مصنوعی ذہانت امن کا ذریعہ بنے، ہتھیار نہیں، خواجہ آصف
اشاعت کی تاریخ: 25th, September 2025 GMT
نیویارک:
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں "مصنوعی ذہانت اور بین الاقوامی امن و سلامتی" کے موضوع پر ہونے والے اعلیٰ سطحی مباحثے میں خطاب کے دوران وزیر دفاع نے مصنوعی ذہانت کے عسکری استعمال پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ
معزز صدرِ اجلاس
میں جمہوریہ کوریا کی اس اہم اوپن ڈیبیٹ کے انعقاد کی کوششوں کو سراہتا ہوں۔ یہ امر خاص اہمیت کا حامل ہے کہ صدر لی جے میونگ ذاتی طور پر ہماری ان مشاورتوں کی صدارت فرما رہے ہیں۔
میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کا ان کے جامع اور بصیرت افروز بریفنگ پر شکریہ ادا کرتا ہوں، نیز دیگر ماہرین کا بھی شکریہ جنہوں نے اپنی آراء سے نوازا۔
مصنوعی ذہانت حیرت انگیز رفتار سے ہماری دنیا کو بدل رہی ہے۔ یہ ہماری عصرِ حاضر کی سب سے اہم ٹیکنالوجی ہے، جو ایک طرف ترقی و خوشحالی کا ذریعہ بن سکتی ہے، تو دوسری جانب عدم مساوات میں اضافے اور عالمی نظام کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا بھی سبب بن سکتی ہے۔
اگر اس ٹیکنالوجی کو ذمہ داری سے استعمال کیا جائے، تو یہ جامع ترقی اور مشترکہ خوشحالی کی ضامن بن سکتی ہے۔ لیکن عالمی سطح پر کسی بھی واضح اصولی یا قانونی فریم ورک کی غیر موجودگی میں، مصنوعی ذہانت انقلاب ڈیجیٹل تقسیم کو مزید گہرا، انحصار کو مزید پیچیدہ، اور امن کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
غیر منظم اور غیر ذمہ دارانہ استعمال کے نتیجے میں مصنوعی ذہانت غلط معلومات پھیلانے، سائبر حملوں، اور مہلک ہتھیاروں کی نئی اقسام کی تیاری میں استعمال ہو سکتی ہے۔ مصنوعی ذہانت کے عسکری استعمال میں تیزی، جیسے خودکار ہتھیار اور مصنوعی ذہانت پر مبنی کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹمز، ایک سنگین خطرہ بن چکے ہیں۔
معزز صدرِ اجلاس
پاکستان نے اس ٹیکنالوجی کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے جولائی 2025 میں اپنی پہلی قومی مصنوعی ذہانت پالیسی متعارف کرائی۔ یہ ایک انقلابی فریم ورک ہے جو مصنوعی ذہانت انفراسٹرکچر کی تعمیر، ایک ملین افراد کی تربیت، اور مصنوعی ذہانت کے ذمہ دارانہ و اخلاقی استعمال کو یقینی بنانے کے لیے بنایا گیا ہے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس پالیسی میں چھ ستونوں کو بنیاد بنایا گیا ہے، جن میں جدت طرازی، عوامی شعور، محفوظ نظام، شعبہ جاتی اصلاحات، بنیادی ڈھانچہ اور بین الاقوامی شراکت داری شامل ہے۔
پاکستان نے 17 جون 2025 کو اسلام آباد میں "عسکری میدان میں مصنوعی ذہانت کے ذمہ دارانہ استعمال کے عنوان سے علاقائی مشاورت کا انعقاد بھی کیا، جس میں جمہوریہ کوریا، نیدرلینڈز اور اسپین نے اشتراک کیا۔ ہم اس شعبے میں کوریا اور نیدرلینڈز کی قیادت کو سراہتے ہیں۔
معززین
مصنوعی ذہانت کا انقلاب ایک ایسے بین الاقوامی ماحول میں برپا ہو رہا ہے جہاں اقوام متحدہ کے چارٹر پر دباؤ ہے؛ طاقت کے استعمال کو معمول بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں؛ ہتھیاروں کے کنٹرول کے نظام کمزور پڑ رہے ہیں؛ اسٹریٹجک مسابقت میں شدت آ رہی ہے؛ اور تکنیکی فرق وسیع تر ہو رہا ہے۔
ایسے حالات میں مصنوعی ذہانت کی عسکریت پسندی عدم تحفظ کو بڑھاتی ہے، مساوی سلامتی کے اصول کو مجروح کرتی ہے، اور اعتماد کو کمزور کرتی ہے۔
حالیہ پاک-بھارت کشیدگی میں پہلی مرتبہ ایک جوہری صلاحیت رکھنے والے ملک نے دوسرے کے خلاف خودکار ہتھیاروں (loitering munitions) اور دوہرے استعمال والے تیز رفتار کروز میزائل استعمال کیے۔
ان واقعات نے جنگ کے مستقبل سے متعلق سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ تین باتیں واضح ہو چکی ہیں
اول تو یہ کہ مصنوعی ذہانت طاقت کے استعمال کی حد کو کم کر دیتا ہے، اور جنگ کو سیاسی و عملی طور پر زیادہ ممکن بناتا ہے۔
دوم مصنوعی ذہانت فیصلہ سازی کے وقت کو محدود کر دیتا ہے، جس سے سفارت کاری اور کشیدگی کم کرنے کی گنجائش کم ہو جاتی ہے۔
اور سوم یہ کہ مصنوعی ذہانت مختلف میدانوں کی سرحدیں ختم کر دیتا ہے سائبر، عسکری اور معلوماتی اثرات آپس میں مدغم ہو جاتے ہیں، جس کے نتائج غیر متوقع ہوتے ہیں۔
ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہمارا مشترکہ لائحہ عمل درج ذیل اصولوں پر مبنی ہونا چاہیے:
اقوام متحدہ کا چارٹر اور بین الاقوامی قوانین مصنوعی ذہانت کی تیاری اور استعمال پر مکمل طور پر لاگو ہونے چاہئیں؛ انسانی کنٹرول کے بغیر استعمال کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔
مصنوعی ذہانت اور جوہری ہتھیاروں کے باہمی اثرات پر اسٹریٹجک مکالمہ ضروری ہے تاکہ غلط فہمیوں اور غلط فیصلوں سے بچا جا سکے۔
ریاستوں کو ایسے اقدامات پر متفق ہونا چاہیے جو غیر مستحکم استعمال اور پیشگی حملوں کی حوصلہ شکنی کریں۔
ترقی پذیر ممالک کو مصنوعی ذہانت کی حکمرانی میں مؤثر کردار ادا کرنے کے لیے صلاحیت، وسائل اور رسائی حاصل ہونی چاہیے۔
مصنوعی ذہانت کو جبر یا ٹیکنالوجیکل اجارہ داری کے ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔
مصنوعی ذہانت گورننس کو اقوام متحدہ کے نظام کی قانونی حیثیت میں لنگر انداز ہونا چاہیے۔
اسٹریٹجک فائدے کو اجارہ داری کی بنیاد پر حاصل کرنے کی کوششیں ناکام ہوں گی؛ پائیدار راستہ صرف باہمی احترام اور تعاون پر مبنی ہے۔
معززین
مصنوعی ذہانت کی ترقیاتی جہت نہایت اہم ہے۔ جنرل اسمبلی کی قرارداد 78/311 — جسے چین نے پیش کیا — ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، جو مصنوعی ذہانت صلاحیت سازی کے لیے پہلا متفقہ عالمی خاکہ فراہم کرتی ہے۔
پاکستان سالانہ مصنوعی ذہانت گورننس ڈائیلاگ اور بین الاقوامی سائنسی پینل کے قیام کا خیر مقدم کرتا ہے، اور اقوام متحدہ کے تحت مزید صلاحیت سازی کے مواقع کو فروغ دینے کا خواہاں ہے۔
معزز صدرِ اجلاس
ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ مصنوعی ذہانت ترقی اور امن کے لیے استعمال ہو، نہ کہ جنگ اور عدم استحکام کے لیے۔ آئیے ہم سب مل کر ایک ایسا مصنوعی ذہانت نظام تشکیل دیں جو شمولیتی، منصفانہ اور مؤثر ہو۔
ہمیں جنگ و امن کے معاملات میں انسانی فیصلے کی بالادستی کو برقرار رکھنا ہو گا، تاکہ ذہین مشینوں کے اس دور میں بھی ہماری پیش رفت، اخلاقیات اور انسانیت کے اصولوں کی رہنمائی میں ہو۔
میں آپ کا شکر گزار ہوں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اور بین الاقوامی مصنوعی ذہانت کے مصنوعی ذہانت کی اقوام متحدہ کے استعمال کی سکتی ہے کے لیے
پڑھیں:
سائنسدانوں کی جانب سے لیبارٹریوں میں بنائے جانے والے ‘مصنوعی دماغ’ کا حیران کن استعمال کیا ہے؟
لیبارٹری میں اُگائے گئے انسانی نیورانز کے خلیوں کے چھوٹے چھوٹے ‘دماغ’، جنہیں عام طور پر ‘مِنی برینز’ کہا جاتا ہے، سائنسی دنیا میں توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔
یہ دراصل مصنوعی دماغی اعضا ہیں جو مکمل انسانی دماغ کے محدود مگر اہم افعال کو سادہ شکل میں پیش کرتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق لیبارٹریز میں تیار ہونے والے یہ دماغ تحقیق، ادویات کی تیاری، دماغی امراض کے علاج اور حتیٰ کہ کمپیوٹر سائنس میں بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ انہیں عموماً انسانی خلیات کو مخصوص کیمیائی عمل سے گزار کر تیار کیا جاتا ہے جس کے بعد یہ خلیات 3ڈی ڈھانچے میں بڑھتے ہیں اور دماغی ٹشوز سے ملتی جلتی ساخت اختیار کر لیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: انسانی دماغ میں فاصلہ ناپنے کا نظام دریافت، یہ قدرتی گھڑی کیسے کام کرتی ہے؟
حالیہ برسوں میں سائنس دانوں نے مِنی برینز میں حیرت انگیز خصوصیات دیکھیں۔ کسی تجربے میں ان آرگنائیڈز نے آنکھ جیسی ساخت بنائی، تو کسی میں ایسے دماغی برقی سگنلز پیدا ہوئے جو قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کے دماغ سے مشابہ تھے۔ ان ماڈلز نے یہ بھی ظاہر کیا کہ بعض ادویات حمل کے دوران بچے کی نشوونما پر منفی اثر ڈال سکتی ہیں۔
اس کے علاوہ الزائمر، پارکنسنز اور دماغی رسولیوں جیسے امراض کی تحقیق میں بھی یہ ماڈلز معاون ثابت ہو رہے ہیں۔ ماہرین کو امید ہے کہ مستقبل میں یہ جانوروں پر تحقیق کی ضرورت کم کر دیں گے اور نئی دواؤں کی تیاری میں مددگار ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیے: سندھ: معذور کردی گئی اونٹنی اپنے پیروں پر کھڑی ہوگئی، مصنوعی ٹانگ کا تجربہ کامیاب
دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک تجربے میں انسانی اور چوہے کے خلیات پر مشتمل منی برین نے ‘پونگ’ نامی ویڈیو گیم کھیلنے کی صلاحیت بھی دکھائی۔ بعض سائنس دان انہیں مستقبل کے ‘بایو کمپیوٹرز’ بنانے کے منصوبے پر غور کر رہے ہیں۔
اگرچہ فی الحال یہ منی برین شعور یا احساسات رکھنے کے قابل نہیں لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے یہ مزید پیچیدہ ہوں گے اور احساس کرنے لگیں گے، تب یہ اخلاقی سوال اہم ہوجائے گا کہ انہیں تجربات کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
mini brains organoids سائنس مصنوعی دماغ منی برین