Jasarat News:
2025-07-04@11:58:01 GMT

روس طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن گیا

اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ماسکو(مانیٹرنگ ڈیسک) روس نے افغان طالبان حکومت کو تسلیم کرلیا ہے جس کے بعد روس پہلا ملک بن گیا ہے جس نے طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد ان کی حکومت کو قبول کیا ہے۔برطانوی خبر ایجنسی کے مطابق روس نے افغانستان کے نئے سفیر کی اسناد قبول کرلی ہیں۔اس حوالے سے روسی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ طالبان حکومت کوباضابطہ تسلیم کرنے کا عمل مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعاون کوفروغ دیگا۔یاد رہے کہ 15 اگست 2021 کو امریکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان نے افغان دارالحکومت کابل پر دوبارہ قبضہ کرلیا تھا۔ اگست 2021 میں افغانستان سے 20 سالہ جنگ کے بعد امریکا کے انخلا کے بعد روس نے آہستہ آہستہ افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کیے ہیں۔ دو سال قبل روس کے صدر پیوٹن نے کہا تھا کہ ان کا ملک طالبان کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنا اتحادی سمجھتا ہے۔ماہرین کے مطابق روس افغانستان سے مشرق وسطیٰ تک کئی ممالک میں موجود شدت پسند گروپوں سے لاحق سکیورٹی خطرات کے پیش نظر طالبان کے ساتھ کام کرنا چاہتا ہے۔رواں سال اپریل میں روس نے افغان طالبان کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکال دیا تھا،روس نے 2003 میں افغان طالبان کو باضابطہ طور پر دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: حکومت کو نے افغان کے بعد

پڑھیں:

پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی موجودہ صورتحال کیا ہے؟

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفارتی تعلقات اس وقت بہت اچھے اور مثبت ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ پاکستان کو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے کئی بڑی دہشت گرد کاروائیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تحریکِ طالبان پاکستان جو افغانستان میں موجود ہے اور وہیں سے آپریٹ کرتے ہوئے پاکستان کے اندر کاروائیاں کرتی ہے، پاک افغان تعلقات کے مستقبل کے حوالے سے ایک بڑا چیلنج ہے۔

گزشتہ ماہ جون 2025 میں ٹی ٹی پی کی جانب سے تین بڑے دہشت گرد حملے کیے گئے جن میں سب سے خوفناک حملہ 28 جون کو ایک خودکُش بمبار نے شمالی وزیرستان میں کیا جس میں پاک فوج کے 14 جوان شہید ہوئے اور 29 لوگ زخمی ہوئے۔ 25 جون کو پاک فوج کے 2 اہلکاروں نے جنوبی وزیرستان میں جامِ شہادت نوش کیا، اس کے علاوہ سیکیورٹی اہلکاروں اور سرکاری افسران پر بھی حملے کیے جا رہے ہیں، آج 02 جولائی کو ایک خود کش حملے میں ضلع خیبر کے اسسٹنٹ کمشنر اور اُن کے ساتھ 3 دیگر سرکاری اہلکار شہید ہو گئے۔

اگر دیکھا جائے تو مئی کے مہینے میں جب پاکستان اور بھارت کے درمیان فوجی ٹکراؤ جاری تھا اُس وقت بھی ٹی ٹی پی اپنی کاروائیوں میں مشغول تھی اور سیز فائز کے دن 10 مئی کو بھی ٹی ٹی پی نے جنوبی وزیرستان میں بڑا دہشت گرد حملہ کیا اور اُس سے اگلے دن 11 مئی کو پشاور میں پولیس گاڑی پر بم حملہ کیا گیا۔

پاکستانی نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار اور افغانستان کے قائم مقام وزیرخارجہ امیر خان متقی کے درمیان 21 مئی کو بیجنگ میں ملاقات ہوئی اور اُس سے قبل 19 اپریل کو اسحاق ڈار نے افغانستان کا دورہ کیا۔ 21 مئی کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفارتی تعلقات میں بہت بہتری نظر آئی، 27 جون کو اسحاق ڈار نے میڈیا بریفنگ کے دوران بتایا کہ ازبکستان اور پاکستان کے درمیان ریل رابطے کے لیے فریم ورک معاہدہ حتمی مرحلے میں ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان ریل براستہ افغانستان چلے گی۔

اِن خوشگوار ہوتے تعلقات کی موجودگی میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ٹی ٹی پی کی کاروائیاں ایک بڑی رکاوٹ بن سکتی ہیں۔

گزشتہ ماہ جون میں جب امریکی ہوم لینڈ سکیورٹی نے جب امریکا میں موجود افغان شہریوں کا عارضی پروٹیکٹڈ اسٹیٹس ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو 101 اراکین کانگریس نے ایک خط کے ذریعے سے افغانستان کی سیکیورٹی صورتحال کے بارے میں اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔

دہشت گردی کا سارا الزام افغان طالبان کو نہیں دیا جا سکتا: آصف درانی

افغانستان کے لیے پاکستان کے سابق نمائندہ خصوصی آصف درانی نے وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفارتی تعلقات بہت اچھے ہیں، دونوں اطراف ایک مثبت ماحول ہے لیکن تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے پاکستان میں کی گئی کاروائیوں کے لیے آپ سارا الزام افغان طالبان پر نہیں ڈال سکتے۔

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان کی بیخ کُنی ریاست کے لئے چیلنج ہے جس میں بالآخر فتح ریاست ہی کی ہو گی۔ جو یہ بات کہی جا رہی ہے کہ ٹی ٹی پی کو سرحد سے دور آباد کیے جانے کا کوئی منصوبہ ہے تو آپ کو دیکھنا پڑے گا کہ وہ سرحد پار کیسے کرتے ہیں، کیسے لوگوں میں گُھل مِل جاتے ہیں اور وہ کیا وجوہات ہیں جن کی وجہ سے لوگ اُنہیں پناہ دیتے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے جو عناصر پاکستان کے اندر موجود ہیں اُن سے مقابلہ کرنا تو پاکستان کی ذمّہ داری ہے اور پاکستانی فورسز یہ کر رہی ہیں۔

پاکستانی سیاسی و عسکری قیادت ایک بار پھر دہشتگردی کا مسئلہ افغان طالبان کے ساتھ اُٹھا سکتی ہے: سینیئر صحافی متین حیدر

خارجہ اُمور سے متعلق پاکستان کے سینیئر صحافی متین حیدر نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی سکیورٹی صورتحال ایک بار پھر سے بگڑ رہی ہے اور حالیہ دنوں میں خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی کاروائیوں میں اضافہ ہوا ہے جن کا تعلق افغانستان کے ساتھ ہے۔ پاکستان میں ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کو فتنہ الخوارج اور فتنہ ہندوستان اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کیونکہ ان گروہوں کو بھارتی فنڈنگ اور بھارتی حمایت میسر ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت جو جنگ میں پاکستان سے بری طرح ہزیمت اُٹھا کر ان پراکسی گروہوں کے ذریعے سے بدامنی اور دہشت گردی کی کاروائیاں کر رہا ہے۔ ان حملوں میں افغان سرزمین استعمال ہو رہی ہے۔ فی الوقت پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہترین سفارتی تعلقات ہیں لیکن اگر یہ حملے نہیں رُکتے تو پاکستان کی سویلین اور فوجی قیادت کو ایک بار پھر افغان طالبان سے بات کرنا پڑے گی اور سخت اقدامات اُٹھانے پڑیں گے۔ اور افغانستان اگر ان گروہوں کو قابو نہیں کرتا تو وہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ توسیعی پروگرام سے فائدہ نہیں اُٹھا سکے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • روس کےافغانستان کی طالبان حکومت کو باضابطہ تسلیم کرنے پر چین کا ردعمل
  • روس کی جانب سے طالبان حکومت کوباضابطہ تسلیم کرنے پر چین کا ردعمل سامنے آگیا
  • روس افغان طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن گیا
  • روس افغانستان کی طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن گیا
  • روس افغانستان کی طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن گیا
  • روس موجودہ افغان طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن گیا
  • روس نے افغان طالبان حکومت کو تسلیم کرلیا
  • روس نے افغان طالبان کی حکومت باضابطہ طور پر تسلیم کرلی
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی موجودہ صورتحال کیا ہے؟