام ہو چکی، انہیں ذمہ داری کا احساس نہیں، تعلیم، صحت، پولیس، گورننس بد سے بدتر ہو رہی ہے عوام کو بنیادی حقوق سے محروم رکھا ہوا ہے انہوں نے کہا کہ کراچی میں قانون کے خلاف کئی عمارتیں بنی ہوئی ہیں، پورا نظام تبدیل کیے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا پاک پتن میں بچوں کی اموات، سانحہ سوات اور کراچی میں عمارت منہدم ہونے کے واقعات حکومتوں کی ناکامی ہیں، انہیں ذمہ داری کا احساس نہیں.
پی ٹی آئی سے متعلق سوال پرانہوں نے کہا کہ میں نے خط دیکھا نہیں کہ وہ خط کس نے لکھا ہے، اگر لکھا ہے تو پبلک کیوں کیا ہے میں اگر اپنی پارٹی کے چیئرمین کو خط لکھتا ہوں تو میڈیا کے حوالے کیوں کرتا ہوں سابق وزیراعظم نے کہا کہ پی ٹی آئی کی جماعت میں کوئی درمیان کی لیڈر شپ نہیں ہے وہ سب مرہون منت ہیں کہ عمران خان صاحب مجھ سے خوش ہیں یا نہیں ہیں، جماعت عمران خان ہیں اور نیچے ووٹر ہے یا ورکر ہے یہ جماعت اسی طرح چل رہی ہے. شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ کیا مذاکرات کریں گے، سیاسی حکومت کے پاس ہے کیا؟ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ یہ کیوں آج ملک کی کوئی بات کرتا نظر نہیں آ تا، کیا اپوزیشن اپنا کام کر رہی ہے؟ کیا اپوزیشن کے پاس جو ایک حکومت ہے وہ صحیح چل رہی ہے؟ باقی صوبوں سے بہتر چل رہی ہے؟ پھر وہ کیا بات کرنے جائیں گے؟.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ رہی ہے
پڑھیں:
کیا روس کے بعد پاکستان بھی افغانستان کو تسلیم کر سکتا ہے؟
روس نے حال ہی میں افغانستان میں قائم طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا ہے جس کو خطے کے لیے ایک بڑی پیشرفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ جمعے کو یہی سوال جب پاکستان دفتر خارجہ ترجمان شفقت علی خان کے سامنے رکھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم نے روس کی جانب سے کابل میں حکومت کو تسلیم کیے جانے کی خبر دیکھی ہے، روس اس خطے کا اہم ملک ہے اور یہ 2 خودمختار ممالک کا باہمی معاملہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: روس نے افغان طالبان کی حکومت باضابطہ طور پر تسلیم کرلی
سفارتی ماہرین اسے ایک بہت بڑی اور خوش آئند پیشرفت قرار دے رہے ہیں جو خطے کا اقتصادی مستقبل سنوارنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
6 اہم ممالک کے افغان طالبان کے ساتھ سفارتی تعلقاتاس وقت چین، پاکستان، ایران، ازبکستان، متحدہ عرب امارات اور ترکیہ کے افغان ساتھ سفارتی تعلقات موجود ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ممکنہ عالمی تبدیلیوں کے تناظر میں یہ ممالک افغان طالبان حکومت کو تسلیم کر سکتے ہیں۔
چینچین نے افغانستان کے ساتھ اپنے سفارتی اور تجارتی تعلقات کو مضبوط کیا ہے۔ دسمبر 2023 میں چین نے افغان طالبان حکومت کی جانب سے بیجنگ میں سفیر تعیّنات کرنے کی منظوری دی جو ایک بڑی سفارتی پیشرفت تھی لیکن چین نے اس کے بعد بھی باقاعدہ طور پر افغان طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ سفارتی ماہرین کے مطابق چین روس کو فالو کرتے ہوئے افغان طالبان حکومت کو تسلیم کر سکتا ہے۔
پاکستان15 اگست 2021 افغان طالبان حکومت کے برسر اقتدار آنے سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات بہت زیادہ خراب رہے لیکن اس کے باوجود اکتوبر 2021 میں افغان حکومت کا اسلام آباد میں سفارتخانہ کھولا گیا۔ افغانستان کی جانب سے دہشتگرد حملوں کی سہولت کاری کے الزامات پر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہت کشیدہ رہے اور پھر ستمبر 2023 میں نگران حکومت نے پاکستان میں موجود افغان پناہ گزینوں کی ملک بدری کا فیصلہ کیا تو اس پر بھی افغان طالبان حکومت کا شدید رد عمل آیا۔ لیکن اس سال 19 اپریل کو نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار کا دورہ کابل اور اس کے بعد 21 مئی کو بیجنگ میں پاکستان چین اور افغانستان کے درمیان سہ فریقی مذاکرات کے بعد صورتحال میں خاصا بدلاؤ آیا۔ اس کے بعد پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے ہاں باقاعدہ سفیر تعیّنات کیے اور تجارتی معاہدے بھی کیے۔
مزید پڑھیے: روس کھل کر امریکا اور اسرائیل کے خلاف ایران کی مدد کرے، خامنہ ای کی پیوٹن سے اپیل
دہشتگردی کے معاملے پر اب بھی پاکستان کے افغانستان کے ساتھ تحفظات چلے آ رہے ہیں اور جمعے کو بھی ترجمان دفتر خارجہ نے میڈیا بریفنگ کے دوران بتایا کہ ہمارے افغانستان سے باہمی تعلقات انتہائی اہم ہیں۔
ان تعلقات میں ہم مسلسل دہشتگردی کا معاملہ اپنے افغان دوستوں کے ساتھ اٹھاتے رہتے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات مزید بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ پاک افغان تعلقات میں بنیادی مسئلہ دہشتگردی ہے اور ہندوستان اس دہشتگردی میں ملوث ہے۔
متحدہ عرب اماراتمتحدہ عرب امارات نے بھی افغان طالبان حکومت کی جانب سے سفیر کی تعیناتی کو قبول کیا تھا جو کہ ایک طرح سے ڈی فیکٹو تسلیم کیا جانا شمار ہو سکتا ہے۔
ازبکستان، ایران اور ترکیہازبکستان نے سنہ 2021 میں طالبان سفیر کو اپنے ہاں تاشقند میں متعین کیا اور پھر دسمبر 2023 میں طالبان کو دہشتگردوں کی فہرست سے خارج کیا۔
اس کے علاوہ ترکیہ اور ایران کے بھی افغانستان کے ساتھ اسی نوعیت کے سفارتی تعلقات ہیں۔
دیگر ممالک بھی تسلیم کر لیں تو سالوں سے رکے منصوبے شروع ہو سکتے ہیں، ایمبیسیڈر مسعود خانپاکستان کے اقوام متحدہ میں سابق مستقل نمائندے اور امریکا میں سابق سفیر ایمبیسیڈر مسعود خان نے وی نیوز سے گفتگو کے دوران اسے انتہائی اہم پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کے لیے اہم پیشرفت ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ روس کے اس اقدام کی کئی دیگر ممالک بھی پیروی کریں گے خاص طور پر خطّے کے وہ ممالک جو اس حوالے سے جھجھک کا شکار تھے۔
مزید پڑھیں: پاکستان اور افغانستان کا کابل ملاقات میں ہونے والے فیصلوں پر جلد عملدرآمد پر اتفاق
انہوں نے کہا کہ سنہ 2021 کے بعد سے افغان طالبان حکومت نے وہاں بہت سے ٹیکسز نافذ کیے ہیں، بجٹ کے بغیر دیے ہیں، اب ان کا حق بنتا ہے کہ ان کو تسلیم کیا جائے اور باقی ممالک بھی تقلید کریں گے۔ اس سے افغانستان کو بین الاقوامی سطح پر نمائندگی ملے گی اور اُس کی اقوام متحدہ کی رکنیت کے لیے بھی راہ ہموار ہو گی۔ اس پیشرفت سے خطہ معاشی ترقی کرے گا اور سالوں سے رکے ہوئے کاسا ون اور ترکمانستان۔افغانستان۔پاکستان۔انڈیا (تاپی) جیسے اقتصادی منصوبے روبہ عمل آئیں گے اور سب سے اہم بات کہ مشترکہ کوششوں سے خطّے میں دہشت گردی کو ختم کیا جا سکے گا۔
پاکستان چند اسلامی ممالک سے مشاورت کے بعد ہی افغانستان کو تسلیم کر سکتا ہے، ایمبیسیڈر مسعود خالدپاکستان کے سابق سینیئر سفارتکار ایمبیسیڈر مسعود خالد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈی فیکٹو طور پر تو چین اور ترکیہ نے بھی تسلیم کیا ہوا ہے لیکن روس نے باقاعدہ طور پر تسلیم کیا جو کہ ایک اہم بات ہے۔
انہوں نے کہا کہ روس سلامتی کونسل کا مستقل رکن اور ایک انتہائی اہم ملک ہے اور اس کی جانب سے افغان طالبان حکومت کو تسلیم کیا جانا ایک اہم پیشرفت ہے، ممکنہ طور پر وہ ماضی میں افغان طالبان کے ساتھ کشیدہ تعلقات کو ختم کرنا چاہتا ہو اور پھر اس کے اپنے ہاں بھی چیچنیا میں ایسے عناصر موجود ہیں جو طالبان سے مشابہہ ہیں لیکن عمومی طور پر دیکھا جائے تو روس خطے میں استحکام لانا چاہتا ہے۔ روس کی پیچھے دیگر ممالک بھی اس بارے پیشرفت کرنا چاہتے ہیں لیکن اقوام متحدہ میں طالبان سے متعلق معاملات اس سلسلے میں رکاوٹ ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: پاکستان اور افغانستان: تاریخ، تضاد اور تعلقات کی نئی کروٹ
مسعود خالد نے کہا کہ پاکستان کے بھی افغان طالبان حکومت کے ساتھ ڈی فیکٹو تعلقات تو موجود ہیں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے ہاں سفیر تعیّنات کیے ہوئے ہیں لیکن پاکستان اگر تسلیم کرے گا تو اسلامی ممالک سے مشاورت کے بعد ہی کرے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغانستان افغانستان کو تسلیم کرنا پاکستان چین روس متحدہ عرب امارات