data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایران اسرائیل جنگ بندی کا اعلان ہوگیا ہے، واشنگٹن کا فیصلہ یہی کہ اب دونوں میں جو فریق بھی خلاف وزی کرے گا، وہ امریکا کے غضب کا شکار بنے گا، امریکا کا یہ اعلان محض ایک گیڈر بھبکی ہے، وہ اسرائیل کے سامنے کیسے اور کیوں غضب ناک ہوگا؟ یہ وہی امریکا ہے جو اسرائیل کو بچانے کے لیے میدان میں کودا تھا، بہر حال اس وقت جنگ بندی نافذ العمل ہے، بہتر یہی ہے کہ جنگ بندی رہے، مگر یہ امریکا جو جنگ بندی کی خلاف ورزی پر غضب ناک ہونے کا اور برے نتائج کا سامنا کرنے کا چیلنج دے رہا ہے وہ اسرائیل کو فلسطینیوں پر ظلم سے اسے باز کیوں نہیں کر رہا؟ بہت واضح ہے کہ جنگ بندی کیوں ہوئی؟ اسرائیلی حکومت کہہ رہی ہے اور مسلسل دعویٰ کر رہی ہے کہ اس نے جنگ بندی کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز اُس وقت قبول کی جب ایران پر حملوں کے مقاصد حاصل کیے جا چکے تھے اس کے خیال میں ایران کے جوہری ہتھیاروں اور بیلسٹک میزائل پروگرام کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ چلیے دیکھتے ہیں کہ سچ کیا ہے؟ ابھی ذرا گرد بیٹھ جانے دیں، ایران بھی اپنا حساب کتاب لگا لے پھر اس کے فیصلوں کو دیکھیں گے کہ وہ کیا فیصلہ کرتا ہے۔
امریکا کے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملوں کے بعد پوری دنیا کو یہی لگ رہا تھا کہ مشرقِ وسطیٰ جنگ اب پھیل جائے گی، پورا خطہ اس کے شعلوں کی لپیٹ میں آ جائے گا، اچانک جنگ بندی کا اعلان سامنے آ گیا، ابھی جنگ بندی ہوئی ہے سچ سامنے آنا ہے، ہر ملک دیکھ رہا ہے کہ اب کیا ہونے جارہا ہے ہوسکتا ہے کہ شاید ایران خطے میں اَمن اور ہم آہنگی کی طرف بڑھے لیکن کس قیمت پر، حالیہ جنگ میں اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا اور اس کی فوجی قیادت کے علاوہ درجن بھر سے زائد سینئر ترین جوہری سائنسدانوں کو نشانہ بنایا یہ کوئی معمولی نقصان تو نہیں، نہایت غیر معمولی نقصان ہے، ایک پوری کور ہی ختم ہوگئی ہے۔ اب نئی ٹیم آئے گی، نئی صلاحتیں ہوں گی، اور نئی ترجیحات۔
اسرائیل کا موقف ہے کہ ایران نے اُس کے خلاف خطے کے دیگر ممالک میں مختلف پراکسیز بنا رکھی ہیں جن کے ذریعے وہ اسرائیل پر حملہ آور ہوتا رہتا ہے، اسرائیل کیا کم تھا یا کم ہے؟ اس نے تو ایران میں اپنا نیٹ ورک بنایا ہوا تھا، دفاعی ماہرین کے نزدیک حالیہ جنگ میں اسرائیل نے ایران کو ناقابل ِ تلافی نقصان پہنچایا تاہم ایران نے بھی اسرائیل کو جواب دیا، اس نے خود کو طاقتور حریف ثابت کرتے ہوئے اپنی بقاء کو یقینی بنایا خاص طور پر جب اسرائیل کی خواہش کے مطابق ایرانی حکومت کی تبدیلی ممکن نہیں ہو سکی، بلکہ اس کے برعکس ایران میں مخالف قوتیں بھی موجودہ ایرانی حکومت کے ساتھ آ کھڑی ہوئیں۔ پاکستان، ترکیہ اور عرب ممالک کے علاوہ بھی دنیا کے زیادہ تر ممالک نے سفارتی سطح پر ایران کا ساتھ دیا اور آخر کار امریکی صدر نے بھی یہ کہہ دیا کہ وہ ایران میں حکومت کی تبدیلی میں کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں رکھتے، اِس سے افراتفری بڑھتی ہے جو وہ نہیں دیکھنا چاہتے، وہ سب کچھ پُرسکون دیکھنا چاہتے ہیں جنگیں مسائل کا حل نہیں ہوتیں بلکہ مزید کئی مسائل کو جنم دیتی ہیں، بات چیت اور مذکرات ہی وہ واحد راستہ ہے جس پر چل کر تنازعات کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے، روس اور یوکرین جنگ کے علاوہ فلسطین اور کشمیر کے مسائل کا حل بھی بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے جلد ہی نکال لینا چاہیے۔
.
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
اسرائیل انجام کی طرف بڑھ رہا ہے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ان حالات میں خطے کی صورتحال اور پاکستان کی پوزیشن بھی زبان زدعام ہے، اس تناظر میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا دورہ امریکا بڑا اہم سمجھا جارہا ہے اس دورے کے حوالے سے پاکستانی حکومت اور فوج مخالف حلقوں میں تو یہی کہا جارہا ہے کہ پاکستان کو امریکا کوئی نیا ہدف دینے والا ہے، لیکن اس دورے کے ساتھ ہی کچھ اشارے ملے تھے، مثال کے طور پر امریکا نے ایران پر براہ راست حملے کا ارادہ موخر کردیا ہے۔ بظاہر یہ خبر سفارتی تھی اور سفارتی خبروں کا معاملہ بھی کچھ یوں ہوتا ہے کہ جب کبھی دو دشمن ملکوں کے حکام یا حاکم و محکوم ملک کے حکام ملاقات کرتے ہیں تو خبر یوں ہی نشر ہوتی ہے کہ دونوں رہنمائوں نے نہایت خوشگوار ماحول میں ملاقات کی، دوطرفہ تعلقات کو مزید فروغ دینے پر اتفاق کیا گیا اور تنازعات کو افہام وتفہیم سے طے کرنے کا فیصلہ کیا گیا، وغیرہ وغیرہ۔ خواہ ملاقات میں ایک دوسرے کے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادینے کی باتیں ہوئی ہوں یا یہ پوچھا گیا ہو کہ بتائو دوست ہو یا دشمن۔ ابھی بتائو۔ لیکن سفارتی بیان ایسا ہی جاری ہوتا ہے اس لیے آگے کے اقدامات سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ بات ہوئی کیا تھی۔ دو ہی دن بعد امریکی حملے نے بتادیا کہ کیا منصوبہ تھا، اس بارے میں آئی ایس پی آر نے بیان جاری کیا ہے، بیان یوں ہے!!
ترجمان پاک فوج کے مطابق امریکا کی طرف سے ملاقات میں صدر ٹرمپ کے ساتھ سیکرٹری خارجہ مارکو روبیو اور خصوصی نمائندہ برائے مشرق وسطیٰ اسٹیو ویٹکوف بھی موجود تھے۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے ساتھ نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اس ملاقات میں شریک تھے۔ فیلڈ مارشل نے پاکستان اور پاکستانی عوام کی جانب سے پاک بھارت کشیدگی کے بعد جنگ بندی میں مثبت اور نتیجہ خیز کردار ادا کرنے پر صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے صدر ٹرمپ کی اقوام عالم کو در پیش متعدد چیلنجز کو سمجھنے اور اْن سے نبرد آزما ہونے کی قائدانہ صلاحیتوں کی تعریف کی جب کہ صدر ٹرمپ نے پاکستان اور امریکا کے درمیان انسداد دہشت گردی کے حوالے سے جاری تعاون اور خطے میں پاکستان کی قیام امن کی کوششوں کو سراہا۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق صدر ٹرمپ کے ساتھ فیلڈ مارشل کی ایران اسرائیل تنازع پر بھی تفصیلی گفتگو ہوئی۔ صدر ٹرمپ نے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی قائدانہ اور فیصلہ کن صلاحیتوں کو سراہا۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے صدر ٹرمپ کو حکومت پاکستان کی جانب سے دورۂ پاکستان کی دعوت بھی دی۔ پہلے سے طے شدہ ایک گھنٹہ دورانیہ کی یہ اہم ملاقات 2 گھنٹے تک جاری رہی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے درمیان ہونے والی یہ اہم ملاقات پاکستان اور امریکا کے درمیان دیرینہ شراکت داری کو مزید مضبوط بنانے کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے، جس کی بنیاد مشترکہ مقاصد، امن، استحکام اور خوشحالی پر رکھی گئی ہے۔ اس بیان میں بھی سب اچھا ہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ایران اسرائیل جنگ میں کیا موڑ آتا ہے، پاکستان ایران کے ساتھ کیا رویہ رکھتا ہے، کیا وہاں رجیم چینج میں پاکستان بھی اپنا حصہ ڈالے گا، کیا اسرائیل کو خطے میں قدم جمانے کا موقع مل جائے گا؟؟ ان تمام سوالات کا جواب آنے والا وقت دے گا۔ فی الحال ایرانی جوابی حملوں نے مشرق وسطیٰ کی سیاست میں ہلچل مچادی ہے، جس طرح حماس کے سات اکتوبر کے حملوں نے پورے مشرق وسطیٰ کی سیاست پلٹ دی تھی اور آج تک یہ مخالف سمت میں چل رہی ہے، اور اسرائیل سے سفارتی تعلقات کو تیار ممالک کو بریک لگ گیا تھا، اسی طرح ایران کے خلاف محاذ بنانے والے، عرب وعجم کی تفریق پر تعلقات بنانے بگاڑنے والے ممالک امریکا کو کھربوں ڈالر دینے والے ممالک بھی ایران کی حمایت اور اسرائیل کی مذمت میں بیان دینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ امریکا کی جانب سے رجیم چینج کا منصوبہ بھی ناکام ہوتا نظر آرہا ہے، اس ساری صورتحال کو تماشے کے طور پر دیکھنے کے بجائے اسلامی ممالک کو مشترکہ متحدہ حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی ورنہ ایک ایک کرکے سب کی باری آئے گی۔ خصوصاً پاکستان کو وہی رول اختیار کرنا ہوگا جو اس نے افغانستان پر روسی جارحیت اور امریکی قبضے کے دوران اختیار کیا پاکستان کے پڑوس میں اسرائیل و امریکا کی پٹھو حکومت کسی طور بھی پاکستان کے لیے سود مند نہیں ہوگی، خواہ اس کام کے عوض کھربوں ڈالر مل جائیں، ایسے خطرات کو سرحدوں سے دور رکھنا ہی بہتر ہوگا۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ ایران کی طاقت کا اندازہ لگانے کے لیے اسرائیل سے یہ چھیڑ چھاڑ کروائی گئی تھی، سو اب اس کا اندازہ تو ہو ہی گیا ہوگا، عجلت میں جنگ بندی کا اعلان اور ایران اور اسرائیل کے لیے جنگ بندی کے الگ الگ وقت مقرر کرنے سے بھی دوسری طرف کا حال نظر آرہا ہے، اس مرتبہ ایران نے وہ کیا جو اب تک اسرائیل اور بھارت کرتے رہے ہیں کہ جنگ بندی کے امریکی اعلان کے باوجود ایران نے اسرائیلی علاقے بئر شیبہ پر میزائلوں سے حملہ کردیا اور سیکڑوں گاڑیوں اور درجنوں عمارتوں کو تباہ کردیا، اس میں ہلاکتیں بھی ہوئیں، اسرائیل تو جنگ بندی سمیت تمام ہی عالمی معاہدوں کی ہمیشہ خلاف ورزی کرتا رہا ہے اور اب بھی کی ہے۔ اسرائیل کے تسلط کے اسی برسوں میں پہلی مرتبہ اسرائیل اور اس کے سرپرستوں نے تباہی کے یہ مناظر دیکھے ہیں، ورنہ اب تک لبنان، شام، غزہ، بیروت وغیرہ یہ دیکھتے تھے۔ عالمی سازش کاروں نے جو منصوبہ بھی بنایا ہو وہ اپنی جگہ لیکن رفتہ رفتہ اب اسرائیل کے لیے اللہ کے اس منصوبے کے حالات سازگار ہورہے ہیں جس کا اللہ اور اس کے رسول نے بہت پہلے ذکر کردیا ہے۔ اسرائیل کا انجام تو اسی کے مطابق ہوگا، تم لاکھ منصوبے بنالو، واللہ خیرالماکرین۔