روس افغانستان کی طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن گیا
اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT
روس افغانستان کی طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن گیا WhatsAppFacebookTwitter 0 4 July, 2025 سب نیوز
روس نے اعلان کیا ہے کہ اس نے افغانستان کے نئے سفیر کی اسناد قبول کرلی ہیں جس کے بعد روس طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن گیا ہے۔
روسی خبر رساں ایجنسی RIA Novosti کے مطابق یہ اعلان روسی صدر کے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے ضمیر کابلوف نے کیا۔
روسی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اسلامی امارت افغانستان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا اقدام، دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعمیری دوطرفہ تعاون ک کو مزید تقویت دے گا۔
روسی وزارت خارجہ کے بیان میں اس عزم کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ افغانستان کے ساتھ سیکیورٹی، انسداد دہشت گردی اور منشیات کے خلاف جنگ میں تعاون، مدد اور حمایت جاری رکھیں گے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور معیشت کے شعبوں سمیت خاص طور پر توانائی، ٹرانسپورٹ، زراعت اور انفراسٹرکچر میں بھی بڑے مواقع موجود ہیں۔
افغان وزارت خارجہ نے بھی تصدیق کی ہے کہ روسی سفیر دمتری ژیرنوف نے طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات کی اور انہیں اس فیصلے سے آگاہ کیا۔
افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے ایک بیان میں کہا کہ ہم روس کے اس جرات مندانہ اقدام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان شاء اللہ یہ دوسروں کے لیے بھی ایک مثال بنے گا۔
اس طرح روس دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جس نے طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہے۔
تاحال کوئی بھی ملک رسمی طور پر طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کرتا تاہم چین، متحدہ عرب امارات، ازبکستان اور پاکستان نے کابل میں اپنے سفیر تعینات کیے ہیں البتہ اب تک باضابطہ تسلیم نہیں کیا ہے۔
یاد رہے کہ افغانستان اس وقت شدید معاشی بحران سے دوچار ہے جبکہ امریکا نے تقریباً 7 ارب ڈالر کے افغان اثاثے منجمد کر رکھے ہیں۔ ایسے میں روس کی حمایت اس کے لیے تقویت کا باعث ہوگی۔
طالبان اور روس کے درمیان تعلقات کی تاریخ
روس اور طالبان کے درمیان تعلقات بتدریج فروغ پا رہے ہیں۔ صدر ولادیمیر پیوٹن نے گزشتہ سال کہا تھا کہ طالبان اب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں روس کے اتحادی ہیں۔
سنہ 2022 سے افغانستان نے گیس، تیل اور گندم کی درآمدات روس سے شروع کیں۔ اگرچہ 2003 میں روس نے طالبان کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا، لیکن رواں سال اپریل 2025 میں یہ پابندی ختم بھی کردی تھی۔
روس کے لیے افغانستان سے تعاون ضروری ہو گیا ہے کیونکہ اسے افغانستان سے مشرق وسطیٰ تک پھیلے علیحدگی پسند عسکری گروہوں سے سنگین سیکیورٹی خطرات لاحق ہیں۔
مارچ 2024 میں، ماسکو کے باہر ایک کنسرٹ ہال پر حملے میں 149 افراد مارے گئے تھے اور اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔
طالبان حکومت نے امریکا سے معاہدے میں یقین دہانی کرائی تھی کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک پر حملے یا پناہ دینے کے لیے استعال نہیں ہونے دیں گے۔
یہی یقین دہانی طالبان حکومت نے روس کو بھی کرائی ہے اور کہا تھا کہ وہ افغانستان سے داعش کا خاتمہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ بھی یاد رہے کہ روس کی افغانستان کے ساتھ ایک پیچیدہ اور خون آلود تاریخ ہے۔
دسمبر 1979 میں سوویت افواج نے ایک کمیونسٹ حکومت کی حمایت کے لیے افغانستان پر چڑھائی کی تھی۔
تاہم امریکا کی افغانستان میں روسی فوج کے ساتھ لڑنے والوں کی حمایت سے طویل جنگ میں سویت یونین کو شکست ہوئی تھی۔
سابق سوویت رہنما میکائل گورباچوف نے بالآخر 1989 میں افواج کو واپس بلایا اس وقت تک تقریباً 15ہزارسوویت فوجی ہلاک ہو چکے تھے۔بعد میں 15 ریاستوں کے اتحاد ’’سویت یونین‘‘ کا بھی شیرازہ بکھر گیا تھا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرسکیورٹی فورسز نے پاک افغان سرحد پر فتنۃ الخوارج کی دراندازی کی کوشش ناکام بنادی، 30 خوارج ہلاک سکیورٹی فورسز نے پاک افغان سرحد پر فتنۃ الخوارج کی دراندازی کی کوشش ناکام بنادی، 30 خوارج ہلاک سی ڈی اے نے اسلام آباد میں ٹرانسفر فیس سمیت اور زمین کی خریدوفروخت کے حوالے سے عائد چارجز میں اضافہ کر دیا ،... گورنر خیبر پختونخوا نے کے پی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لانے کا اشارہ دیدیا سانحہ دریائے سوات کی تحقیقاتی رپورٹ میں سارا ملبہ سیاحوں پر ڈال دیا گیا ہمارے 26لوگوں کی بحالی تک اسمبلی نہیں جائیں گے،اپوزیشن لیڈر پنجاب ملک احمد بچھر گالیاں دینے، گریبان پکڑنے، حملہ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، ملک احمد خان
Copyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم طالبان حکومت کو پہلا ملک بن گیا افغانستان کے تسلیم کرنے کے درمیان کے لیے روس کے گیا ہے
پڑھیں:
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی موجودہ صورتحال کیا ہے؟
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفارتی تعلقات اس وقت بہت اچھے اور مثبت ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ پاکستان کو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے کئی بڑی دہشت گرد کاروائیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تحریکِ طالبان پاکستان جو افغانستان میں موجود ہے اور وہیں سے آپریٹ کرتے ہوئے پاکستان کے اندر کاروائیاں کرتی ہے، پاک افغان تعلقات کے مستقبل کے حوالے سے ایک بڑا چیلنج ہے۔
گزشتہ ماہ جون 2025 میں ٹی ٹی پی کی جانب سے تین بڑے دہشت گرد حملے کیے گئے جن میں سب سے خوفناک حملہ 28 جون کو ایک خودکُش بمبار نے شمالی وزیرستان میں کیا جس میں پاک فوج کے 14 جوان شہید ہوئے اور 29 لوگ زخمی ہوئے۔ 25 جون کو پاک فوج کے 2 اہلکاروں نے جنوبی وزیرستان میں جامِ شہادت نوش کیا، اس کے علاوہ سیکیورٹی اہلکاروں اور سرکاری افسران پر بھی حملے کیے جا رہے ہیں، آج 02 جولائی کو ایک خود کش حملے میں ضلع خیبر کے اسسٹنٹ کمشنر اور اُن کے ساتھ 3 دیگر سرکاری اہلکار شہید ہو گئے۔
اگر دیکھا جائے تو مئی کے مہینے میں جب پاکستان اور بھارت کے درمیان فوجی ٹکراؤ جاری تھا اُس وقت بھی ٹی ٹی پی اپنی کاروائیوں میں مشغول تھی اور سیز فائز کے دن 10 مئی کو بھی ٹی ٹی پی نے جنوبی وزیرستان میں بڑا دہشت گرد حملہ کیا اور اُس سے اگلے دن 11 مئی کو پشاور میں پولیس گاڑی پر بم حملہ کیا گیا۔
پاکستانی نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار اور افغانستان کے قائم مقام وزیرخارجہ امیر خان متقی کے درمیان 21 مئی کو بیجنگ میں ملاقات ہوئی اور اُس سے قبل 19 اپریل کو اسحاق ڈار نے افغانستان کا دورہ کیا۔ 21 مئی کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفارتی تعلقات میں بہت بہتری نظر آئی، 27 جون کو اسحاق ڈار نے میڈیا بریفنگ کے دوران بتایا کہ ازبکستان اور پاکستان کے درمیان ریل رابطے کے لیے فریم ورک معاہدہ حتمی مرحلے میں ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان ریل براستہ افغانستان چلے گی۔
اِن خوشگوار ہوتے تعلقات کی موجودگی میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ٹی ٹی پی کی کاروائیاں ایک بڑی رکاوٹ بن سکتی ہیں۔
گزشتہ ماہ جون میں جب امریکی ہوم لینڈ سکیورٹی نے جب امریکا میں موجود افغان شہریوں کا عارضی پروٹیکٹڈ اسٹیٹس ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو 101 اراکین کانگریس نے ایک خط کے ذریعے سے افغانستان کی سیکیورٹی صورتحال کے بارے میں اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔
دہشت گردی کا سارا الزام افغان طالبان کو نہیں دیا جا سکتا: آصف درانیافغانستان کے لیے پاکستان کے سابق نمائندہ خصوصی آصف درانی نے وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفارتی تعلقات بہت اچھے ہیں، دونوں اطراف ایک مثبت ماحول ہے لیکن تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے پاکستان میں کی گئی کاروائیوں کے لیے آپ سارا الزام افغان طالبان پر نہیں ڈال سکتے۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان کی بیخ کُنی ریاست کے لئے چیلنج ہے جس میں بالآخر فتح ریاست ہی کی ہو گی۔ جو یہ بات کہی جا رہی ہے کہ ٹی ٹی پی کو سرحد سے دور آباد کیے جانے کا کوئی منصوبہ ہے تو آپ کو دیکھنا پڑے گا کہ وہ سرحد پار کیسے کرتے ہیں، کیسے لوگوں میں گُھل مِل جاتے ہیں اور وہ کیا وجوہات ہیں جن کی وجہ سے لوگ اُنہیں پناہ دیتے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے جو عناصر پاکستان کے اندر موجود ہیں اُن سے مقابلہ کرنا تو پاکستان کی ذمّہ داری ہے اور پاکستانی فورسز یہ کر رہی ہیں۔
پاکستانی سیاسی و عسکری قیادت ایک بار پھر دہشتگردی کا مسئلہ افغان طالبان کے ساتھ اُٹھا سکتی ہے: سینیئر صحافی متین حیدرخارجہ اُمور سے متعلق پاکستان کے سینیئر صحافی متین حیدر نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی سکیورٹی صورتحال ایک بار پھر سے بگڑ رہی ہے اور حالیہ دنوں میں خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی کاروائیوں میں اضافہ ہوا ہے جن کا تعلق افغانستان کے ساتھ ہے۔ پاکستان میں ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کو فتنہ الخوارج اور فتنہ ہندوستان اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کیونکہ ان گروہوں کو بھارتی فنڈنگ اور بھارتی حمایت میسر ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت جو جنگ میں پاکستان سے بری طرح ہزیمت اُٹھا کر ان پراکسی گروہوں کے ذریعے سے بدامنی اور دہشت گردی کی کاروائیاں کر رہا ہے۔ ان حملوں میں افغان سرزمین استعمال ہو رہی ہے۔ فی الوقت پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہترین سفارتی تعلقات ہیں لیکن اگر یہ حملے نہیں رُکتے تو پاکستان کی سویلین اور فوجی قیادت کو ایک بار پھر افغان طالبان سے بات کرنا پڑے گی اور سخت اقدامات اُٹھانے پڑیں گے۔ اور افغانستان اگر ان گروہوں کو قابو نہیں کرتا تو وہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ توسیعی پروگرام سے فائدہ نہیں اُٹھا سکے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں