Jasarat News:
2025-10-04@20:26:41 GMT

ایران اسرائیل جنگ بندی

اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ایران اسرائیل جنگ بندی کا اعلان ہوگیا ہے، واشنگٹن کا فیصلہ یہی کہ اب دونوں میں جو فریق بھی خلاف وزی کرے گا، وہ امریکا کے غضب کا شکار بنے گا، امریکا کا یہ اعلان محض ایک گیڈر بھبکی ہے، وہ اسرائیل کے سامنے کیسے اور کیوں غضب ناک ہوگا؟ یہ وہی امریکا ہے جو اسرائیل کو بچانے کے لیے میدان میں کودا تھا، بہر حال اس وقت جنگ بندی نافذ العمل ہے، بہتر یہی ہے کہ جنگ بندی رہے، مگر یہ امریکا جو جنگ بندی کی خلاف ورزی پر غضب ناک ہونے کا اور برے نتائج کا سامنا کرنے کا چیلنج دے رہا ہے وہ اسرائیل کو فلسطینیوں پر ظلم سے اسے باز کیوں نہیں کر رہا؟ بہت واضح ہے کہ جنگ بندی کیوں ہوئی؟ اسرائیلی حکومت کہہ رہی ہے اور مسلسل دعویٰ کر رہی ہے کہ اس نے جنگ بندی کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز اُس وقت قبول کی جب ایران پر حملوں کے مقاصد حاصل کیے جا چکے تھے اس کے خیال میں ایران کے جوہری ہتھیاروں اور بیلسٹک میزائل پروگرام کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ چلیے دیکھتے ہیں کہ سچ کیا ہے؟ ابھی ذرا گرد بیٹھ جانے دیں، ایران بھی اپنا حساب کتاب لگا لے پھر اس کے فیصلوں کو دیکھیں گے کہ وہ کیا فیصلہ کرتا ہے۔
امریکا کے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملوں کے بعد پوری دنیا کو یہی لگ رہا تھا کہ مشرقِ وسطیٰ جنگ اب پھیل جائے گی، پورا خطہ اس کے شعلوں کی لپیٹ میں آ جائے گا، اچانک جنگ بندی کا اعلان سامنے آ گیا، ابھی جنگ بندی ہوئی ہے سچ سامنے آنا ہے، ہر ملک دیکھ رہا ہے کہ اب کیا ہونے جارہا ہے ہوسکتا ہے کہ شاید ایران خطے میں اَمن اور ہم آہنگی کی طرف بڑھے لیکن کس قیمت پر، حالیہ جنگ میں اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا اور اس کی فوجی قیادت کے علاوہ درجن بھر سے زائد سینئر ترین جوہری سائنسدانوں کو نشانہ بنایا یہ کوئی معمولی نقصان تو نہیں، نہایت غیر معمولی نقصان ہے، ایک پوری کور ہی ختم ہوگئی ہے۔ اب نئی ٹیم آئے گی، نئی صلاحتیں ہوں گی، اور نئی ترجیحات۔
اسرائیل کا موقف ہے کہ ایران نے اُس کے خلاف خطے کے دیگر ممالک میں مختلف پراکسیز بنا رکھی ہیں جن کے ذریعے وہ اسرائیل پر حملہ آور ہوتا رہتا ہے، اسرائیل کیا کم تھا یا کم ہے؟ اس نے تو ایران میں اپنا نیٹ ورک بنایا ہوا تھا، دفاعی ماہرین کے نزدیک حالیہ جنگ میں اسرائیل نے ایران کو ناقابل ِ تلافی نقصان پہنچایا تاہم ایران نے بھی اسرائیل کو جواب دیا، اس نے خود کو طاقتور حریف ثابت کرتے ہوئے اپنی بقاء کو یقینی بنایا خاص طور پر جب اسرائیل کی خواہش کے مطابق ایرانی حکومت کی تبدیلی ممکن نہیں ہو سکی، بلکہ اس کے برعکس ایران میں مخالف قوتیں بھی موجودہ ایرانی حکومت کے ساتھ آ کھڑی ہوئیں۔ پاکستان، ترکیہ اور عرب ممالک کے علاوہ بھی دنیا کے زیادہ تر ممالک نے سفارتی سطح پر ایران کا ساتھ دیا اور آخر کار امریکی صدر نے بھی یہ کہہ دیا کہ وہ ایران میں حکومت کی تبدیلی میں کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں رکھتے، اِس سے افراتفری بڑھتی ہے جو وہ نہیں دیکھنا چاہتے، وہ سب کچھ پُرسکون دیکھنا چاہتے ہیں جنگیں مسائل کا حل نہیں ہوتیں بلکہ مزید کئی مسائل کو جنم دیتی ہیں، بات چیت اور مذکرات ہی وہ واحد راستہ ہے جس پر چل کر تنازعات کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے، روس اور یوکرین جنگ کے علاوہ فلسطین اور کشمیر کے مسائل کا حل بھی بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے جلد ہی نکال لینا چاہیے۔

 

.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

حماس کا امریکی جنگ بندی منصوبہ مسترد کرنے کا عندیہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

غزہ: حماس کے عسکری ونگ کے سربراہ عزالدین الحداد نے امریکا کے نئے جنگ بندی منصوبے کو مسترد کرنے کا عندیہ دیا ہے، جسے وہ حماس کو کمزور اور ختم کرنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔

عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق عزالدین الحداد کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ دراصل لڑائی ختم کرنے کے بجائے حماس کے وجود کو مٹانے کے لیے بنایا گیا ہے، اسی لیے وہ مسلح جدوجہد جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں۔

رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ 20 نکاتی فریم ورک کو اسرائیل پہلے ہی قبول کرچکا ہے، اس میں حماس پر یہ شرط عائد کی گئی ہے کہ وہ ہتھیار ڈال دے اور آئندہ غزہ کی حکومت میں کوئی کردار ادا نہ کرے،  اس شرط کو حماس اپنی بقا کے خلاف سمجھتی ہے۔

خیال رہےکہ حماس کے قبضے میں اس وقت 48 یرغمالی موجود ہیں جن میں سے صرف 20 کے زندہ ہونے کا امکان ہے، منصوبے کے تحت پہلے 72 گھنٹوں میں تمام یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی ایک بڑی رکاوٹ بن گیا ہے۔

حماس قیادت کو خدشہ ہے کہ اگر وہ یرغمالیوں کو رہا کردے تو اسرائیل دوبارہ حملے شروع کرسکتا ہے، خاص طور پر اس واقعے کے بعد جب امریکا کی مخالفت کے باوجود دوحہ میں حماس قیادت پر فضائی حملہ کیا گیا۔

امریکی منصوبے میں غزہ کی سرحدوں پر ’سیکیورٹی بفر زون‘ قائم کرنے اور ایک عارضی بین الاقوامی فورس تعینات کرنے کی تجویز بھی شامل ہے، جسے حماس نئی شکل میں قبضے کے مترادف قرار دیتی ہے۔

دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے بھی منصوبے کی کئی شقوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل فلسطینی ریاست کے قیام کی سخت مزاحمت کرے گا،  اس صورتحال کے باعث امریکی منصوبے پر عملدرآمد کے امکانات مزید کمزور ہوگئے ہیں۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی

متعلقہ مضامین

  • فلسطین تنازع کے حل کیلئے دو ریاستی فارمولہ قبول نہیں، حافظ نعیم الرحمان
  • ایران نے اسرائیل سے روابط کے الزام میں 6 مبینہ دہشت گردوں کو پھانسی دے دی
  • ایران میں اسرائیل سے روابط کے الزام پر 6 عسکریت پسندوں کو سزائے موت
  • جی7 ممالک کی جانب سے ایران پر پابندیوں کی بحالی کا مطالبہ، ایرانی وزارتِ خارجہ کا شدید ردعمل
  • قطر اور مصر کا حماس کے بیان کا خیر مقدم، امریکا کیساتھ رابطہ کاری شروع کردی
  • ایران اچانک حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، سابق صیہونی وزیر جنگ
  • حماس کا امریکی جنگ بندی منصوبہ مسترد کرنے کا عندیہ
  • پاک سعودی دفاعی معاہدہ، اسرائیل کے لیے سخت پیغام ہے، محمد عاطف
  • امریکا قطر دفاعی حکم نامہ
  • عوام بیدار ہوجائیں، حکمران امریکا کے آگے گرے جارہے ہیں، منعم ظفر خان