دربار حضرت داتا گنج بخشؒ کے سالانہ غسل کی تقریب
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
سٹی 42:حضرت علی بن عثمان الہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخشؒ دربارکے 982 ویں سالانہ غسل کی تقریب آج 9 محرم الحرام 1447 ہجری دن ایک بجے ہوگی،روح پرور ماحول میں دربار شریف کو عرق گلاب اور آب زم زم سے غسل دیا جا ئے گا۔
محکمہ اوقاف ومذہبی امور کی جانب سے حضرت داتا گنج بخشؒ دربار کےغسل کی تقریب کااہتمام کیاگیاہے،غسل کی تقریب میں شرکت کیلئے عقیدت مندوں کی جوق درجوق آمد کا سلسلہ جا ری ہے،داتادربار،علماءو مشائخ اور اہم شخصیات غسل کی تقریب میں شریک ہونگے،نمازظہر کی ادائیگی کے بعد غسل کی تقریب کاباقاعدہ آغاز ہوگا،تلاوت،نعت اور منقبت کے بعدتلاوت سورت یسین،شجرہ،ختم ہوگا،دربارپرغسل کاباقاعدہ آغاز سہ پہر تین بجے ہوگاجس کے بعداختتامی دعاہوگی۔
شمالی علاقہ جات میں سیلابی صورتحال کا الرٹ جاری
ڈپٹی وزیراعظم سینیٹرمحمداسحاق ڈارتقریب کے مہمان خصوصی ہونگے،وزیراوقاف و مذہبی امورپنجاب چوہدری شافع حسین خصوصی شرکت کریں گے،پارلیمانی سیکرٹری اوقاف و مذہبی امورپنجاب ملک عبدالوحیدتقریب کی سرپرستی کریں گے،چیئرمین امورمذہبیہ کمیٹی داتادربارنبیل جاوید،ناظم اوقاف پنجاب ڈاکٹرطاہررضابخاری شریک ہونگے،ناظم اوقاف داتادربار شیخ جمیل احمدسمیت دیگرشخصیات شریک ہونگی۔
ذریعہ: City 42
پڑھیں:
حسینؓ سب کے ،حسینؓ ہمارے ،بڑے پیارے
معرکہ حق و باطل ازل سے شروع ہے اور ابد تک جاری و ساری رہے گا‘پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمایا تھا کہ’’جابر سلطان اور بادشاہان وقت کے سامنے کلمہ حق بلند کرنا سب سے بڑا جہاد ہے‘‘۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر پڑھئیے کہ امام عالی مقام حضرت سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوفی ظالموں سے مخاطب ہو کر کیا فرماتے ہیں۔’’لوگو! میرا حسب ونسب یاد کرو، سوچو میں کون ہوں؟ پھر اپنے گریبانوں میں منہ ڈالو اور اپنے ضمیر کا محاسبہ کرو، خوب غور کرو !کیا تمہارے لئے میرا قتل کرنا اور میری حرمت کا رشتہ توڑنا جائز ہے؟ کیا میں تمہارے نبیﷺ کی لڑکی کا بیٹا ، اس کے چچا زاد بھائی کا بیٹا نہیں ہوں؟ کیا سید الشہدا حضرت حمزہ میرے باپ کے چچا نہیں تھے؟ کیا تم نے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں رسول اکرمﷺ کا یہ مشہور قول نہیں سنا ’’سیدا شباب اھل الجنۃ الحسن و الحسین رضی اللہ عنہما‘‘حسن و حسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں‘ اللہ کی قسم! اس روئے زمین پر میرے علاوہ کسی نبی کی صاحبزادی کا بیٹا موجود نہیں، میں تمہارے نبی کابلا واسطہ نواسہ ہوں، تم مجھے کیوں قتل کرنا چاہتے ہو؟ میں نے کسی کا مال چھینا ہے، کسی کا خون بہایا ہے؟ آخر میرا کیا قصور ہے؟‘‘حرف حرف بزرگی و کمال، لفظ لفظ عظمت و شجاعت کی خوشبو سے مہکتا ہوا یہ زندہ جاوید خطبہ شہید کربلا، نواسہ رسول ﷺ ، جگر گوشہ بتول، ابن شیر خدا، حضرت سیدنا حسینؓ نے دشمن کے سامنے میدان کربلا میں دیا تھا۔ منصف مزاج شخص کیلئے تو اس خطبے کا ایک ایک لفظ عظمت سیدنا حضرت حسینؓ کی دلیل ہے۔سیدنا حضرت حسینؓ میں بیک وقت اتنے اوصاف و کمالات جمع تھے جو شاید ہی کسی اور میں ہوں‘رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ جا رہے ہوتے تھے گلی میں حضرت حسینؓ نظر آجاتے تو اپنے صحابہؓ سے آگے بڑھ کر بانہیں پھیلا لیتے اور محبت وشفقت سے بانہوں میں لے کر ایک ہاتھ ٹھوڑی کے نیچے دوسرا سر پررکھتے پیار سے بوسہ لیتے اور فرماتے ’’حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں، جو ان سے محبت کرے، اللہ اس سے محبت کرے‘‘ ۔سیدنا حضرت حسینؓ کا غلبہ حق کیلئے ناقابل فراموش کردار اور بے مثال عزیمت و استقامت والا اقدام تاریخ اسلام کی روشن جبیںکا آفتاب و ماہتاب کی طرح چمکدار وحسین جھومر ہے۔ اوروہ لازوال کارنامہ ہے جسے دھندلانے میں تاریخ کے سینکڑوں ، ہزاروں طوفان ناکام رہے اور قیامت تک ناکام رہیں گے۔حضرت سیدنا حسینؓ ۵ شعبان ۴ھ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ والدہ محترمہ، محبوب کائنات سیدالانبیا ﷺ کی محبوب صاحبزادی سیدہ کائنات حضرت فاطمتہ الزہرہؓ ہیںاور والدمحترم شیر خدا حضرت علی المرتضیٰ ہیں۔پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ ہوا۔ خود سیدالانبیاءﷺ نے بکری ذبح فرمائی، کان میں اذان دی،منہ میں لعاب دہن داخل فرمایا، دعا فرمائی اور’’حسین‘‘ نام تجویز فرمایا۔ عقیقے کے موقع پر نبی کریمﷺ نے آپ کے سر کے بال اتروائے اور ان بالوں کے وزن برابر چاندی خیرات کی۔ حضرت سیدنا حسین سے نبی کریمﷺ کو بے حد محبت تھی اور سیدنا حسین کے اندر نبی کریم ﷺ کا مکمل عکس موجود تھا۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں ’’جس نے گردن سے چہرے تک حضور ﷺ کی شکل وشباہت دیکھنا ہو وہ حضرت سیدنا حسینؓ کو دیکھے اور جس نے گردن سے لیکر ٹخنوں تک نبی کریمﷺ کی شکل و شباہت دیکھنی ہو وہ حضرت سیدنا حسینؓ کو دیکھے ‘ حضرت اسامہ بن زید فرماتے ہیں کہ میں کسی ضرورت سے نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ ﷺ گھر سے باہر تشریف لائے، آپﷺ نے چادر اوڑھ رکھی تھی اور گود میں کچھ اٹھا رکھا تھا میں جب کام سے فارغ ہو گیا، تو عرض کیا یارسول اللہﷺ! یہ گود میں کیا ہے؟ آپﷺ نے چادر ہٹا دی، میں نے دیکھا کہ ایک جانب سیدنا حسن اور دوسری جانب سیدنا حسین ہیں پھر آپﷺ نے فرمایا: اے اللہ! میں ان سے محبت کرتاہوں ، آپ بھی ان سے محبت فرمائیے اور جو شخص ان سے محبت کرے، اس کوبھی اپنا محبوب بنا لیجئے ۔‘‘حضرت حسینؓ درمیانے قد کے مالک تھے، کشادہ پیشانی ، گھنی داڑھی، چوڑا سینا اور بڑے کندھوں والے تھے۔ آپ کی ہڈیاں مضبوط اور ہاتھ پائوں قوی تھے۔بال سیاہ اور جسم توانا تھا۔ آپ کے رنگ کی سفیدی میں سرخی کی آمیزش تھی، آواز بہت خوبصورت تھی غرض حسن وجمال کا حسیں پیکر تھے ۔
بس ایک جھلک تم کو دیکھا تھا مگر اب تک
آئینے کو حیرت ہے، تصویر کو سکتہ ہے
اے دل! وہ خدا جانے خود کتنے حسیں ہوں گے
جب ان کے تصور کی تصویر بھی یکتا ہے
حضرت حسینؓ پیدائش کے وقت سے لیکر حضورﷺ کے آخری لمحہ حیات تک خاص محبوب اور شرف صحبت سے مشرف رہے، حضرت حسینؓ نے آپﷺ کی حیات طیبہ کا دور بہت ہی کم پایا۔ یعنی حضرت حسینؓ کی عمر جب چھ سال سات ماہ کی ہوئی تو حضورﷺ کا انتقال ہو گیالیکن اس قلیل عرصے میں بھی حضرت حسینؓ نے آپﷺ سے بہت فیوضات وبرکات کو حاصل کیا اورتقریباً آٹھ احادیث امت کو حضرت حسینؓ کے واسطے سے ملی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ حضرت حسینؓ فرماتے ہیں نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: کمال اسلا م یہ ہے کہ انسان ان تمام باتوں کو چھوڑ دے جولغو،لا یعنی اور بے فائدہ ہوں۔حضرت حسینؓ کے ساتھ جو واقعہ شہادت پیش آنا تھا، اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی نبی کریمﷺ کو اس کی اطلاع دیدی تھی۔ایک حدیث میں ہے: ام فضل فرماتی ہیں کہ ایک دن حضرت حسین کو گود میںلئے ہوئے نبی کریمﷺ کے پاس حاضرہوئی اورحضرت حسین کو آپﷺ کی گود میں بٹھا دیا۔ میں کسی کام میں لگ گئی، اچانک میری نظر پڑی تو کیا دیکھتی ہوں کہ آپﷺ کی دونوں آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہیںحیرت سے میں نے دریافت کیا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، آپﷺ کی آنکھوں سے مسلسل آنسو کیوں جاری ہو رہے ہیں؟ فرمایا میرے پاس جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے تھے انہوں نے مجھے خبر دی کہ ایک وقت ایساآئے گا کہ میرے امتی میرے اس پیارے بیٹے کو قتل کردیں گے ‘ام فضل کہتی ہیں میں نے دوبارہ تعجب سے معلوم کیا کہ کیا حسین ہی کے ساتھ یہ معاملہ پیش آئے گا؟ آپﷺ نے فرمایا‘ہاں۔