ایران کے حق میں سرزمین عرب سے ایک توانا آواز
اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT
تحریر: شہزادہ ترکی الفیصل
اگر دنیا میں انصاف واقعی غالب ہوتا، تو ہم نے امریکی B2 بمبار طیاروں کو ڈیمونا اور دیگر اسرائیلی مقامات پر تباہ کن بم برساتے دیکھا ہوتا۔ آخرکار، اسرائیل کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں، جو جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی واضح خلاف ورزی ہے۔
مستزاد یہ کہ، اسرائیل نے اس معاہدے میں شمولیت ہی اختیار نہیں کی، جس کے باعث وہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے دائرۂ اختیار سے باہر رہا، اور آج تک اس کی ایٹمی تنصیبات کا کوئی عالمی معائنہ نہیں کیا گیا۔
جو لوگ ایران پر اسرائیل کے یکطرفہ حملے کو اُن ایرانی رہنماؤں کے بیانات کی بنیاد پر درست قرار دیتے ہیں، جن میں اسرائیل کے مٹانے کی بات کی گئی، وہ اس حقیقت کو نظرانداز کرتے ہیں کہ بن یامین نیتن یاہو نے 1996 میں وزیرِ اعظم بننے کے بعد سے ایرانی حکومت کو مٹانے کی باتیں کی ہیں۔ ایران کی بڑھکوں نے خود اس کے لیے تباہی کا سامان کیا.
مغرب کی جانب سے اسرائیل کے ایران پر حملے کی منافقانہ حمایت کوئی حیرت کی بات نہیں، کیونکہ وہ طویل عرصے سے اسرائیل کے فلسطین پر جاری حملوں کی حمایت کرتا آ رہا ہے، اگرچہ حالیہ دنوں میں کچھ ممالک کی حمایت میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
یوکرین پر حملے کے باعث روس پر مغرب کی جانب سے لگائی گئی پابندیاں، اسرائیل کو دی گئی کھلی چھوٹ سے واضح تضاد رکھتی ہیں۔
مغرب جس بین الاقوامی ضابطۂ قوانین پر مبنی نظام کا ہمیشہ پرچار کرتا رہا ہے، وہ اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ہم عرب دنیا بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
مگر ان تنازعات پر ہمارا اصولی مؤقف اس بات کی روشن مثال ہے کہ اقوام، ان کے رہنما اور عوام کو کیا کردار ادا کرنا چاہیے۔
مغربی رہنماؤں کی باعثِ افسوس بات یہ ہے کہ وہ اب بھی اپنے مبینہ اصولوں کے بارے میں کھوکھلے دعوے دہراتے رہتے ہیں۔ تاہم، خاص طور پر فلسطینی قوم کی اسرائیلی قبضے سے آزادی کی جدوجہد کے حوالے سے، مغرب میں عوام کی بڑی تعداد نے اپنے رہنماؤں کے جھوٹے مؤقف کو مسترد کر دیا ہے۔
مختلف مذاہب، رنگوں اور عمروں سے تعلق رکھنے والے افراد فلسطین کی آزادی کے لیے اپنی حمایت کا اظہار مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ان کے رہنماؤں کے مؤقف میں بتدریج تبدیلی آ رہی ہے۔ یہ ایک خوش آئند پیشرفت ہے۔
ہفتے کی شب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران میں 3 ایٹمی تنصیبات پر بمباری کے لیے اپنی فوج کو کارروائی کی اجازت دے دی۔ یہ قدم اٹھاتے ہوئے، انہوں نے نیتن یاہو کی ترغیبات اور اس کے ایران پر جاری غیر قانونی حملے میں مبالغہ آمیز کامیابیوں کی تشہیر پر یقین کر لیا۔
انہوں نے 2 دہائیاں قبل اپنی ہی قیادت کے عراق پر غیر قانونی حملے کی بہادری سے مخالفت کی تھی۔ یاد رکھیں (غیر ارادی نتائج کا قانون) عراق اور افغانستان میں مؤثر ثابت ہوا، اور یہ قانون یقیناً ایران میں بھی اپنا اثر دکھائے گا۔
اب بھی سفارت کاری کی طرف واپسی ممکن ہے۔ دیگر مغربی رہنماؤں کے برعکس، صدر ٹرمپ کو دہرا معیار نہیں اپنانا چاہیے۔ اُنہیں چاہیے کہ سعودی عرب اور خلیجی تعاون کونسل میں اپنے دوستوں کی بات سنیں، جو نیتن یاہو کے برعکس جنگ نہیں بلکہ امن چاہتے ہیں، بالکل ٹرمپ کی طرح۔
تاہم، مَیں دہرا معیار ختم کر سکتا ہوں، نہ نتن یاہو کے نسل کش رویے کو روک سکتا ہوں، نہ ایران کی مشتبہ سرگرمیوں کی تاریخ کو بدل سکتا ہوں، نہ ہی فلسطینی قیادت کی آپس کی لڑائیوں پر قابو پا سکتا ہوں۔ میں یورپی قیادت کی کم ہمتی، صدر ٹرمپ کا مشرق وسطیٰ میں امن لانے کا دعویٰ (جبکہ وہ خود ایران پر جنگ مسلط کر رہے ہیں) اور اُن کی جانب سے ایران کو جنگ بندی کی اپیل قبول کرنے پر دی گئی مبارکباد، یا اُن کا نتن یاہو کے لیے حد سے بڑھی ہوئی مدح سرائی بھی نہیں روک سکتا۔
میں وہی کروں گا جو میرے مرحوم والد، شاہ فیصل، نے اُس وقت کیا تھا جب اُس وقت کے امریکی صدر ہیری ٹرومین نے اپنے پیشرو فرینکلن روزویلٹ کے وعدوں سے انحراف کیا اور اسرائیل کے قیام میں مدد دی۔ میرے والد نے ٹرومین کے صدارت سے سبکدوش ہونے تک امریکا کا دورہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ مَیں بھی اُس وقت تک امریکا کا سفر نہیں کروں گا جب تک صدر ٹرمپ صدارت سے سبکدوش نہیں ہو جاتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہزادہ ترکی الفیصل واشنگٹن اور لندن میں سعودی عرب کے سابق سفیر رہ چکے ہیں، اور مملکت کی انٹیلی جنس ایجنسی کے سابق ڈائریکٹر جنرل بھی رہے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
B2 بمبار اسرائیل ایران ڈونلڈٹرمپ سعودی عرب شاہ فیصل شہزادہ ترکی الفیصل مغربذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل ایران ڈونلڈٹرمپ شاہ فیصل شہزادہ ترکی الفیصل رہنماؤں کے اسرائیل کے ایران پر سکتا ہوں کی بات کے لیے
پڑھیں:
طاقت کے زعم میں امن؟
امریکی صدر ٹرمپ نے نیدر لینڈزکے شہر دی ہیگ میں نیٹو اجلاس کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایران یورینیم افزودگی کا پروگرام دوبارہ شروع کرے گا، تو اسے فوجی کارروائی سے روکیں گے۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان سیز فائر بالکل ٹھیک جا رہا ہے، میرے کہنے پر اسرائیلی طیارے ایران کی فضاؤں سے واپس آئے ہیں، غزہ کے معاملے پر بھی بڑی پیش رفت ہو رہی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہیروشیما کی مثال دینا نہیں چاہتا، ناگاساکی کی بھی نہیں لیکن بنیادی طور پر امریکی حملہ ہی وہی چیز تھی جس نے ایران اسرائیل جنگ کا خاتمہ کیا۔
دی ہیگ میں ہونے والے نیٹو اجلاس کے دوسرے روز صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جو خیالات سامنے آئے، ان کے تناظر میں اگر یہ سوال اٹھایا جائے کہ آیا وہ ایران اور اسرائیل کے درمیان مستقل بنیادوں پر امن قائم کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے یا نہیں؟ تو اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ یہ عمل انتہائی پیچیدہ، کثیر الجہتی اور طویل المدتی حکمت عملی کا تقاضا کرتا ہے، جو محض عسکری کارروائیوں یا دھمکیوں سے ممکن نہیں ہو سکتا۔ ٹرمپ کی حکمت عملی عمومی طور پر فوری نتائج، طاقت کے مظاہرے اور سیاسی فائدے پر مبنی ہوتی ہے، جب کہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال تاریخی، مذہبی، سیاسی اور علاقائی تناؤ کا مرکب ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے نیٹو اجلاس میں اپنی تقریر کے دوران دعویٰ کیا کہ ان کے دباؤ اور امریکی فضائی طاقت کے مظاہرے کے نتیجے میں ایران کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا گیا اور اسرائیل نے فوری حملے سے گریز کیا۔ انھوں نے اسے اپنی قیادت کی کامیابی قرار دیا۔ بظاہر یہ ایک وقتی کامیابی ضرور ہو سکتی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایران اب اپنی جوہری پالیسی سے مکمل طور پر دستبردار ہو جائے گا یا اسرائیل اپنی فوجی جارحیت سے باز آ جائے گا۔
ایران کی سیاسی قیادت خاص طور پر سخت گیر حلقے اس دباؤ کو ایک ’’ غیر ملکی جارحیت‘‘ کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اسے داخلی سطح پر اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں، جس کا نتیجہ مزید مزاحمت اور خود انحصاری کی طرف لے جاتا ہے۔ایران اور اسرائیل کے درمیان مستقل بنیادوں پر امن قائم کرنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک دونوں ممالک کے مابین براہ راست مذاکرات کی راہ ہموار نہ ہو اور اس میں تیسرے فریق کے طور پر کوئی غیر جانبدار اور قابلِ اعتماد قوت ثالثی کا کردار ادا نہ کرے۔
ٹرمپ انتظامیہ کا اسرائیل کی کھلی حمایت کا رجحان، جیسا کہ القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا، فلسطینیوں کی نظر میں امریکی کردار کو مکمل طور پر متنازعہ بنا چکا ہے۔ لہٰذا ایران جیسے ملک کے لیے امریکا کی ثالثی کبھی قابل قبول نہیں ہوگی۔ اس پس منظر میں یہ قیاس کہ ٹرمپ ایران اور اسرائیل کے درمیان امن قائم کر سکیں گے، نہایت خوش فہمی پر مبنی ہو گا۔
دوسری طرف اگر اسرائیل کی پالیسی کا جائزہ لیا جائے تو اسرائیلی حکومت کی پالیسی ہمیشہ سے دفاعی کے ساتھ ساتھ جارحانہ نوعیت کی رہی ہے۔ اس کے عسکری ادارے اور انٹیلی جنس ایجنسیاں نہ صرف ہمسایہ ممالک پر نظر رکھتی ہیں بلکہ اندرون فلسطین بھی مظالم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حالیہ برسوں میں غزہ پر مسلسل بمباری، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور فلسطینی شہریوں کی ہلاکتیں اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ یہ کہنا کہ اسرائیل کی غنڈہ گردی کسی امریکی صدر کی ایک تقریر یا دباؤ سے رک جائے گی، حقیقت سے فرار کے مترادف ہے۔ اسرائیلی پالیسی اس وقت تبدیل ہوگی جب اسے بین الاقوامی سطح پر سخت سیاسی، سفارتی اور معاشی دباؤ کا سامنا ہو اور جب اس کی داخلی سیاست میں امن کا بیانیہ فوقیت حاصل کرے۔
فلسطین پر جاری مظالم کی تاریخ طویل اور المناک ہے۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں، بین الاقوامی قوانین اور عالمی رائے عامہ سب فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ اسرائیل نے فلسطین کے بیشتر علاقوں پر قبضہ جما رکھا ہے، یہودی آباد کاری کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے اور غزہ ایک قید خانے میں تبدیل ہو چکا ہے۔
جب تک فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا اور جب تک اسرائیل پر بین الاقوامی سطح پر سخت دباؤ نہیں ڈالا جاتا، اس وقت تک فلسطینی عوام کے لیے کسی بھی قسم کے امن کی امید رکھنا محض فریب ہوگا۔ ٹرمپ کی پالیسی، جو مکمل طور پر اسرائیل نواز رہی ہے، اس مسئلے کے حل میں مزید رکاوٹ بن چکی ہے۔
اب اگر یوکرین اور روس کی جنگ کی بات کی جائے، تو یہ جنگ بھی محض دو ممالک کے درمیان نہیں بلکہ ایک عالمی کشمکش کی علامت ہے، جس میں امریکا، نیٹو، یورپی یونین اور دیگر علاقائی طاقتیں براہ راست یا بالواسطہ ملوث ہیں۔ ٹرمپ نے کئی مواقعے پر دعویٰ کیا کہ وہ اگر دوبارہ صدر بنے تو 24 گھنٹوں میں اس جنگ کو روک سکتے ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ بظاہر ایک انتخابی نعرہ ہے جس میں زمینی حقائق کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔
یوکرین اپنی سرزمین پر روسی قبضے کے خلاف برسر پیکار ہے اور اسے نیٹو اور امریکا کی بھرپور مدد حاصل ہے۔ روس اپنی علاقائی بالادستی کو قائم رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدام کر رہا ہے۔ ایسے میں کسی ایک شخصیت کا دعویٰ کہ وہ اس پوری جنگ کو چند گھنٹوں میں ختم کر دے گا، محض سادہ لوحی ہے۔
ٹرمپ کی سابقہ خارجہ پالیسی کو دیکھا جائے تو وہ نیٹو پر مالی دباؤ ڈالنے، اتحادیوں سے رقم وصول کرنے اور امریکا کی عسکری قوت کو سودے بازی کے آلے کے طور پر استعمال کرنے کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔ انھوں نے کبھی بھی اصولی، اخلاقی یا بین الاقوامی قانون پر مبنی پالیسی پر زور نہیں دیا۔ ایسے میں ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ یوکرین جنگ جیسے پیچیدہ اور سنگین تنازعے کو سفارتی طور پر ختم کروا لیں گے، زمینی حقائق کے برعکس ہے۔
یہ بھی ایک قابل غور بات ہے کہ نیٹو اجلاس میں دیگر ممالک کے رہنماؤں کی موجودگی کے باوجود ٹرمپ نے ایک بار پھر اپنی ’’امریکا اول‘‘ پالیسی کا اظہار کیا۔ ان کا سارا زور اس بات پر رہا کہ امریکا نیٹو کا سب سے بڑا مالی معاون ہے اور دیگر ممالک کو مزید مالی بوجھ اٹھانا چاہیے۔ اس سوچ سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی ترجیح مشترکہ عالمی فلاح یا امن نہیں بلکہ امریکا کے معاشی مفادات ہیں۔ ایسی سوچ کے ساتھ وہ عالمی ثالث کے طور پرکس طرح موثر کردار ادا کر سکتے ہیں، یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے۔
دنیا کو اس وقت ایسے رہنماؤں کی ضرورت ہے جو طاقت اور سودے بازی کے بجائے انصاف، قانون اور انسانی حقوق کو اولیت دیں۔ فلسطین ہو یا یوکرین، ایران ہو یا اسرائیل، تمام تنازعات کا دیرپا حل اسی وقت ممکن ہے جب عالمی طاقتیں طاقت کے توازن کی بجائے حق و انصاف کے اصولوں پر عمل کریں۔ صدر ٹرمپ کی موجودہ پالیسی اور بیانات سے ایسا کوئی عندیہ نہیں ملتا کہ وہ اس راہ پر گامزن ہیں۔
اگرچہ انھوں نے ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کی وقتی صورت حال پیدا کی، لیکن اس کو مستقل امن کہنا ایک مبالغہ ہوگا۔ امن کی راہ مذاکرات، اعتماد سازی، باہمی احترام اور انسانی حقوق کی بنیاد پر ہی نکل سکتی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ عالمی برادری ایک مربوط، غیر جانبدار اور دیرپا حکمت عملی اختیار کرے تاکہ دنیا کے ان سلگتے ہوئے مسائل کا مستقل حل نکل سکے۔امریکا کو بطور سپر پاور ایک ذمے دار کردار ادا کرنا چاہیے، نہ کہ صرف طاقت کا مظاہرہ اور سیاسی نعرہ بازی۔ فلسطینی عوام کو ان کے حقوق دلوانے، ایران کو عالمی برادری کے ساتھ جوڑنے، اسرائیل کو قانون کا پابند بنانے، اور یوکرین جنگ کو روکنے کے لیے جامع اور سنجیدہ سفارت کاری درکار ہے۔
جب تک عالمی طاقتیں اس سمت میں پیش رفت نہیں کرتیں، تب تک مشرق وسطیٰ میں غنڈہ گردی، ظلم اور جنگ کا سلسلہ جاری رہے گا اور ٹرمپ جیسے لیڈروں کے دعوے محض انتخابی نعرے ہی رہیں گے۔ یہ ایک کڑوی حقیقت ہے کہ دنیا کے طاقتور رہنما جب تک ذاتی سیاسی مفادات اور وقتی فوائد سے بالاتر ہو کر انسانیت کے مشترکہ مفاد کو اپنا مقصد نہیں بناتے، اس وقت تک نہ مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہو گا، نہ یوکرین اور روس کے درمیان جنگ ختم ہو گی، اور نہ ہی مظلوم فلسطینی عوام سکھ کا سانس لے سکیں گے۔ دنیا کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ طاقت کے بل پر امن چاہتی ہے یا انصاف اور حق کی بنیاد پر ایک پائیدار دنیا کی تشکیل۔ یہ فیصلہ اب مزید مؤخر نہیں کیا جا سکتا۔