Express News:
2025-06-29@00:24:07 GMT

ڈپریس نوجوان، خاموش اذیت: نظرانداز شدہ مسئلہ

اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT

 پاکستان میں لاکھوں نوجوان بظاہر ایک عام اور مصروف زندگی گزار رہے ہیں، مگر ان کے دلوں کے اندر ایک ایسی خاموش چیخ دفن ہے جسے کوئی سننے والا نہیں۔ یہ وہ نوجوان ہیں جو روز معاشرے میں گھل مل کر چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں، مگر ان کی اندرونی دنیا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہے۔

یہ نوجوان بھیڑ میں اکیلے ہیں، ان کے درد کو الفاظ نہیں ملتے اور نہ ہی کوئی ایسا کندھا میسر آتا ہے جس پر سر رکھ کر ان کے کرب کو تسلی مل سکے۔موجودہ دور میںذہنی دباؤ بڑھ چکا ہے، ماحولیاتی آلودگی اور موسموں کی تبدیلی نے بھی انسانی دماغ پر منفی اثر ڈالا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ، ہمارے رویوں میں بھی ایک طرح کی زہریلی آلودگی در آئی ہے، جو نہ صرف رشتوں کو متاثرکرتی ہے بلکہ ایک پورے معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کر رہی ہے۔ معاشرے میں کاملیت پسندی کا رجحان شدید ہوچکا ہے۔ ہم اپنے بچوں سے صرف کامیابیاں، نمبر، ڈگریاں اور پرفیکشن کی امید رکھتے ہیں۔ جذبات، خوف، ناکامی یا اندرونی خلفشار جیسے مسائل کو نہ سمجھتے ہیں نہ قبول کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ نوجوان یا تو خاموشی میں گم ہو جاتے ہیں یا انتہا پسندانہ قدم اٹھا لیتے ہیں۔ملتان سے تعلق رکھنے والا نوجوان وقاص رضا شاید انھی میں سے ایک تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ اس نے اپنی پسند سے شادی کی تھی، مگر اس کی بیوی ایک الگ گھرکا تقاضا کر رہی تھی۔ گھریلو تنازعات، معاشرتی دباؤ اور جذباتی انتشار نے اس کو اس حد تک توڑ دیا کہ اس نے زندگی کا خاتمہ کر لیا۔

بہت سے مثبت فکرکے حامل لوگ اپنے بچوں کے علیحدہ رہنے پر ناراض نہیں ہوتے، مگر اس خودکشی کے پیچھے محض ایک گھریلو مسئلہ نہیں، بلکہ وہ اذیت کا ایک خاموش اور طویل سلسلہ تھا جو اس کے اندر ہی اندر اس کی ذات کو منتشرکرتا رہا۔خلیل جبران کا ایک قول ہے۔

’’تمہارے بچے دراصل تمہارے بچے نہیں۔ وہ فطرت کے بچے ہیں، حیات کی آرزوئے تسلسل کے مظاہر۔ وہ تمہارے ذریعے سے آتے ہیں، مگر تم سے نہیں۔ تم انھیں اپنی محبت دے سکتے ہو، مگر اپنے خیالات اور عقائد مسلط نہیں کرسکتے۔ ان کے جسموں کے لیے گھر بناؤ، مگر ان کی روح کو آزاد چھوڑ دو۔‘‘

لیکن ہم کیا کرتے ہیں؟ ہم اپنے خوابوں، محرومیوں یا انا کو اپنے بچوں پر تھوپ دیتے ہیں۔ ان سے وہ بننے کا مطالبہ کرتے ہیں، جو ہم خود نہ بن سکے۔ یہ رویہ بظاہر’’ محبت‘‘ کہلاتا ہے، مگر اندر سے یہ ایک ’’ مشروط اور خود غرضی پر مبنی‘‘ تعلق ہوتا ہے۔ یہی مشروط محبت والدین اور بچوں کے بیچ ایک خلیج پیدا کرتی ہے۔ نوجوان اپنی شناخت، مرضی اور جذبات سے کٹ کر صرف ’’ فرمانبردار‘‘ بن کر رہ جاتے ہیں۔

وقاص کی خودکشی ایک لمحہ فکریہ ہے، جو صرف ایک فرد کا مسئلہ نہیں بلکہ ہزاروں نوجوانوں کی خاموش اذیت کی نمایندہ چیخ ہے۔ آج کا نوجوان مختلف نفسیاتی مسائل سے گزر رہا ہے، ان میں سب سے نمایاں ’’ وسواسی اضطرابی کیفیت‘‘ (OCD) ہے، جس میں نوجوان ایک ہی خیال یا عمل میں بار بار پھنس جاتا ہے، جیسے بار بار ہاتھ دھونا یا دروازہ چیک کرنا۔

اس کے علاوہ بے چینی (Anxiety) عام ہے، جہاں معمولی باتوں پر بھی شدید گھبراہٹ یا نیند میں خلل پیدا ہوتا ہے۔ سوشل اینگزائٹی کے شکار نوجوان دوسروں کے سامنے بولنے یا تقریبات میں جانے سے گریزکرتے ہیں۔ کئی نوجوان ’’ ڈیٹیچمنٹ‘‘ کا شکار ہوکر دنیا اور رشتوں سے کٹنے لگتے ہیں۔ معاشی دباؤکے تحت اختیارکی گئی ناپسندیدہ ملازمت ذہنی تناؤ بڑھا دیتی ہے۔ دفاتر اور اداروں میں زہریلا ماحول، جیسے سینئرزکی بے رخی یا طنزیہ رویہ، نوجوان کی خود اعتمادی کو مجروح کرتا ہے۔

گھریلو تنازعات، والدین کے جھگڑے یا مسلسل تنقید نوجوان کے ذہن کو زخمی کرتی ہے۔ اسی طرح کنٹرولنگ والدین، جو ہر فیصلے پر اپنی مرضی مسلط کرتے ہیں، بچوں کو اپنی شناخت کھونے پر مجبورکر دیتے ہیں، جس سے ان کی شخصیت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہے اور وہ ذہنی دباؤکا سامنا نہ کرتے ہوئے انتہائی قدم اٹھا لیتے ہیں۔ یہ سب عوامل مل کر ایک نوجوان کی ذات کو منتشرکر کے رکھ دیتے ہیں۔

کچھ خوش نصیب علاج، تھراپی یا سپورٹ سسٹم تک پہنچ پاتے ہیں، لیکن اکثریت سماجی بدنامی، لاعلمی یا مالی مسائل کی وجہ سے خاموشی سے اندر ہی اندر گھٹ کر رہ جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ نوجوانوں کی ذہنی صحت کا تحفظ کیسے کیا جائے؟ اس کے لیے والدین، اساتذہ، حکومت اور معاشرے کو اجتماعی سطح پر اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ایک اجتماعی شعور اور منظم حکمت عملی کی ضرورت ہے جس میں والدین، اساتذہ، تعلیمی ادارے، حکومت اور معاشرہ سب شامل ہوں۔

سب سے پہلے ذہنی صحت کو تعلیمی نظام میں شامل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اسکولوں،کالجوں اور جامعات میں ذہنی صحت کی تعلیم دی جائے تاکہ نوجوان شروع سے ہی اپنے جذبات کو پہچاننا اور سنبھالنا سیکھیں۔ ہر تعلیمی ادارے میں تربیت یافتہ ماہرِ نفسیات یا کاؤنسلرکی موجودگی لازمی ہو تاکہ طلبا اعتماد کے ساتھ اپنے مسائل بیان کرسکیں۔

دوسری طرف والدین کی تربیت بھی نہایت ضروری ہے، تاکہ وہ بچوں کے جذبات، آزادی اور نفسیاتی ضروریات کو سمجھ سکیں۔ والدین کے لیے تربیتی ورکشاپس اور سیمینارزکا انعقاد کیا جانا چاہیے۔ ساتھ ہی معاشرے میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ ذہنی بیماری کوئی پاگل پن نہیں بلکہ ایک قابلِ علاج مسئلہ ہے۔ ایسے خیالات کا خاتمہ ضروری ہے جو نفسیاتی مسائل کوکمزوری یا بدنامی سمجھتے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کی معاشی اور ذاتی بہتری کے لیے بھی اقدامات کیے جانے چاہییں۔ ہنر سکھانیوالے پروگرامز، انٹرن شپ اور روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ زندگی میں بامقصد اور بااعتماد محسوس کریں۔ انھیں ذاتی خیال و سمجھ  کے اصول سکھائے جائیں جیسے journaling (روزنامچہ و یاد داشتیں لکھنا)، meditation (مراقبہ)، فطرت کے قریب جانا، ورزش و دیگرتخلیقی سرگرمیاں وغیرہ۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا کو ذہنی صحت کے مثبت پیغامات کے لیے استعمال کیا جائے، جہاں متاثرین اور ماہرین نوجوانوں کی رہنمائی کریں۔

وقاص رضا ایک فرد کا نام ضرور ہے، لیکن حقیقت میں وہ ہزاروں نوجوانوں کی نمایندگی کرتا ہے، وہ ان خاموش چیخوں کا استعارہ ہے جو روز ہماری آنکھوں کے سامنے دم توڑ رہی ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر ہم نے ان نوجوانوں کے ذہنی اندھیرے کو نہ سمجھا، اگر ہم نے ان کے دکھوں کا ازالہ نہ کیا، تو یہ خودکشیوں کی شرح بڑھتی رہے گی اور ہم خاموش تماشائی بنے رہیں گے۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

ہیلتھ انڈومنٹ فنڈ کا مسئلہ حل کرینگے، گلبر خان

وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے ایوان میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن والے چیف سیکرٹری کے دفتر تو جاتے ہیں لیکن میرے پاس نہیں آتے۔ اپوزیشن سے سو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن میرے دفتر کے دروازے ان کیلئے ہمیشہ کھلے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے کہا ہے کہ ہیلتھ انڈومنٹ فنڈ کا مسئلہ انتہائی اہم ہے، اس مسئلے کو حل کرنے کی بھرپور کوشش کرینگے۔ اسمبلی اجلاس کے دوران مختلف ممبران کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پچھلے سال ہیلتھ انڈومنٹ فنڈ کیلئے 1 ارب روپے مختص کیا تھا جس سے 22 کروڑ روپے منافع ملتے تھے لیکن شرح سود کم ہونے اب صرف 12 کروڑ روپے ملتے ہیں۔ حالیہ بجٹ میں ہم نے 50 کروڑ روپے مختص کیا تھا، کابینہ نے فیصلہ کیا کہ اس پیسے سے کم از کم چھ ماہ تک اس کو چلائیں گے، مین نے سیکرٹریز کے ساتھ میٹنگ بھی کی جس میں چیف سیکرٹری نے بتایا کہ پہلے ہسپتالوں کے بقایا جات کا مسئلہ حل کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پیسہ کم پڑ گیا تو ہم کہیں اور سے بھی بندوبست کرینگے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اپوزیشن اراکین کیلئے میرے دفتر کے دروازے کھلے ہیں، بعض مسئلے ایسے ہوتے ہیں جن کو ایوان میں پیش کرنے سے حل ہو سکتے ہیں، بعض مسائل کیلئے میرے دفتر آنا ہوتا ہے۔ اپوزیشن والے چیف سیکرٹری کے دفتر تو جاتے ہیں لیکن میرے پاس نہیں آتے۔ اپوزیشن سے سو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن میرے دفتر کے دروازے ان کیلئے ہمیشہ کھلے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • نوجوان اپنے کردار پر سمجھوتہ نہ کریں، صحت کا نظام آبادی کے دباؤ سے لڑکھڑا گیا ہے
  • لندن،برسلزاور پیرس کے درمیان چلنے والی ٹرین سروس معطل،مسافر اذیت کا شکار
  • خلا میں 60 برس سے خاموش سیٹلائٹ نے دہائیوں بعد سگنل بھیج دیا
  • غزہ میں 3,77,000 فلسطینیوں کی گمشدگی: ایک ایسا بحران جسے دنیا نظرانداز کررہی ہے، رپورٹ
  • برطانوی نوجوان اپنے ایئر پوڈز کے پیچھے پاکستان تک آ پہنچا
  • 2019 کے بعد یہ سب سے بڑی کامیابی ہے کہ کشمیر اب بین الاقوامی مسئلہ مانا جا رہا ہے؛ بلاول بھٹو
  • مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل کیلئے جدوجہد جاری رکھیں گے، ذوالفقار علی بھٹو جونیئر
  • ہیلتھ انڈومنٹ فنڈ کا مسئلہ حل کرینگے، گلبر خان
  • فیملی ڈائنامکس: جنریشن کے مابین مضبوط پل یا گہری کھائی؟