data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد(صباح نیوز) وزیرمملکت برائے قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک نے کہا ہے کہ مخصوص نشستوں پر نظرثانی کیس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین اور قانون کی بالادستی ہے اور نو ججوں کا فیصلہ ہے، فیصلے کسی کی مرضی اورمنشا کے مطابق نہیں ہوتے، اپوزیشن فیصلہ کو متنازع بنانے کی بجائے اس کا خیرمقدم کرے۔ ہفتہ کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ مخصوص نشستوں پر نظرثانی کیس میں نو ججز نے متفقہ فیصلہ دیا ہے جسے چھ اور سات ججوں کا فیصلہ نہیں کہنا چاہیے، سات ججز نے اکثریت میں فیصلہ لیا جبکہ دو ججز نے 12 جولائی کے اپنے فیصلہ کو تبدیل کیا ہے اس لئے اسے نو ججوں کا فیصلہ تصور کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی نے آزاد الیکشن میں حصہ لیا، ان کی لیگل ٹیم کے پاس جب کوئی دلیل نہیں بچی تو انہوں نے میں نہ کھیلوں کی پالیسی اختیار کی اور اب وکٹ اٹھا کر بھاگنے کی کوشش کر رہے ہیں اور بچوں کی طرح طرز عمل اختیار کر رہے ہیں۔بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ میں بھی یہ اپنی منشا کے مطابق کیس لے کر گئے تھے جہاں پر پانچ ججوں نے متفقہ فیصلہ دیا اس پر بھی روشنی ڈالنا ضروری ہے۔بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ یہ کوئی صوبائی نہیں بلکہ ایک قومی ایشو تھا اس میں قومی اسمبلی، پنجاب، کے پی، سندھ اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستوں سے متعلق معاملہ تھا۔اکثر قومی معاملات کو ترجیحا اسلام آباد ہائی کورٹ لے جایا جاتا ہے لیکن انہوں نے اپنی خواہش پر یہ کیس پشاور ہائیکورٹ دائر کیا جس پر تیس صفحات پر مشتمل فیصلہ آیا۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 51اور 106مخصوص نشستوں کو ریگولیٹ کرتے ہیں جوبالکل واضح ہیں، مخصوص نشستوں کو خالی نہیں چھوڑا جاسکتا لیکن بیرسٹر گوہر شاید سمجھتے ہیں کہ یہ نشستیں خالی چھوڑنی چاہئے تھیں لیکن ایسا کیسے ممکن ہے۔ جب یہ قانون بنا تو اس میں اخذ کیا گیا تھاکہ مخصوص نشستیں خالی نہیں چھوڑی جائیں گی لیکن بیرسٹر گوہر اپنی بے ضابطگیوں ،قانونی سقم اور خامیوں کو عدالت پر ڈالنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل نے اپنے انتخابی نشان پر الیکشن لڑنے کی بجائے آزاد الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا جو بروقت پروسیجر مکمل نہ کرنے کی وجہ سے انہیں کرنا پڑا۔ پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کہتا ہے کہ جب کوئی پارٹی کا سربراہ مقررہ وقت کے اندر اپنا پروسیجر مکمل نہیں کرتا تو یہ ان کی اپنی غلطی ہے، اسے پرانی تاریخوں میں جمع تصور نہیں کیا جاسکتا۔ پشاور ہائیکورٹ کے پانچوں ججز اس فیصلہ پر متفق تھے جنہوں نے آئین کی مکمل تشریح میں فیصلہ سنایا اور یہ کہاکہ یہ پروسیجرل غلطی ہے جس کی تلافی مقررہ مدت کے بعد نہیں کی جاسکتی۔ بیرسٹر عقیل نے کہا کہ اب سپریم کورٹ نے فیصلہ سنا کر آئین کا بول بالا کیا اور آئین کی بالادستی کو یقینی بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس فیصلہ کی روشنی میں آئین کو ری رائٹ کرنے کا اختیار کسی کوحاصل نہیں اور نہ ہی کوئی جرأت کرسکتا ہے، آئین میں ترمیم کا اختیار صرف پارلیمان کوحاصل ہے۔ وزیرمملکت نے کہا کہ اپنے سارے دلائل دینے کے بعد بیرسٹر گوہر اب کہہ رہے ہیں کہ اس بینچ کو یہ کیس سننے کا اختیار نہیں تھا اور فیصلہ کو تسلیم کرنے کی بجائے متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن آئین اور قانون میں اس کی کوئی گنجائش نہیں، آئین اور قانون مقدم ہے اور اس کی اصل روح کے مطابق اس فیصلہ پر عمل ہوگا، میں نہ مانوں اور میں نہ کھیلوں سے کام نہیں چلے گا۔ انہوں نے کہاکہ اپوزیشن سے کہتا ہوں کہ خوش آئند فیصلے کو تسلیم بھی کریں اور اس کا خیرمقدم بھی کریں۔ ایک سوال کے جواب میں بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ آئین اور قانون کے مطابق پارلیمانی پارٹیوں کو مخصوص نشستوں کاحصہ دیا جائے اور یہ عمل مکمل ہوجائے گا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ آئین اور قانون مخصوص نشستوں کا فیصلہ کے مطابق رہے ہیں

پڑھیں:

27ویں آئینی ترمیم پر ریٹائرڈ ججز کیا کہتے ہیں؟

26ویں آئینی ترمیم کا معاملہ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے سامنے زیرِالتوا ہے جہاں درخواست گزار اس کی سماعت فل کورٹ کے سامنے چاہتے ہیں، لیکن اب یہ معاملہ شاید آئینی بینچ کی حدود سے نکل کر وفاقی آئینی عدالت کے سامنے چلا جائے بشرطیکہ 27 ویں آئینی ترمیم اگر دونوں ایوانوں سے منظور ہو جاتی ہے۔

وی نیوز نے اس ترمیم پر رائے کے لیے ریٹائرڈ جج صاحبان سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ ترمیم بنیادی طور پر ماضی قریب میں عدلیہ کے اختیارات سے تجاوز اور ان کے غلط استعمال کا ردعمل ہے لیکن یہ عوامی مفاد کی کوئی ترمیم نہیں۔

مزید پڑھیں: سینیٹ نے دو تہائی اکثریت سے 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری دے دی

’ہاں ایک چیز مثبت ہے کہ کہ آئینی معاملات سے متعلق مقدمات سننے کے لیے علیحدہ عدالت کا قیام ہو رہا ہے، اِس سے پہلے سیاسی مقدمات کی وجہ سے عام لوگوں کے مقدمات نہیں سنے جاتے تھے۔‘

27 ویں آئینی ترمیم پر سپریم کورٹ کے اندر سے وکلا اور جج صاحبان کا ردعمل بھی سامنے آ گیا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط میں لکھا ہے کہ نئی وفاقی آئینی عدالت کا قیام کسی اصلاحاتی ایجنڈے کا حصہ نہیں۔ یہ عدلیہ کو کمزور اور بے اختیار کرنے کا ایک سیاسی حربہ ہے۔

انہوں نے کہاکہ وفاقی آئینی عدالت میں ججوں کی تعیّناتی آئینی پیرامیٹرز کے بجائے انتظامیہ کے پاس چلی گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ اب انتظامیہ عدلیہ کو کنٹرول کر سکے گی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے خط میں چیف جسٹس کو تجویز دی ہے کہ موجودہ انتظامیہ کے ساتھ بات کریں اور کہیں کہ عدلیہ سے مشاورت کے بغیر کوئی ترمیم نہیں لائی جا سکتی۔

’سپریم کورٹ کی فل کورٹ میٹنگ بلائی جائے یا تمام آئینی عدالتوں کے ججوں کا کنونشن منعقد کیا جائے۔ آپ کا چیف جسٹس کے عہدہ صرف انتظامی عہدہ نہیں بلکہ آئین کے محافظ کے کردار کا تقاضا کرتا ہے۔‘

اس سے قبل سابق ججز جسٹس ریٹائرڈ مشیر عالم اور جسٹس ریٹائرڈ ندیم اختر اور سپریم کورٹ کے وکلا فیصل صدیقی، مخدوم علی خان، منیر اے ملک، عابد زبیری، اکرم شیخ، انور منصور، علی احمد کرد، خواجہ احمد حسین اور صلاح الدین احمد نے ایک مشترکہ خط میں چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہم غیر معمولی حالات میں یہ خط لکھ رہے ہیں۔

خط میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ اپنے قیام کے بعد آج سب سے بڑے خطرے سے دوچارہے، کوئی سول یا فوجی حکومت سپریم کورٹ کو اپنا ماتحت ادارہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوئی، ماضی میں ایسی کوئی کوشش بھی نہیں ہوئی، اگر آپ متفق ہیں یہ پہلی کوشش ہے تو ردعمل دینا سپریم کورٹ کا حق ہے۔

انتظامیہ نے عدلیہ کو شکجنے میں جکڑ لیا ہے، عباد الرحمان لودھی

لاہور ہائیکورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس (ریٹائرڈ) عباد الرحمان لودھی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اِس وقت انتظامیہ نے عدلیہ کو مکمل طور پر اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے، عدلیہ کی آزادی رہی کہاں ہے جس کی حفاظت کی جائے، لیکن ہم نے وہ وقت بھی دیکھا ہے جب تمام حکومتی معاملات بینچ نمبر ون سے چلائے جاتے تھے۔

’صبح تمام آئی جیز، ڈی آئی جیز، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے چیمبر میں حاضری دیتے، وہاں سے احکامات جاری ہوتے اور پھر بیورکریٹس بینچ نمبر ون میں پیش ہوتے اور ان کو بے عزت کیا جاتا۔‘

انہوں نے کہاکہ جسٹس ثاقب نثار کے دور میں بھی یہی کچھ ہوا، عدلیہ کی جانب سے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا گیا، تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔

جسٹس ریٹائرڈ عباد الرحمان لودھی کا کہنا تھا کہ بیوروکریسی نے اِس پر اپنی اپنی متعلقہ وزارتوں کو باقاعدہ نوٹس لکھے کہ ہمارے ساتھ اِس قسم کا تحقیر آمیز رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ انتظامیہ کے اندر ایک غصہ اور لاوہ پک رہا تھا، اور اب تو جو نئی وفاقی آئینی عدالت بننے جا رہی ہے اس میں صدر اور وزیراعظم مِل کر چیف جسٹس کا انتخاب کریں گے اور وہ آگے مزید 6 ججز کا انتخاب کرے گا۔

’مطلب من پسند ججز لگائے جا سکیں گے، یہ عدالت آئین کی تشریحات کرے گی مطلب آئین حکومت کے تابع ہو جائے گا۔ باقی کی سپریم کورٹ کے پاس طلاق، نکاح، تجاوزات یہ والے مقدمات ہی رہ جائیں گے۔‘

ہماری عدالتیں حد سے زیادہ سیاسی ہوگئی تھیں، مدثر خالد عباسی

لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج مدثر خالد عباسی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ہر چیز کا کوئی نہ کوئی محرّک ہوتا ہے۔ ہماری عدالتیں حد سے زیادہ سیاسی ہو گئی تھیں، وہ سیاست میں زیادہ دلچسپی لینے لگ گئی تھیں تو ایسا ردعمل فطری تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ماضی قریب میں عدلیہ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے جس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔

انہوں نے کہاکہ اس ترمیم میں ایک بات مثبت ہے کہ آئینی یا سیاسی مقدمات کے لیے الگ عدالت بنا دی گئی ہے۔ اس سے پہلے سیاسی مقدمات آگے نکل جاتے تھے اور عام لوگوں کے جائیداد اور کریمنل کیسز سے متعلق مقدمات پیچھے رہ جاتے تھے۔

’اب کم از کم یہ ہوگا کہ عدالتیں یکسوئی کے ساتھ عام آدمی کے مقدمات سنیں گی اور سیاسی مقدمات ایک مخصوص عدالت میں چلیں گے۔‘

’قومی سطح پر اتفاق رائے قائم کرنے کی ضرورت ہے‘

مدثر خالد عباسی نے کہاکہ اِس وقت ملک کو اس ترمیم سے زیادہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ قومی سطح پر اتفاق رائےقائم کیا جائے۔ سارے ادارے مِل کر ایک نظام بنائیں، اگر دیکھا جائے تو پارلیمنٹ کا اختیار ہے کہ وہ قانون سازی کر سکتی ہے۔ لیکن تاثر، حقیقت سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ اس وقت پارلیمان اور اِن ترامیم کے بارے میں عوامی تاثر مثبت اور حوصلہ افزا نہیں بلکہ اداروں پر سے عوامی اعتماد کم ہو رہا ہے، عوام اِس طرح کی قانون سازی کی تعریف نہیں کرے گی بلکہ پہلے سے موجود تقسیم اور گہری ہو جائے گی۔

مزید پڑھیں: فیلڈ مارشل عاصم منیر کی وجہ سے آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیا: پی ٹی آئی سینیٹر سیف اللہ ابڑو مستعفی

مدثر خالد عباسی نے کہاکہ اس وقت پاکستان کے اصل چیلنجز دہشتگردی، لاقانونیت، مہنگائی، تعلیم صحت کی سہولیات ہیں۔ ریاستیں عام آدمی سے بنتی ہیں اور عام آدمی اِس وقت تکلیف اور پریشانی میں مبتلا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ تمام ملکی قیادت بیٹھ کر فیصلہ کرے، اس ترمیم کو لوگ زیادہ سے زیادہ چیلنج ہی کر سکتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews آئینی بینچ آئینی ترمیم اپوزیشن حکومت ریاست ریٹائرڈ ججز سپریم کورٹ وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • آج سوگ کا دن، 27ویں ترمیم کے بعد جمہوریت برائے نام رہ جائے گی، بیرسٹر گوہر
  • جسٹس اطہر کا چیف جسٹس کو خط، عوامی رائے کو دبانے کیلئے سپریم کورٹ کے استعمال پر اظہار افسوس
  • بیرونی مداخلت اب کوئی راز نہیں، ایک کھلی حقیقت ہے: جسٹس اطہر من اللّٰہ کا چیف جسٹس کو خط
  • 190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ سنانے والے جج کو کام سے روکنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
  • ایک سو نوے ملین پائونڈ کیس کا فیصلہ سنانے والے جج کو کام سے روکنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
  • سپریم کورٹ نے ایف سی اہلکار حسن آفریدی کو بحال کردیا
  • 27ویں آئینی ترمیم پر ریٹائرڈ ججز کیا کہتے ہیں؟
  • ملزم ضمانت کاغلط استعمال کررہا ہے تو قانون اپنا راستہ بنائے، چیف جسٹس
  • ستائیسویں ترمیم، سپریم کورٹ کے مستقبل کے لیے فیصلہ کن ہفتہ
  • 27 ویں ترمیم، سپریم کورٹ کے مستقبل کے لیے فیصلہ کن ہفتہ