سانحہ سوات پر وزیراعلیٰ کو فی الفور مستعفی ہونا چاہیے ،عائشہ سید
اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لوئر دیر (آئی این پی ) جماعت اسلامی حلقہ خواتین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی جنرل سیکرٹری و سابق ممبر قومی اسمبلی عائشہ سید نے وزیر اعلیٰ کی جانب سے سانحہ سوات واقعہ میں افسروں کو معطل کرنے کو ناکافی قرار دیتے ہوئے ہوئے وزیراعلیٰ فی الفور مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا ۔ اپنے ایک بیان میں انہوں نے ایک خاندان کے 18افراد جاں بحق ہونے پر متاثرہ خاندان کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ اس دلخراش واقعہ سے حکومتی کارکردگی واضح ہوگئی ہے کہ اتنی تعدا د میں پارلیمنٹرین عوام کو صرف ووٹ کے وقت ان کے پاس جمع ہوتے ہیں کیا یہ منتخب پارلیمنٹرین صرف عوام کی پیسوں پروٹوکول اور اختیارات کو اپنے رشتہ داروں اور خاندان کیلئے استعمال کرتے ہیں ۔انہوں نے پی ڈی ایم اے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہاکہ کتنا عملہ کتنے اخراجات اور کتنی سہولیات عوام کا خون چوس کر رہاہے جبکہ ان کا کردار ان کو مانیٹر کرنے والے ممبران حکومت کہاں تھے ۔انہوں نے کہاکہ کیا انتظامیہ کو متاثرہ خاندان کی چیخ وپکار سنائی نہیں دی جارہی تھی عائشہ سید نے اس امر پرسخت تشویش کا اظہار کیا کہ چند ماتحت افسروں کو معطل کرنے سے کیا ہوگا صرف گھروں میں خوشی سے بیٹھ کر تنخواہیں لیتے رہے گے اس سے کام نہیں چلے گا جماعت اسلامی شعبہ خواتین پاکستان مطالبہ کرتی ہے کہ تمام ذمہ داروں کو نوکریوں سے فوری طور پر برخاست کیاجائے جبکہ وزیر اعلیٰ اپنی ناکامی کا اعتراف کرکے استعفیٰ دے ۔انہوں نے کہاکہ جماعت اسلامی حلقہ خواتین اس دردناک واقعے میں شہید ہونے والے کے متاثرہ خاندان کے ساتھ دلی یک جہتی کا اظہار کرتی ہے اوراس غم میں ان کے برابر کے شریک ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: انہوں نے
پڑھیں:
27 ویں ترمیم، 4 ہائی کورٹ ججز کے مستعفی ہونے کا امکان، اکاؤنٹ ڈپارٹمنٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد کی تفصیلات مانگ لیں
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) ہائی کورٹ کے ججوں کو ان کی مرضی کے بغیر صوبوں کے درمیان ٹرانسفر کرنے کا اختیار جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کو دینے والی متنازع 27ویں ترمیم کے بعد ایسی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ ہائی کورٹ کے کم از کم چار ججز استعفے پر غور کر رہے ہیں۔ موقر ذرائع نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ ان چار ججوں نے حال ہی میں اپنی ہائی کورٹ کے اکائونٹس ڈپارٹمنٹ سے رابطہ کرکے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی مراعات کی مفصل معلومات طلب کی ہیں۔ زبانی طلب کی گئی یہ معلومات پنشن کے فوائد اور جن تاریخوں پر یہ فوائد مل سکتے ہیں ان کی تفصیلات، اپنی باقی رہ جانے والی رخصت (ایکومولیٹڈ لیو بیلنس)، اور ان کے زیر استعمال سرکاری گاڑیوں کی موجودہ قیمت (اگر وہ یہ گاڑیاں خریدنا چاہیں تو) کے متعلق ہیں۔ ذرائع کے مطابق، معلوماتطلب کیے جانے کے اس واقعے سے یہ جوڈیشل حلقوں میں یہ افواہیں سرگرم ہیں کہ یہ چار ججز (جو ستائیسویں ترمیم کے بعد ممکنہ طور پر حکومت کی جانب سے ٹرانسفر کیے جانے والے ججز کی فہرست میں شامل ہیں) سرگرمی کے ساتھ اس آپشن پر غور کر رہے ہیں کہ نئے صوبوں یا علاقہ جات میں ٹرانسفر ہونے کی بجائے استعفےٰ دیدیا جائے۔ ان میں سے دو ججز ایسے ہیں جو آئندہ ماہ کسی بھی وقت پنشن کیلئے اہل ہو جائیں گے، جس سے ان کے فیصلے کے حوالے سے بے یقینی پائی جاتی ہے۔ ذریعے کا کہنا تھا کہ اگر انہوں نے استعفے کا فیصلہ کیا تو اب تک یہ واضح نہیں کہ استعفے فوراً آئیں گے یا جب وہ پنشن اور مراعات کیلئے کوالیفائی کرلیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر وہ استعفیٰ دیتے ہیں تو یہ بھی واضح نہیں کہ یہ لوگ مل کر استعفیٰ دیں گے یا ایک ایک کرکے۔ یہ پیش رفت ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب حکومت نے 27ویں ترمیم کے بعد جوڈیشل ری شفلنگ (عدالتوں میں رد و بدل) کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ ری شفلنگ ضروری ہے تاکہ ایسے ججوں کے رویے کے مسائل کو حل کیا جا سکے جو حکومت کے بقول عدلیہ کی بے توقیری کا سبب بنے ہیں۔ تاہم، دیگر لوگوں کی رائے ہے کہ 27ویں ترمیم نے عدلیہ کی آزادی کو زبردست دھچکا پہنچایا ہے اور ایسی صورتحال میں آزاد خیال ججوں کیلئے عہدوں پر باقی رہنا مشکل ہو گیا ہے۔ اگرچہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان آئینی طور پر ججوں کے تقرر اور ٹرانسفر کا اختیار رکھتا ہے لیکن جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی موجودہ تشکیل کے ذریعے بظاہر حکومت کو فائدہ ہو رہا ہے۔
انصار عباسی