بین الاقوامی تعلقات کی نسبت سے آپ ماضی کا کوئی قصہ چھیڑ دیں تو ہمارے ہاں کے لوگ بصد شوق سنتے ہیں، لیکن اگر آپ حالیہ عرصے کا کوئی معاملہ تجزیاتی بنیاد پر اٹھا لیں تو صورتحال مختلف ہوجاتی ہے۔ عمر ہماری قصے سنانے والی ہی ہے کہ خیر سے تین بچوں کے دادا ہیں، مگر مشکل ہماری یہ ہے کہ ہمارا قاری پوتوں کی عمر والا نہیں، اور داخلی سیاست کا حال یہ ہے کہ پچھلا آرمی چیف یوتھیوں کا تھا، موجودہ پٹواریوں کا ہے، اور تجزیے کہ لیے بس یہی سوال رہ گیا ہے کہ اگلا چیف پیپلز پارٹی کو نصیب ہوگا یا نہیں؟ بتائیے بھلا اس کا تجزیہ ہو تو کیا ہو؟
سو لے دے کر ہمارے پاس سیاسی تجزیوں کے لیے بین الاقوامی امور ہی بچے ہیں، اور وہ بھی وہ جن کا عسکری پہلو بھی ہو۔ عسکری پہلو کے بھی پھر کئی ذیلی پہلو ہوتے ہیں۔ انہی میں سے ایک ہتھیاروں کی دوڑ ہے جو ایٹمی پہلو سے بہت ہی حساس ہے۔
سرد جنگ کے زمانے کی میڈیا رپورٹس سے لگا یہ کرتا تھا جیسے سوویت یونین اور امریکا بس موقع کی تاک میں ہیں، جوں ہی یہ ملا ایٹمی ہتھیار چل جائیں گے، مگر ایسا تھا نہیں۔ سرد جنگ فی الحقیقت کے جے بی اور سی آئی اے کی باہمی شطرنج کا دوسرا نام تھا۔ ورنہ دونوں ہی ممالک کی قیادت کے ایک دوسرے کے ساتھ گہرے روابط تھے، کوئی مسئلہ کھڑا ہوتا تو اس کا حل نکال لیا جاتا۔ یہ بتانا بے جا نہ ہوگا کہ سپر طاقتوں کی دو وزارتیں ایسی ہیں جو مسلسل رابطے میں رہتی ہیں۔ کسی باہمی پراکسی جنگ کے دوران بھی ان کے وزرائے خارجہ و دفاع کے رابطے نہیں ٹوٹتے، اسی لیے ماضی میں یہ بہت آسانی کے ساتھ مسائل کا حل نکال لیا کرتے۔
مثلاً کینیڈی دور کا کیوبن میزائل بحران ہی دیکھ لیجیے، ہمارے ہاں چونکہ سکے کا ایک ہی رخ دیکھنے کا رواج ہے، سو بین الاقوامی اخبارات بھی پرانے وقتوں سے صرف مغربی ہی پڑھے جاتے ہیں۔ جو انہوں نے لکھ دیا بس وہی کافی ہے۔ اسی یک طرفہ مطالعے کا نتیجہ ہے کہ عام طور پر کیوبن میزائل بحران کا نکتہ آغاز یوں بیان کیا جاتا ہے۔
’سوویت یونین نے خفیہ طور پر میزائل کیوبا پہنچائے‘
اور اختتام یوں:
’سوویت اور امریکی لیڈروں کے مابین ہونے والی بات چیت کے نتیجے میں سوویت یونین نے کیوبا سے میزائل ہٹا لیے، یوں بحران ختم ہوگیا‘
جبکہ پوری تصویر یہ ہے کہ امریکا نے اٹلی اور ترکیہ خفیہ طور پر میزائل پہنچا دیے تھے۔ سوویت یونین اگر معاملہ سفارتی سطح پر اٹھاتا تو پتا نہیں کتنے سال تک مذاکرات کے کتنے ادوار چلتے۔ سو خروشیف کو جب کے جی بی نے امریکی اقدام سے آگاہ کیا تو اس نے فوری طور پر سوویت میزائل کیوبا پہنچانے کا حکم دیا، اور انہیں کیوبا میں بالکل کھلے میں رکھوایا تاکہ روٹین کے گشت میں امریکی جاسوس طیارے دیکھ پائیں، اور یو 2 نے دیکھ لیے، کینیڈی چلائے تو خروشیف کا جواب سمپل تھا:
’جو آپ نے اٹلی اور ترکیہ بھیجی ہیں وہ گاجریں ہیں؟ وہ بھی تو میزائل ہی ہیں‘
کینیڈی کے ہوش پراں ہوئے تو انہوں نے خروشیف سے منوا لیا کہ وہ امریکی میزائلوں کا ذکر میڈیا کے سامنے نہ کریں، ہم دونوں ہی اپنے اپنے میزائل ہٹا لیتے ہیں۔ جانتے ہیں خروشیف نے امریکی میزائلوں کے حوالے سے منہ بند رکھنے کی کیا قیمت وصول کی؟ یہ کہ امریکا آئندہ کیوبا میں رجیم چینج کی کوشش کبھی بھی نہیں کرے گا۔ وہ دن جائے، یہ دن آئے امریکا ساری دنیا میں رجیم چینج آپریشن کرتا ہے مگر امریکا سے صرف 150 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع کیوبا میں نہیں کرتا۔ اس کی صرف سمندری ناکہ بندی کرکے بیٹھا ہے۔ لیجیے صاحب! ہم نے آپ کو تھوڑا قصہ تو سنا لیا، اب ایٹمی عدم پھیلاؤ کی نسبت سے تجزیہ بھی ہوجائے۔
کیوبن میزائل بحران کے نتیجے میں سوویت یونین اور امریکا کے مابین ایٹمی خطرے کو کم کرنے کے لیے سنجیدہ بات چیت شروع ہوئی۔ اس بات چیت کا ایک بہت زبردست نتیجہ ’اینٹی بیلسٹک میزائل ٹریٹی‘ کی صورت نکلا جسے مختصراً ’اے بی ایم ٹریٹی‘ کہا جاتا ہے۔ 26 مئی 1972 کو اس پر دستخط ہوئے اور اسی سال 3 اکتوبر سے یہ نافذ ہوگئی۔ یہ ایک بہت ہی دلچسپ ٹریٹی تھی، اس میں دونوں ممالک نے یہ طے کیا تھا کہ وہ اس طرح کے دفاعی نوعیت کے میزائل نہیں بنائیں گے جن سے ایٹمی میزائل حملے کو ناکام کیا جا سکے۔ بظاہر یوں لگتا ہے جیسے دونوں ممالک نے یہ طے کیاکہ اگر ہم میں سے کوئی ایک دوسرے پر ایٹمی میزائل داغے تو اگلا اس حملے کو برضا و رغبت قبول کرے گا، اور حملہ آور میزائل کی راہ میں روڑے نہیں اٹکائے گا، مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی۔
اس زمانے کی سوویت اور امریکی لیڈرشپ کا وژن یہ تھا کہ اگر ایک ملک نے دفاعی نظام بنا لیا تو دوسرا غیر محفوظ ہوجائے گا، کیونکہ دفاعی نظام بنانے والا ملک یہ سوچ کر ایٹمی حملہ کرسکے گا کہ آگے سے جوابی میزائل آیا تو ہم روک لیں گے، ہمارے پاس ڈھال ہے۔ چنانچہ اس صورتحال کا تدارک کرنے کے لیے ہی اے بی ایم ٹریٹی آئی تھی۔ مگر۔۔۔۔۔ مگر کی طرف ہم بعد میں آتے ہیں، پہلے ایک اور ٹریٹی بھی سمجھ لیجیے۔
1987 میں سوویت یونین اور امریکا کے بیچ ایک اور معاہدہ ہوا، اور یہ بھی بہت ہی اہم تھا۔ یہ ’انٹرمیڈیٹ رینج نیوکلیئر فورسز ٹریٹی‘ تھی۔ جو آئی این ایف ٹریٹی کہلاتی ہے۔ اس پر 8 دسمبر 1987 کو دستخط ہوئے اور یہ یکم جون 1988 کو نافذ ہوئی۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک نے یہ طے کیا تھا کہ وہ 500 سے زیادہ اور 5500 کلومیٹر کی رینج سے نیچے والے تمام بیلسٹک اور کروز میزائل تلف کریں گے۔ اس معاہدے کے تحت سوویت ویپن انسپکٹر امریکا میں اور امریکی انسپکٹر سوویت یونین میں تعینات ہوگئے تھے۔ ان ٹیموں کے پاس وسیع اختیارات تھے۔ یہ کسی بھی اسلحہ ڈپو اور میزائل بنانے والے کارخانے کی تلاشی لے سکتے تھے، اور ساتھ ہی ان ٹیموں نے اپنی نگرانی میں ہتھیار تلف بھی کروانے تھے۔ اس ٹریٹی کے تحت 1991 تک دونوں ممالک نے مجموعی طور پر 2692 ایٹمی میزائل تلف کیے۔ مگر۔۔۔۔۔ اب آجائیے مگر کی طرف، جو بہت ہی سنگین مسئلہ ہے۔
امریکیوں نے خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ سوویت یونین ٹوٹ جائے گا۔ انہیں ذرا بھی اندازہ ہوتا تو وہ 1987 والی آئی این ایف ٹریٹی کرتے؟ مگر۔۔۔۔ سوویت یونین ٹوٹ گیا، اور نوبت یہ آگئی کہ روبل کی مارکیٹ ویلیو صفر ہوگئی۔ پیٹ بھرنے کے لیے رشین شہری خیراتی ڈبل روٹیوں کے لیے قطار میں لگ گئے، اگلے 10 سال روس کے بدترین 10 سال ثابت ہوئے۔ ریٹنگ کی امریکی ایجنسیز نے روسی اثاثوں کی اونے پونے کی ریٹنگ طے کی اور من مانے ریٹس پر وال اسٹریٹ کے سیٹھوں نے روسی اثاثے خرید لیے، اب ماسکو میں امریکیوں کا ہی راج تھا۔
ایسی صورتحال میں کوئی معاہدوں کی پروا کرتا؟ نکے بش نے 2002 میں اعلان کیاکہ ہم 1972 والی اے بی ایم ٹریٹی سے نکل رہے ہیں۔ اور شروع کردیا میزائل ڈیفنس سسٹم پر کام۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ یہ نائن الیون کے بعد والا امریکا تھا سو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عزائم کیا رہے ہوں گے۔ اس دوران روس ولادیمیر پیوٹن کی قیادت میں پھر سے قدموں پر کھڑا ہونے لگا، امریکیوں کو بھی اس نے ماسکو سے بھگا دیا تھا اور اپنے اثاثے بھی واپس لے لیے تھے۔ اور ساتھ وارننگ دیدی تھی کہ یوکرین ہماری ریڈ لائن ہے۔ اسے نیٹو ممبر بنانے کا مطلب ہوگا جنگ۔
اس صورتحال میں امریکا پر اندر سے یہ پریشر بننا شروع ہوگیا کہ اے بی ایم ٹریٹی سے نکلنا غلط تھا، روس پھر تگڑا ہو رہا ہے، سو دنیا اب غیر محفوظ ہے، اس پریشر سے نکلنے کے لیے امریکی تجویز پر نئی ٹریٹی آگئی۔ ’نیو سٹارٹ ٹریٹی‘ یعنی نیو اسٹریٹیجک آرمز ریڈکشن ٹریٹی۔ اس معاہدے پر 8 اپریل 2010 کو دستخط ہوئے اور یہ 5 فروری 2011 کو نافذ ہوا۔ اس معاہدے میں یہ طے پایا کہ دونوں ممالک اپنے جوہری وارہیڈز کی تعداد 1550 اور لانچرز کی تعداد 800 تک لائیں گے۔ مگر یہ معاہدہ آنکھوں میں دھول جھونکنے والی حرکت تھی۔ جس کا سب س بڑا ثبوت یہ ہے کہ اے بی ایم اور آئی این ایف ٹریٹیز میں مدت کی کوئی قید نہ تھی کہ فلاں فلاں مدت کے بعد اگر اس کی از سر نو توثیق نہ ہوئی تو معاہدہ ختم سمجھا جائے گا بلکہ وہ لامحدود مدت کے معاہدے تھے۔ جبکہ نیو سٹارٹ ٹریٹی میں ایک شق یہ ہے کہ یہ معاہدہ 10 سال کے لیے ہے۔ 10 سال بعد توثیق ہوگئی تو اس کے بعد ہر پانچ سال بعد توثیق درکار ہوگی۔
ہم سب جانتے ہیں کہ 2014 میں امریکا نے یوکرین میں رجیم چینج کروا کر اس کی فوج تیار کرنی شروع کردی تھی، اور پلان یہ تھا کہ 2025 کے آس پاس تک یوکرین کو یورپ کی سب سے بڑی فوج سے لیس کرکے اسے نیٹو ممبر بنا لیا جائے گا۔ اپنے اس پلان کا انہیں اس حد تک یقین تھا کہ 2019 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے 1987 والی آئی این ایف ٹریٹی سے بھی علیحدگی اختیار کرلی۔ اب نیو سٹارٹ ٹریٹی ہی بچی تھی جس کی اگلے سال ایکسپائری ڈیٹ تھی۔
اور اسی سال ولادیمیر پیوٹن نے واضح اشارہ دیدیا کہ وہ اپنی ریڈ لائن کے لیے لڑنے کو تیار ہے۔ نتیجہ یوکرین کی جنگ کی صورت سب کے سامنے ہے۔ جس نے یورپ ہی نہیں امریکی معیشت کو بھی سنگین مسائل سے دوچار کردیا ہے۔ اس جنگ کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ اپنا پلان بگڑتے دیکھ کر امریکا نے نیو سٹارٹ ٹریٹی کی توثیق کردی۔ جانتے ہیں معاہدے توڑنے کے امریکی عمل کا نتیجہ کیا نکلا؟ آج روس کا میزائل دفاعی نظام ایس 500 دنیا کا سب سے بہترین دفاعی نظام مانا جاتا ہے۔ روس نے آر ایس 28 سرمت کے نام سے 10 ایٹمی وارہیڈز والا میزائل بنا لیا ہے جس کی رینج 18000 کلومیٹر ہے۔ اور اس کی رفتار 25000 کلیومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ اس کے بعد 33000 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار والا ’ایوان گارڈ‘ میزائل بھی روس کے پاس ہے۔
مگر یہ دونوں موت کی وہ اقسام ہیں جو آتے ہوئے نظر آسکتی ہیں۔ پچھلے ہی ہفتے روس نے موت کی دو ایسی اقسام متعارف کرائی ہیں جو آتے ہوئے نظر بھی نہ آئیں گی، ان میں سے ایک اس کا نیا کروز میزائل ’بوراوشنک‘ ہے جس کا اردو ترجمہ ہے ’طوفانی پرندہ‘۔ یہ دنیا کا پہلا میزائل ہے جو نیوکلیئر موٹر سے چلتا ہے۔ یوں یہ مہینوں حالت پرواز میں رہ سکتا ہے۔ بس یوں سمجھیے کہ اسے فضا میں پارک کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً دور افتادہ سمندری گوشے میں۔ چونکہ کروز میزائل ہے سو بہت کم بلندی کی وجہ سے ریڈار ڈٹیکٹ بھی نہیں کرسکے گا۔ نہ نظر آتی دوسری موت کا نام ’پسائیڈن‘ ہے۔ یہ ان سمندری گہرائیوں میں سفر کرنے والا ایٹمی تارپیڈو ہے جن گہرائیوں تک آج کی جدیدترین آبدوزیں بھی نہیں جاسکتیں۔ یہ کسی بھی ساحلی شہر کے قریب پھٹ کر 200 میٹر بلند ریڈیو ایکٹو سونامی سے اس شہر کو موت کے گھاٹ ہی نہیں اتار سکتا، بلکہ اسے ہمیشہ کے لیے ناقابل رہائش بھی بنا سکتا ہے۔ جس شہر کی زمین میں ریڈیوایکٹو پانی سرایت کر گیا وہاں صدیوں تک کچھ اگ سکے گا؟
سو ایک خواب تھا جو امریکیوں نے سوویت زوال کے بعد کھلی آنکھوں سے دیکھا تھا، اور اسے من چاہی تعبیر دینے کے لیے ایٹمی معاہدے توڑ ڈالے مگر حاصل؟ کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا 12 آنہ۔ جب خواب دیکھا گیا تھا، امریکا پر کوئی قرضہ نہ تھا۔ اس کا بجٹ سرپلس تھا۔ تعبیر 37 کھرب ڈالرز کے قرض کی صورت ظاہر ہوئی ہے۔ اور اس نازک موڑ پر صدر ایسا نصیب ہے جو پسائیڈن کے کامیاب تجربے پر حواس باختگی میں ٹوئٹ کر دیتا ہے۔
’میں نے فوج کو حکم دیا ہے کہ فوری طور پر ایٹمی دھماکا کیا جائے‘
روس نے ڈیلیوری سسٹم کا تجربہ کیا، جواباً آپ ایٹمی دھماکا کریں گے، جس کا نہ کرنا روس اور امریکا کے مابین طے شدہ معاملہ ہے؟ نتیجہ یہ کہ دو روز بعد امریکی وزیر توانائی کو بیان جاری کرنا پڑا کہ ہمارا ایٹمی دھماکے کا کوئی ارادہ نہیں۔ وائٹ ہاؤس پر بھی کیا وقت آیا ہے۔ بائیڈن کے دور میں ٹریجڈی تو ٹرمپ کے دور میں کامیڈی تھیٹر بن کر رہ گیا ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سوویت یونین وی نیوز آئی این ایف ٹریٹی اے بی ایم ٹریٹی دونوں ممالک نے سوویت یونین دفاعی نظام اور امریکا اس معاہدے یہ ہے کہ جائے گا کے بعد بھی نہ تھا کہ اور اس بہت ہی کے لیے
پڑھیں:
اینویڈیا کی ایڈوانسڈ چپس کسی کو نہیں ملیں گی، ٹرمپ کا اعلان
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دو ٹوک اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) بنانے والی کمپنی اینویڈیا کے جدید ترین بلیک ویل چپس صرف امریکی کمپنیوں کے لیے مخصوص ہوں گے، جبکہ چین سمیت دیگر ممالک ان تک رسائی حاصل نہیں کر سکیں گے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق صدر ٹرمپ نے یہ بات سی بی ایس کے پروگرام “60 منٹس” میں ریکارڈ شدہ انٹرویو اور ایئر فورس ون پر صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہی۔
انہوں نے کہا، ”ہم کسی اور کو یہ جدید ترین چپس نہیں دیں گے، صرف امریکا کے پاس رہیں گی۔“
ٹرمپ کے اس بیان سے عندیہ ملتا ہے کہ ان کی حکومت امریکی سیمی کنڈکٹر ٹیکنالوجی پر مزید سخت برآمدی پابندیاں عائد کر سکتی ہے، تاکہ چین کو جدید ترین اے آئی ٹیکنالوجی تک رسائی سے روکا جا سکے۔
یاد رہے کہ جولائی میں امریکی حکومت نے ایک نیا مصنوعی ذہانت کا منصوبہ جاری کیا تھا جس کا مقصد اتحادی ممالک کو اے آئی ایکسپورٹ بڑھا کر چین پر برتری برقرار رکھنا تھا۔
دوسری جانب اینویڈیا نے حال ہی میں اعلان کیا تھا کہ وہ 260,000 سے زائد بلیک ویل چپس جنوبی کوریا کو فراہم کرے گی، جس پر واشنگٹن میں بعض حلقوں نے سوال اٹھائے کہ آیا کمپنی چین کو کم درجے کے چپس بیچنے کی اجازت حاصل کرے گی یا نہیں۔
ٹرمپ نے وضاحت کی کہ چین کو سب سے جدید بلیک ویل چپس فروخت کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، البتہ ممکن ہے کہ کم طاقتور ورژن پر بات ہو سکے۔
انہوں نے کہا: ”ہم انہیں اینویڈیا کے ساتھ معاملہ کرنے دیں گے، مگر سب سے جدید چپس نہیں دیں گے۔“
واشنگٹن میں بعض ریپبلکن قانون سازوں نے متنبہ کیا ہے کہ چین کو کسی بھی سطح کے بلیک ویل چپس فروخت کرنا قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے، اور انہوں نے اس اقدام کو ”ایران کو ہتھیاروں کے معیار کا یورینیم دینے“ کے مترادف قرار دیا۔
ادھر، اینویڈیا کے سی ای او جینسن ہوانگ نے کہا کہ کمپنی فی الحال چینی مارکیٹ کے لیے ایکسپورٹ لائسنس حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہی، کیونکہ بیجنگ کی پالیسی اس کی موجودگی کے خلاف ہے۔