ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس پر کبھی رائے نہیں دیتا، بیرسٹر گوہر
اشاعت کی تاریخ: 28th, June 2025 GMT
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس پر کبھی رائے نہیں دیتا، فوج کا سیاست میں کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔
جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہم تو پہلے بھی کہہ چکے ہیں اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات نہیں ہو رہے، آج بھی کہہ رہے ہیں نہ ہی فرنٹ اور نہ ہی بیک ڈور پر رابطہ ہو رہا ہے۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں مذاکرات ہوں، حکومتی حلقوں سے اس پر بات چیت چل رہی ہے۔
بیرسٹر گوہر سے سوال کیا گیا کہ رانا ثناء اللّٰہ کی بات چیت کی پیش کش پر آپ کیا کہیں گے؟، جواب میں پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ ہم اب بھی سمجھتے ہیں سیاسی معاملات کا حل سیاسی ہونا چاہیے، موجودہ حکومت کمزور سی ہے لیکن فی الحال کوئی بات نہیں ہو رہی۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ عدلیہ سے امید لگائی ہے مایوسی بہت زیادہ ہوتی رہی ہے، پرسوں بشریٰ بی بی اور بانی پی ٹی آئی کے کیسز تھے، سماعت نہیں ہو سکی، کبھی پراسیکیوٹر بدل جاتا ہے کبھی سماعتیں لمبی، ہم کہاں جائیں، ہم احتجاج ہی کر سکتے ہیں یا پھر عدالتوں کے پاس جاتے ہیں، کیا کسی کا آئینی و قانونی حق نہیں ہے کہ انہیں ضمانت دی جائے؟
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: بیرسٹر گوہر پی ٹی ا ئی نے کہا کہ نہیں ہو
پڑھیں:
آئین سے ماورا مطالبات ناقابل قبول، وفاقی وزرا کی مظفرآباد میں پریس کانفرنس
آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں وفاقی وزرا طارق فضل چوہدری اور امیر مقام نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت عوامی حقوق من و عن تسلیم کرتی ہے لیکن آئین سے ماورا مطالبات کسی صورت قابل قبول نہیں۔
وفاقی وزیر برائے امورِ کشمیر انجینئر امیر مقام نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر مظفرآباد آکر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی سے مذاکرات کیے۔ عوامی حقوق سے متعلق جتنے مطالبات ہمارے دائرہ اختیار میں تھے، انہیں تسلیم کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:جموں کشمیر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے متحرک رہنما شوکت نواز میر کون ہیں؟
آئینی و قانونی نوعیت کے مطالبات پارلیمنٹ اور قانون ساز اداروں کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افسوس ہے کہ ہم نے مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کی بھرپور کوشش کی لیکن کمیٹی نئے مطالبات سامنے لاتی رہی۔
ہم نے واضح کیا کہ جو ممکن تھا وہ مان لیا گیا ہے لیکن جو آئینی دائرہ کار سے باہر ہے اس پر وعدہ نہیں کر سکتے۔
وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ وزیراعظم کی ہدایت پر مظفرآباد آئے تاکہ مذاکراتی عمل کو سہولت فراہم کریں۔
ایکشن کمیٹی کے تمام جائز عوامی مطالبات تسلیم کر لیے گئے ہیں، البتہ ایسے مطالبات جن کے لیے آئینی ترمیم درکار ہے وہ صرف پارلیمان ہی کر سکتی ہے۔ چند افراد بند کمرے میں بیٹھ کر آزاد کشمیر کے آئین میں ترمیم کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔
انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام نے ہمیشہ افواجِ پاکستان کے ساتھ مل کر بھارتی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور یہی اتحاد قائم رہنا چاہیے۔ ایکشن کمیٹی کو مشورہ ہے کہ وہ عوام اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر وسیع تر اتفاق رائے پیدا کرے۔
مذاکرات کا پہلا روز ڈیڈ لاک کا شکار
اس سے قبل مظفرآباد میں وفاقی وزراء اور ایکشن کمیٹی کے درمیان مذاکرات کا پہلا روز ڈیڈ لاک کا شکار ہوگیا۔ 12 گھنٹے طویل نشست کے باوجود مذاکرات نتیجہ خیز نہ ہو سکے۔
وفاقی وزرا کا کہنا تھا کہ ایکشن کمیٹی کے تمام مطالبات مان لیے گئے تھے تاہم دو مطالبات پر اصرار کے باعث ڈیڈ لاک پیدا ہوا۔
وزرا نے کہا کہ ہم اب بھی مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن 29 ستمبر کے احتجاج میں شہریوں کا راستہ روکنے یا زبردستی دکانیں بند کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں