متاثرین سیلاب کی مدد کو انا کا مسئلہ کیوں بنا لیا، وفاق پالیسیوں پر نظرثانی کرے: بلاول
اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT
کراچی+اسلام آباد (سٹاف رپورٹر +نمائندہ خصوصی ) بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ فوجی نہیں سیاسی طریقے سے حل کرنا ہو گا، بلوچستان کے عوام کی شکایات اپنی جگہ ہیں، دہشت گردی کا مسئلہ سب سے بڑا مسئلہ ہے، سیلاب متاثرین کی مدد کو انا کا مسئلہ کیوں بنالیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت سیلاب متاثرین کی مدد سے متعلق پالیسیوں پر نظرثانی کرے۔ متاثرہ لوگوں کو فوری ریلیف پہنچانے کیلئے بی آئی ایس پی واحد پروگرام ہے، بروقت عالمی اپیل کرتے تو متاثرین کی زیادہ مدد کر سکتے تھے، ایسا کیوں نہیں ہو رہا یہ ہم سے نہیں وفاق سے پوچھیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی میں پریس کانفرنس میں کیا۔ بلاول بھٹو نے کہا بلوچستان کے لوگوں کو دکھانا ہوگا کہ صوبے کے سٹیک ہولڈرز وہ خود ہیں۔ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی دہشت گردی کا مقابلہ کر کے کامیاب ہوئے اور آئندہ بھی ہوں گے۔ ہم نے وزیراعظم شہباز شریف سے درخواست کی تھی کہ حالیہ سیلاب کے بعد ملک میں زرعی اور موسمیاتی ایمرجنسی نافذ کی جائے اور ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ متاثر علاقوں میں کسانوں کے بجلی کے بل معاف کیے جائیں۔ ہم وفاقی حکومت اور وزیراعظم کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے نہ صرف ایمرجنسی نافذ کی بلکہ صرف کسانوں کے نہیں بلکہ متاثرہ علاقوں میں رہائشی صارفین کے بجلی کے بل بھی معاف کرنے کا اعلان کیا۔ اس حوالے سے میں نے وزیراعلی سندھ سے بھی بات کی تھی اور انہیں کہا تھا کہ وہ صوبے کے حوالے سے اپنا منصوبہ بنائیں تاکہ ہم کسانوں کے نقصانات کو پورا کرسکیں، خاص طور پر چھوٹے کسان یا زمیندار ہیں، ان کی کس طرح سپورٹ کی جاسکتی ہے اور اگر وفاق بھی ہمارا ساتھ دے گا تو ہم مزید سپورٹ بھی دے سکیں گے۔ سندھ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ بینظیر ہاری کارڈ کے ذریعے جو چھوٹے زمیندار یا کسان ہیں جو ایک سے 25 ایکڑ تک زمین رکھتے ہیں، ان کو اس کارڈ یا پھر شناختی کارڈ کے ذریعے ان کو سپورٹ کریں گے، کسانوں کو ڈی اے پی اور یوریا میں سپورٹ کریں گے۔ سیلاب متاثرین کی مشکلات کا ادراک اور احساس ہے، کاشت کاروں کی مدد کریں گے تاکہ گندم برآمد نہ کرنا پڑے، سندھ حکومت کاشتکاروں کو زرعی پیکج دے گی، وفاقی اور صوبائی حکومتیں وقت پر مداخلت کریں تو مزید نقصانات کو روکا جاسکتا ہے بلکہ پاکستان اور عوام پر درآمدات کی صورت میں آنے والے بل کو بھی روک سکتے ہیں، پاکستانی عوام کا پیسہ باہر کے کسانوں پر خرچ کیا جاتا ہے، اس سے بہتر یہ ہے کہ ہم اپنے وسائل اپنے کسانوں پر خرچ کریں اور زرعی شعبے کو سپورٹ کریں تاکہ ہم گندم درآمد کرنے کے بجائے برآمد کرنے کی پوزیشن میں آجائیں۔ اگر وفاقی حکومت وہ کرلیتی ہے تو ہمارے زرعی شعبے کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ سب سے پہلے وفاقی حکومت نے جو آئی ایم ایف کے ساتھ طے کیا ہے کہ ہم سپورٹ پرائس نہیں دے سکتے ہیں، وفاق کو عالمی ادارے سے بات کرکے اس پالیسی پر نظرثانی کرنا ہوگی، تاکہ ہم اپنے کسانوں کو سپورٹ پرائس بھی دے سکیں اور انہیں کم قیمت پر کھاد بھی مہیا کر سکیں۔ سیلاب کے نقصانات کا سلسلہ اب بھی جاری ہے، خاص طور پر سندھ کے کچے کے علاقوں میں تو نقصان ہوا لیکن جس پیمانے پر پنجاب، خاص طور پر جنوبی پنجاب میں ہونے والا نقصان تاریخی ہے، جبکہ صوبائی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ہم متاثرین کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے جو خوش آئند ہے۔ سیلاب متاثرہ علاقے خاص طور پر ملتان، بہاولپور، لودھراں، جلال پور پیروالا میں آج بھی پانی موجود ہے اور یہ لوگ وہاں نہیں پہنچ سکتے ہیں، آج بھی وفاقی حکومت بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے ان کی مدد کرسکتی ہے کیوں کہ قدرتی آفات میں صوبائی حکومتیں بھی اپنی کوشش کرتی ہیں لیکن وفاق صف اول کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سیلاب سے نقصان صرف پنجاب میں نہیں ہوا، ہم خیبرپی کے اور گلگت بلتستان کو بھی نہیں بھول سکتے۔ پنجاب حکومت کی تعریف کرتا ہوں انہوں نے کسانوں کے نقصان پورے کرنے کا اعلان کیا۔ لہذا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام وہ واحد طریقہ ہے جس سے وفاقی حکومت متاثرین کو فوری طور پر مدد پہنچا سکے، پچھلے سیلاب میں بھی وفاق نے یہی کام کیا تھا، کرونا کے دوران بھی یہی کام کیا گیا، اگر آج یہ کام نہیں کرتے تو جنوبی پنجاب کا کیا قصور ہے جب وہ لوگ بے گھر ہیں اور سڑکوں پر رہ رہے ہیں تو ان کی مدد کیوں نہیں کی جاسکتی۔ اپنی انا کی وجہ سے یا پتا نہیں کیوں یہ فیصلہ کیا گیا ہے، وفاق کو اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنا چاہیے اور سیلاب متاثرین کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے مدد فراہم کریں۔ سیلاب کے بعد وفاقی حکومت کو عالمی مدد مانگنی چاہیے تھی، اگر آج آپ 100 روپے خرچ کررہے ہیں تو آپ کے پاس 200 روپے خرچ کرنے کے لیے ہوتے۔ عالمی دنیا اور اداروں سے بات کریں اور سیلاب کی وجہ سے آئی ایم ایف شرائط پر نظرثانی کریں، جس طرح وفاق نے ہر بار کسی بھی آفت میں دنیا کی طرف رجوع کیا ہے ویسے اس بار بھی ہونا چاہیے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام تب متعارف کرایا جب ہم مسلم لیگ (ن) کے اتحادی تھے اور انتخابات کے دوران وہ اس پروگرام کی اونرشپ بار بار لیتے تھے، اسحق ڈار اس وقت وزیر خزانہ تھے اور اس وقت ان کے تمام نمائندے اس پروگرام کی تعریف کرتے رہتے تھے مگر اب کیوں اس پر یوٹرن لیا ہے، تو یہ سوال انہی سے پوچھا جائے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے فائدہ حاصل کرنے والوں میں سب سے بڑی تعداد پنجاب کی ہے اور اس کے بعد سندھ کا نمبر آتا ہے، اس پروگرام سے غریب ترین عورتوں کو ایک سپورٹ ملتی ہے، اس سے نہ صرف انہیں مالی مدد ملتی ہے بلکہ ہم انہیں روزگار کے مواقع بھی فراہم کررہے ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر سارے پاکستان نے سراہا، معاہدے سے متعلق ان کیمرا بریفنگ بھی ہو گی، ملک کو ایک ایکسپورٹر ملک بنا دیا گیا ہے۔ میرے کزن کافی دیر سے سیاست میں متحرک رہے ہیں، انہیں ویلکم کرتے ہیں، ہمیشہ سے ان کے لیے نیک خواہشات رکھی ہیں، میری یا میری بہنوں کی طر ف سے ان کے خلاف کوئی بیان نہیں آیا۔ این ایف سی ایوارڈ اور صوبوں کے درمیان مالی وسائل کی تقسیم سے متعلق سوال پر بلاول بھٹو نے کہا کہ اس حوالے سے پیپلز پارٹی کی پالیسی واضح ہے، موجودہ ایوارڈ اٹھارہویں ترمیم سے پہلے کی بنیاد پر طے ہوا ہے جبکہ ترمیم کے بعد صوبوں کو مزید ذمہ داریاں دی گئی ہیں۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ ان ذمہ داریوں کو بخوبی نبھانے کے لیے ضروری ہے کہ صوبوں کو مزید وسائل دئیے جائیں۔ ایف بی آر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ٹیکس وصولی کا ہدف پورا کرنے میں ناکامی پر صوبوں کو مشکل میں ڈالا گیا ہے۔ اسلام آباد کے گناہوں کی سزا صوبوں کے عوام کو کیوں دی جائے؟۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ سیلز ٹیکس اکٹھا کرنے کا اختیار جب صوبائی حکومتوں کو دیا گیا تو سندھ نے ٹیکس کی وصولی میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ گڈز یعنی اشیاء پر عائد سیلز ٹیکس اکٹھا کرنے کا اختیار بھی صوبوں کو دیا جائے۔ وفاقی حکومت ٹیکس کے نظام کو بہتر کرے تاکہ ملک کو بحرانوں سے نکالا جا سکے۔ میں نے وفاقی حکومت کی سندھ پر تنقید کبھی نہیں سنی، پنجاب حکومت کے وزراء اگر تنقید کرتے ہیں تو امید ہے یہ ان کے ذاتی خیالات ہوں گے لیکن پارٹی پالیسی نہیں۔ ن لیگ نے اب تک کسی آئینی ترمیم کا ڈرافٹ شیئر نہیں کیا۔ اگر وہ آئینی ترمیم کرنا چاہتے ہیں تو پیپلزپارٹی سے بات کریں۔ ہم مشاورت سے فیصلے کریں گے۔ عالمی امداد کی اپیل کرنا پنجاب حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ وفاق کا کام ہے۔ وفاقی حکومت یہ اپیل کیوں نہیں کر رہی یہ سوال بھی ان ہی سے کیا جائے۔ اسلام آباد سے نمائندہ خصوصی کے مطابق بلاول بھٹو زرداری نے ضمنی بلدیاتی الیکشن میں اپنی جماعت کی کامیابی پر عوام سے تشکر کا اظہار کرتے ہوئے نومنتخب بلدیاتی نمائندوں کو مبارکباد اور جیالوں کو اس فتح کو یقینی بنانے کے لیے دن رات محنت پر خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ پی پی پی چیئرمین نے سندھ میں ضمنی بلدیاتی انتخابات کے نتائج پر اپنے ردعمل میں کہا کہ کراچی سے کشمور تک، عوام نے ایک بار پھر ووٹ کے ذریعے پیپلز پارٹی پر اپنے غیر متزلزل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ یہ کامیابی قائدِ عوام شہید ذوالفقار علی اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی جماعت سے عوام کے گہرے رشتے کا ثبوت ہے۔سندھ حکومت کی جانب سے خواتین کو مفت پنک سکوٹیز کی تقسیم شروع کر دی گئی۔ اس سلسلے میں کراچی میں محکمہ ٹرانسپورٹ کے زیر اہتمام ایک تقریب ہوئی، تقریب کے موقع پر مہمان خصوصی چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے خواتین و طالبات کو پنک سکوٹیز کی چابیاں فراہم کیں۔ بلاول نے کہا کہ یہ منصوبہ خواتین کی نقل و حرکت کو آسان بنانے اور انہیں بااختیار کرنے کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ جلد خواتین کے لیے پنک ٹیکسیاں بھی متعارف کرائی جائیں گی۔ سندھ وہ پہلا صوبہ ہے جہاں الیکٹرک بسیں چلائی گئیں اور پنک بس سروس شروع کی گئی اور اب خواتین کو مفت پنک سکوٹیز دی جا رہی ہیں تاکہ وہ تعلیم، ملازمت اور کاروبار کے لیے بلا رکاوٹ سفر کر سکیں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سیلاب متاثرین صوبائی حکومت پیپلز پارٹی وفاقی حکومت متاثرین کی بلاول بھٹو کسانوں کے اعلان کیا نے کہا کہ کے ذریعے حکومت کی کا مسئلہ صوبوں کو انہوں نے کرنے کا کریں گے کے لیے ہیں تو کے بعد کی مدد گیا ہے کیا ہے تھا کہ
پڑھیں:
پنجاب حکومت کا سیلاب متاثرین کو بینظیر انکم سپورٹ کے تحت امداد دینے سے انکار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور: پنجاب حکومت نے واضح کردیا ہے کہ صوبے میں سیلاب متاثرین کی امداد بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے ذریعے نہیں بلکہ صوبائی وسائل سے فراہم کی جائے گی۔
وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ ینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹرڈ ہی نہیں، انہیں اس پروگرام کے تحت امداد دینا ممکن نہیں۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت نے سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے اپنا ریلیف پیکج تیار کیا ہے اور اس مقصد کے لیے بیرونی امداد کی ضرورت نہیں، سیلاب متاثرین کے لیے وزیراعلی پنجاب مریم نواز کا ریلیف کارڈ بنے گا۔
عظمیٰ بخاری نے کہا کہ حالیہ سیلاب میں مجموعی طور پر 47 لاکھ افراد متاثر ہوئے،جن میں سے 25 لاکھ سے زائد افراد کو بروقت ریسکیو آپریشن کے ذریعے محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔
صوبي وزیر اطلاعات نے مزید کہا کہ ابتدائی سروے مکمل ہوچکا ہے اور متاثرہ خاندانوں کے لیے مالی امداد کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ اس پیکج کے تحت سیلاب زدہ کاشتکاروں کو فی ایکڑ 20 ہزار روپے، پکا گھر تباہ ہونے کی صورت میں 10 لاکھ روپے اور کچا مکان گرنے پر 5 لاکھ روپے دیے جائیں گے، جبکہ جس شخص کا مویشی مر گیا ہے اسے بھی 5 لاکھ روپے فراہم کیے جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ شرجیل میمن کو تقاریر کرنے کا شوق ضرور ہے، مگر کراچی اور سندھ کی موجودہ صورتحال سب کے سامنے ہے، سندھ میں بھاری بیرونی امداد کے باوجود متاثرین مکمل طور پر بحال نہیں ہوسکے، بلاول بھٹو نے وزیراعلیٰ پنجاب کی کاوشوں کو سراہا ہے، اور وہ بلاول کے بیان کو زیادہ معتبر سمجھتی ہیں۔
عظمیٰ بخاری نے سیاسی مخالفین کے رویے کو انہوں نے ’’سیلابی سیاست‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے لیے دعا ہی کی جاسکتی ہے۔