پارکوں پر پی ایچ اے کی ناقص کارکردگی قابل تشویش ہے
اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
فیصل آباد(وقائع نگارخصوصی)جماعت اسلامی کی ضلعی سیاسی کمیٹی کے صدرشیخ افضال شاہین،سیکرٹری مصوراقبال چیمہ نے شہر بھر کے پارکوںمیںپی ایچ اے کی ناقص کارکردگی پر شدید تشویش کااظہارکرتے ہوئے کہاہے کہ پارکوں کی بدحالی اور ناقص صورتحال ہونے کی وجہ سے شہری تفریحی سرگرمیوں سے محروم ہیں۔ٹوٹے جھولے بچوں کا منہ چڑارہے ہیں جبکہ بچے سڑکوں پر کھیلنے پر مجبور ہیں۔ شہر کو خوبصورت بنانے کیلئے قائم کئے گئے 200سے زائد پارکس تباہی اور بدحالی کا شکار بن چکے ہیں۔انہوں نے کہاکہ پارکوں میں تعینات پی ایچ اے عملے کا بھی ڈیوٹیوں سے غائب رہنا معمول ہے،بہتر نگہداشت نہ ہونے اور بروقت پانی نہ ملنے کی وجہ سے پودے خراب ہو رہے ہیں۔ صوبائی حکومت کی طرف سے متعدد بار فنڈز کے اجرا کے باوجود بھی پارکوں کی صورتحال بہتر نہ بنایا جانا انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔انہوں نے کہاکہ پی ایچ اے کے زیر انتظام چلنے والے 350 سے زائد پارکوں میں سے 200 سے زائد پارک ایسے ہیں جہاں نہ تو واک کرنے کیلئے ٹریک موجود ہیں اور نہ ہی پارک میں گھاس اور پودے بہتر حالت میں موجود ہیں۔ پی ایچ اے حکام کی جانب سے تباہ شدہ اور خستہ حال پارکوں کی تعمیرومرمت کیلئے کئے گئے وعدوں کو عملی جامہ نہ پہنایا گیا۔جماعت اسلامی کے رہنمائوں نے وزیراعلیٰ پنجاب سے فوری توجہ دینے کا مطالبہ کیاہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پی ایچ اے
پڑھیں:
نوابشاہ ،والدین میں تعلیمی اداروں میں بڑھتی ہوئی فیسوں پر تشویش
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نواب شاہ( نمائندہ جسارت) شہر بھر کے والدین طلبہ نے نجی تعلیمی اداروں میں بڑھتی ہوئی بے ضابطگیوں، غیر واضح فیسوں اور شفافیت سے محروم مالی نظام کے باعث گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر ایک ایسا ڈیجیٹل فیس مانیٹرنگ سسٹم متعارف کروایا جائے جو تمام نجی اسکولوں کو ایک ہی مرکزی نظام سے منسلک کرے اور فیسوں کے نظم و ضبط کو مکمل طور پر قابلِ نگرانی بنا دے۔ والدین کے مطابق اس قسم کا نظام نہ صرف اسکولوں کے مالی امور میں شفافیت لائے گا بلکہ من مانی وصولیوں اور قانون شکنی کے دروازے بھی بند کرے گا۔والدین نے کہا کہ کئی نجی اسکول فیسوں میں اپنے طور پر اضافہ کر دیتے ہیں، جب کہ 2001ء کے قوانین اور 2005ء کے رولز واضح طور پر پابند کرتے ہیں کہ کوئی بھی ادارہ ڈائریکٹر ایجوکیشن پرائیوٹ کی منظوری کے بغیر فیس میں اضافہ نہیں کر سکتا۔ اس کے باوجود متعدد اسکول نہ تو منظوری لیتے ہیں اور نہ ہی اس تبدیلی کو نوٹس بورڈ پر آویزاں کرتے ہیں، جس سے والدین کو بروقت آگاہی نہیں ملتی اور انہیں غیر ضروری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ والدین نے اسکولوں کے فیس اسٹرکچر کی وہ تفصیلات بھی سامنے رکھیں جو ان کے مطابق ہر ادارے کو شفاف انداز میں والدین کے سامنے رکھنی لازمی ہیں۔ ان میں داخلہ فیس شامل ہے جو صرف ایک مرتبہ لی جاتی ہے اور اس میں اضافہ جائز نہیں۔ رجسٹریشن فیس نئے داخلے کے وقت لی جاتی ہے لیکن والدین کے مطابق کئی اسکول اسی عنوان کے تحت اضافی رقوم بھی وصول کرتے ہیں۔ ماہانہ ٹیوشن فیس میں اضافہ صرف ڈائریکٹر ایجوکیشن کی تحریری اجازت کے بعد سالانہ 10 سے 15 فیصد تک کیا جا سکتا ہے، مگر اکثر اسکول اس بنیادی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔سالانہ فنڈ ایک سال میں صرف ایک بار لیا جا سکتا ہے، لیکن متعدد اسکول اسے مختلف عنوانات میں تقسیم کرکے والدین پر اضافی بوجھ ڈالتے ہیں۔ لیبارٹری یا کمپیوٹر فیس صرف اْن کلاسوں سے لی جا سکتی ہے جہاں یہ سہولت موجود ہو، مگر والدین نے شکایت کی کہ بعض اسکول پرائمری طلبہ سے بھی یہ فیس وصول کرتے ہیں۔ لائبریری فیس صرف اس وقت جائز ہے جب اسکول کے پاس مکمل طور پر فعال لائبریری موجود ہو۔ امتحانی فیس کے حوالے سے والدین نے افسوس کا اظہار کیا کہ سرکاری قوانین میں اس کی واضح ممانعت کے باوجود کئی ادارے اسے معمول کی طرح وصول کرتے ہیں۔ اسی طرح ایکٹیویٹی فیس صرف انہی سرگرمیوں کے لیے لی جا سکتی ہے جو حقیقت میں منعقد کی جا رہی ہوں۔ ٹرانسپورٹ فیس میں بھی مقررہ حد سے زیادہ اضافہ قانون کے خلاف ہے۔ والدین نے شکایت کی کہ اسکول والدین کو کتابیں اور یونیفارم مخصوص دکانوں سے خریدنے پر مجبور کرتے ہیں جو قانون کے صریح خلاف ہے۔