سپریم کورٹ: پولیس کے ہاتھ کاکڑ آگیا، سزا چرس پر نہیں بیوقوفی پر ہونی چاہیے، جسٹس ہاشم کاکڑ
اشاعت کی تاریخ: 25th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد:۔ سپریم کورٹ میں آج منشیات اسمگلنگ کیس کی سماعت کے دوران غیر روایتی اور دلچسپ مکالمے سامنے آئے۔ جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ مجرم ظفراللہ کی اپیل پر سماعت کر رہا تھا۔
ملزم ظفراللہ پر الزام ہے کہ اس کے قبضے سے 12 کلو چرس برآمد ہوئی تھی جس پر اسے عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ ابتدا میں جب عدالت کو بتایا گیا کہ ملزم کا تعلق ”کاکڑ“ قومیت سے ہے تو جسٹس ہاشم کاکڑ نے برجستہ کہا کہ ملزم کاکڑ ہے تو کیا ہوا، میرا کون سا واقف کار ہے! اس پر عدالت میں موجود افراد مسکرا اٹھے۔
بعدازاں سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ملزم پیدل ہی 12 کلو چرس لے کر جا رہا تھا۔ یہ سن کر جسٹس ہاشم کاکڑ نے ہنستے ہوئے کہا کہ پھر تو سزا چرس پر نہیں بلکہ بے وقوفی پر ہونی چاہیے تھی! اس جملے پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔ملزم کے وکیل نے موقف اپنایا کہ برآمدگی کرنے والا پولیس افسر ہی تفتیشی افسر بنا، اور وہی چرس فرانزک کے لیے بھی لے گیا۔
جس پر جسٹس اشتیاق ابراہیم نے طنزیہ کہا کہ پولیس والے کے ہاتھ ایک کاکڑ آگیا۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے مزید ریمارکس دیے کہ “یہ تو پولیس والے کا ون مین شو لگتا ہے”۔ ریکارڈ کے مطابق، اس وقت تھانے میں دو انسپکٹر مزید موجود تھے، لیکن تفتیش ایک ہی افسر کو سونپی گئی۔ دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے مجرم ظفراللہ کی اپیل پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جسٹس ہاشم کاکڑ
پڑھیں:
چیف جسٹس پاکستان نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی تجاویز منظور کر لیں
اسلام آباد:چیف جسٹس پاکستان سے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ہارون الرشید اور سیکریٹری بار نے ملاقات کی، جس میں عدالتی کارکردگی کو بہتر بنانے اور وکلا کی فلاح و بہبود کے حوالے سے متعدد امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
بار کے اعلامیے کے مطابق ملاقات کے دوران صدر بار نے درخواست کی اے ایس سی ایز کو ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کی طرح مقدمات دائر کرنے کی اجازت دی جائے، چیف جسٹس پاکستان نے اس درخواست کو منظور کرتے ہوئے متعلقہ دفتر کو اس پر عمل درآمد کے لیے ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت کردی۔
عوامی سہولت مرکز کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے صدر نے تجویز دی کہ ڈپٹی رجسٹرار کے عہدے کے ایک افسر کو ضمانتی مچلکوں اور دیگر عدالتی امور سے متعلق معاملات نمٹانے کے لیے تعینات کیا جائے۔
چیف جسٹس نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور ہدایت دی کہ ایک ڈپٹی رجسٹرار روزانہ صبح گیارہ بجے سے لیکر ساڑھے 11بجے اور دن 2بجے سے لیکر 2بج کر 20 منٹ تک تعینات کر کے امور انجام دیں گے۔