Jasarat News:
2025-11-10@18:45:15 GMT

صدر کو ججوں کے ٹرانسفر کا اختیار حاصل ہے، سپریم کورٹ

اشاعت کی تاریخ: 25th, September 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے ٹرانسفر کیس کا 55 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا، جسٹس محمد علی مظہر نے یہ فیصلہ تحریر کیا۔

میڈیا رپورٹس کےمطابق سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ آئین کے تحت صدر مملکت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی ہائیکورٹ کے جج کو دوسری ہائیکورٹ میں منتقل کر سکتے ہیں، یہ اختیار اپنی نوعیت میں آزاد ہے تاہم اس پر چند اہم شرائط عائد ہیں۔

بنیادی شرط کے مطابق جج کی رضامندی لازمی ہے، اس کے علاوہ صدر مملکت چیف جسٹس آف پاکستان اور دونوں متعلقہ ہائیکورٹس کے چیف جسٹس سے مشاورت کے پابند ہیں۔

فیصلے کے مطابق، ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بھی کسی دوسری ہائیکورٹ کے جج کو مقررہ مدت کے لیے بلا سکتا ہے لیکن یہ اقدام بھی صرف جج کی رضا مندی سے ہی ممکن ہوگا۔

 عدالت نے واضح کیا کہ آئین سازوں کے دیے گئے صدر کے اختیارات ختم نہیں کیے جا سکتے اور خالی آسامیوں کی موجودگی ججوں کے تبادلے کے اختیار پر اثرانداز نہیں ہوتی۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ جج کا تبادلہ نئی تقرری کے زمرے میں نہیں آتا، آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت جج کی ٹرانسفر، آرٹیکل 175-اے کے تحت کی جانے والی تقرری سے بالکل الگ ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ہائیکورٹ کے پانچ ججوں کے خط پر سپریم کورٹ میں مقدمہ زیر سماعت ہے، لہٰذا اس پر تبصرہ یا ریمارکس دینا مناسب نہیں ہوگا کیونکہ اس سے زیر التوا کیس متاثر ہوسکتا ہے۔

 عدالت نے مشاورت کرنے والے ججز پر لگائے گئے الزامات پر بات کرنے سے بھی گریز کیا اور کہا کہ ایسے الزامات آسانی سے ہر اس جج پر لگ سکتے ہیں جو آرٹیکل 200 کے تحت ٹرانسفر ہو کر آئے۔

سپریم کورٹ نے اپنے دائرہ اختیار تک محدود رہنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بطور آئینی بینچ ہم صرف قانونی اور آئینی نکات پر فیصلہ دینا چاہتے ہیں اور ذاتی یا انتظامی الزامات میں الجھنے کے حق میں نہیں ہیں۔

یاد رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججوں نے ٹرانسفر اور سینیارٹی کے معاملات کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ہائیکورٹ کے سپریم کورٹ چیف جسٹس کورٹ کے کے تحت

پڑھیں:

27ویں آئینی ترمیم پر سینیئرز وکلا اور ریٹائرڈ ججز کا چیف جسٹس پاکستان کو خط، اہم مطالبہ کر دیا

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)ستائیسیویں آئینی ترمیم کے معاملے پر سینیئر وکلا اور ریٹائرڈ ججز نے چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھ دیا۔

خط میں چیف جسٹس سے فل کورٹ میٹنگ بلانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

خط پر جسٹس (ر) مشیر عالم، مخدوم علی خان، منیر اے ملک، عابد زبیری، جسٹس (ر) ندیم اختر، اکرم شیخ، انور منصور، علی احمد کرد، خواجہ احمد حسین اور صلاح الدین احمد کے دستخط شامل ہیں۔

سینیئر وکلا اور ریٹائرڈ ججز نے خط میں کہا ہے کہ بطور سپریم کورٹ ترمیم پر ردعمل دیا جائے، سپریم کورٹ ترمیم پر اپنا اِن پٹ دینے کا اختیار رکھتی ہے۔

خط کے متن کے مطابق ہم غیر معمولی حالات میں یہ خط لکھ رہے ہیں، سپریم کورٹ اپنے قیام کے بعد آج سب سے بڑے خطرے سے دوچار ہے، کوئی سول یا فوجی حکومت سپریم کورٹ کو اپنا ماتحت ادارہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔

خط میں لکھا ہے کہ ماضی میں ایسی کوئی کوشش بھی نہیں ہوئی، اگر آپ متفق ہیں یہ پہلی کوشش ہے تو رد عمل دینا سپریم کورٹ کا حق ہے۔

متعلقہ مضامین

  • جسٹس منصور علی شاہ کے دلچسپ ریمارکس، کمرہ عدالت میں قہقہے
  • سینیئر وکیل فیصل صدیقی کا چیف جسٹس کو خط، 27ویں آئینی ترمیم پر تحفظات کا اظہار
  • 27ویں آئینی ترمیم پر سینیئرز وکلا اور ریٹائرڈ ججز کا چیف جسٹس پاکستان کو خط، اہم مطالبہ کر دیا
  • ستائیسویں آئینی ترمیم پر سینیئرز وکلا اور ریٹائرڈ ججز کا چیف جسٹس پاکستان کو خط، اہم مطالبہ کر دیا
  • وفاقی آئینی عدالت کے ججز کے نام منظرِ عام پر آگئے
  • ستائیسویں ترمیم، سپریم کورٹ کے مستقبل کے لیے فیصلہ کن ہفتہ
  • 27 ویں ترمیم، سپریم کورٹ کے مستقبل کے لیے فیصلہ کن ہفتہ
  • وفاقی آئینی عدالت قائم کی جائے گی، کوئی جج ٹرانسفر ماننے سے انکار کرے گا وہ ریٹائر تصور کیا جائے گا: مجوزہ آئینی ترمیم
  • تمام ہائیکورٹ ججز مشترکہ سنیارٹی لسٹ، تعین تاریخ تقرری کی بنیاد پر
  • سپریم کورٹ، وکلا کی سہولت اور عدالتی کارکردگی بہتر بنانے پر اہم ملاقات