روس نے افغان طالبان حکومت کو تسلیم کرلیا، نئے سفیر کی اسناد قبول
اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
روس افغانستان میں طالبان کی حکومت تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن گیا، روس نے افغانستان کے نئے سفیر کی اسناد کو قبول کر لیا۔
افغان وزارت خارجہ نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر پوسٹ کیا کہ ملک کے وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی اور روسی فیڈریشن کے سفیر دیمتری ژیرنوف نے کابل میں ملاقات کی، روسی سفیر نے اس ملاقات میں روس کی حکومت کا وہ باضابطہ فیصلہ سرکاری طور پر پہنچایا، جس کے تحت روسی فیڈریشن نے افغانستان کی امارتِ اسلامیہ کو تسلیم کر لیا ہے۔
افغان وزارت خارجہ کے مطابق روسی سفیر نے اس فیصلے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اسے افغانستان اور روس کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کے لئے ایک تاریخی قدم قرار دیا۔
افغان وزیر خارجہ نے روسی فیڈریشن کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا اور اسے دونوں ملکوں کے درمیان مثبت تعلقات، باہمی احترام اور تعمیری تعاون کا نیا مرحلہ قرار دیا۔
امیر خان متقی نے کہا کہ روسی فیڈریشن کا یہ حقیقت پسندانہ فیصلہ دونوں ملکوں کے تعلقات کی تاریخ میں ایک اہم پیشرفت کے طور پر یاد رکھا جائے گا، وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ اس اقدام کے ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ تعاون مزید وسعت پائے گا۔
واضح رہے کہ اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے کے بعد اگست 2021 میں اقتدار میں آنے والے افغان طالبان کی حکومت کو اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری نے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا، کیونکہ انہوں نے خواتین پر تعلیم اور ملازمت میں حصہ لینے پر پابندی سمیت اپنے شہریوں کے بنیادی حقوق پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
تاہم چین اور روس جنہوں نے عبوری افغان انتظامیہ کے ساتھ محدود سفارتی تعلقات کو فروغ دینے پر آمادگی ظاہر کی تھی گزشتہ دو سالوں میں افغان وزرا کو چین اور وسطی ایشیا کے فورمز میں شرکت کی دعوت دے چکے ہیں۔
جبکہ رواں برس اپریل میں روس نے تقریباً 20 سال کے بعد افغان طالبان کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے بھی نکال دیا تھا، جسے مبصرین نے عالمی سیاست کے لئے بے حد اہمیت کا حامل قرار دیا تھا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: روسی فیڈریشن کی حکومت
پڑھیں:
روس افغانستان کی طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن گیا
روس نے اعلان کیا ہے کہ اس نے افغانستان کے نئے سفیر کی اسناد قبول کرلی ہیں جس کے بعد روس طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن گیا ہے۔
روسی خبر رساں ایجنسی RIA Novosti کے مطابق یہ اعلان روسی صدر کے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے ضمیر کابلوف نے کیا۔
روسی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اسلامی امارت افغانستان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا اقدام، دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعمیری دوطرفہ تعاون ک کو مزید تقویت دے گا۔
روسی وزارت خارجہ کے بیان میں اس عزم کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ افغانستان کے ساتھ سیکیورٹی، انسداد دہشت گردی اور منشیات کے خلاف جنگ میں تعاون، مدد اور حمایت جاری رکھیں گے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور معیشت کے شعبوں سمیت خاص طور پر توانائی، ٹرانسپورٹ، زراعت اور انفراسٹرکچر میں بھی بڑے مواقع موجود ہیں۔
افغان وزارت خارجہ نے بھی تصدیق کی ہے کہ روسی سفیر دمتری ژیرنوف نے طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات کی اور انہیں اس فیصلے سے آگاہ کیا۔
افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے ایک بیان میں کہا کہ ہم روس کے اس جرات مندانہ اقدام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان شاء اللہ یہ دوسروں کے لیے بھی ایک مثال بنے گا۔
اس طرح روس دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جس نے طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہے۔
تاحال کوئی بھی ملک رسمی طور پر طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کرتا تاہم چین، متحدہ عرب امارات، ازبکستان اور پاکستان نے کابل میں اپنے سفیر تعینات کیے ہیں البتہ اب تک باضابطہ تسلیم نہیں کیا ہے۔
یاد رہے کہ افغانستان اس وقت شدید معاشی بحران سے دوچار ہے جبکہ امریکا نے تقریباً 7 ارب ڈالر کے افغان اثاثے منجمد کر رکھے ہیں۔ ایسے میں روس کی حمایت اس کے لیے تقویت کا باعث ہوگی۔
طالبان اور روس کے درمیان تعلقات کی تاریخروس اور طالبان کے درمیان تعلقات بتدریج فروغ پا رہے ہیں۔ صدر ولادیمیر پیوٹن نے گزشتہ سال کہا تھا کہ طالبان اب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں روس کے اتحادی ہیں۔
سنہ 2022 سے افغانستان نے گیس، تیل اور گندم کی درآمدات روس سے شروع کیں۔ اگرچہ 2003 میں روس نے طالبان کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا، لیکن رواں سال اپریل 2025 میں یہ پابندی ختم بھی کردی تھی۔
روس کے لیے افغانستان سے تعاون ضروری ہو گیا ہے کیونکہ اسے افغانستان سے مشرق وسطیٰ تک پھیلے علیحدگی پسند عسکری گروہوں سے سنگین سیکیورٹی خطرات لاحق ہیں۔
مارچ 2024 میں، ماسکو کے باہر ایک کنسرٹ ہال پر حملے میں 149 افراد مارے گئے تھے اور اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔
طالبان حکومت نے امریکا سے معاہدے میں یقین دہانی کرائی تھی کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک پر حملے یا پناہ دینے کے لیے استعال نہیں ہونے دیں گے۔
یہی یقین دہانی طالبان حکومت نے روس کو بھی کرائی ہے اور کہا تھا کہ وہ افغانستان سے داعش کا خاتمہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ بھی یاد رہے کہ روس کی افغانستان کے ساتھ ایک پیچیدہ اور خون آلود تاریخ ہے۔
دسمبر 1979 میں سوویت افواج نے ایک کمیونسٹ حکومت کی حمایت کے لیے افغانستان پر چڑھائی کی تھی۔
تاہم امریکا کی افغانستان میں روسی فوج کے ساتھ لڑنے والوں کی حمایت سے طویل جنگ میں سویت یونین کو شکست ہوئی تھی۔
سابق سوویت رہنما میکائل گورباچوف نے بالآخر 1989 میں افواج کو واپس بلایا اس وقت تک تقریباً 15,000 سوویت فوجی ہلاک ہو چکے تھے۔
بعد میں 15 ریاستوں کے اتحاد ’’سویت یونین‘‘ کا بھی شیرازہ بکھر گیا تھا۔