طورخم گزرگاہ 25 ویں روز بھی بند: دوطرفہ تجارت معطل ہونے سے اربوں کا نقصان
اشاعت کی تاریخ: 6th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251106-01-23
خیبر(مانیٹرنگ ڈیسک) طورخم تجارتی گزرگاہ دوطرفہ تجارت کے لیے آج 25 ویں روز بھی بند ہے۔کسٹمز ذرائع کے مطابق تجارتی گزرگاہ کی بندش کے باعث کارگو گاڑیوں کی لمبی قطاریں اب بھی برقرار ہیں۔ امپورٹ، ایکسپورٹ سمیت ٹرانزٹ ٹریڈ کی ہزاروں کارگو گاڑیاں مختلف مقامات پر پھنس گئی ہیں۔حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان افغانستان کو سیمنٹ، ادویات، کپڑا، تازہ پھل اور سبزیوں سمیت مختلف اشیا برآمد کرتا ہے جب کہ افغانستان سے کوئلہ، سوپ اسٹون، خشک اور تازہ پھل بشمول متعدد اشیا درآمد کی جاتی ہیں۔ذرائع کے مطابق طورخم تجارتی گزرگاہ سے افغانستان کے ساتھ یومیہ اوسطاً 85 کروڑ روپے کی دوطرفہ تجارت ہوتی تھی، جس میں 58 کروڑ روپے کی ایکسپورٹ اور 25 کروڑ روپے مالیت کی درآمد شامل ہے۔ مزید بتایا گیا ہے کہ پاک افغان دوطرفہ تجارت سے پاکستانی خزانے کو یومیہ اوسطاً 5 کروڑ روپے حاصل ہوتے ہیں۔امیگریشن ذرائع کے مطابق ملک میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افغان شہریوں کو مرحلہ وار ملک بدر کیا جارہا ہے اور اس سلسلے میں طورخم سرحد کو افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے لیے 3 روز قبل کھول دیا گیا تھا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: دوطرفہ تجارت کروڑ روپے
پڑھیں:
این آئی سی وی ڈی، ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کی نااہلی اور غفلت، عوامی خزانے کو بھاری نقصان
سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ندیم قمر کے دور میں 45عدالتی مقدمات پر9کروڑ 38لاکھ خرچ
موجودہ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر طاہر صغیر نے عدالتی معاملات میںاب تک ڈیڑھ کروڑ پھونک دیے
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیو ویسکولر ڈیزیز (NICVD)کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرزکی سنگین نااہلی اور غفلت پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ہے ، جس کے نتیجے میں عوامی خزانے کو 10کروڑ روپے سے زائد کا بھاری نقصان پہنچا ہے ۔ باوثوق اندرونی ذرائع کے مطابق سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ندیم قمر کے دور میں 45عدالتی مقدمات اور متعلقہ معاملات پر تقریباً 9کروڑ 38لاکھ روپے خرچ کیے گئے ۔جبکہ موجودہ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر طاہر صغیر نے اسی مد میں تقریباً 1 کروڑ 50 لاکھ روپے خرچ کیے ہیں، حالانکہ صرف 10 مقدمات رپورٹ ہوئے ہیں۔ماہرین اور مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ عوامی فنڈز کے کھلم کھلا غلط استعمال کی ایک واضح مثال ہے ۔ یہ رقم مریضوں کی نگہداشت، عملے کی فلاح و بہبود، یا ادارے کی ترقی پر استعمال کی جا سکتی تھی۔ قانونی اخراجات میں مسلسل اضافہ اور انتظامی بدانتظامی ادارے کے اندر گہرے نظم و نسق کے مسائل کو ظاہر کرتی ہے ۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ این آئی سی وی ڈی ایک سرکاری ادارہ ہے اور سندھ حکومت ایسے اداروں کی نمائندگی کے لیے سرکاری وکلاء مفت فراہم کرتی ہے ۔ اس کے باوجود دونوں ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کے حوالے سے نجی قانونی فرموں یا وکلاء کی خدمات حاصل کرنا اور عوامی فنڈز کی بھاری رقم خرچ کرنا شفافیت اور احتساب پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے ۔طبی حلقوں نے مطالبہ کیا ہے کہ سندھ حکومت اور اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ فوراً ایک شفاف انکوائری شروع کرے تاکہ ان غیر ضروری قانونی اخراجات کی مکمل جانچ پڑتال کی جا سکے اور ذمہ دار افسران کے خلاف مالی بدانتظامی پر کارروائی کی جا سکے ۔