امریکی جوڑے نے شادی قائم رکھنے کے طویل ترین دورانیہ کا ریکارڈ اپنے نام کرلیا
اشاعت کی تاریخ: 9th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
میامی امریکی شہر میامی سے تعلق رکھنے والے بزرگ جوڑے کو عالمی سطح پر دنیا کی سب سے طویل شادی شدہ جوڑی تسلیم کر لیا گیا ہے۔ دونوں کی مشترکہ عمر 215 سال سے زائد ہے اور ان کی شادی کو 83 سال مکمل ہو چکے ہیں۔
میڈیا ذرائع کے مطابق 108 سالہ لائل گِٹنز اور 107 سالہ ایلینر گِٹنز کو گنیز ورلڈ ریکارڈز کی جانب سے دنیا کے سب سے عمر رسیدہ شادی شدہ جوڑے کا اعزاز ملا ہے۔ ان دونوں نے مجموعی عمر کا ریکارڈ بھی اپنے نام کیا ہے۔
دی گارجین کے مطابق تحقیقاتی ویب سائٹ ’لانگیوی کویسٹ‘ (LongeviQuest) نے ان کی شادی کا سرٹیفیکیٹ، مردم شماری کے ریکارڈ اور پرانے سرکاری دستاویزات کی مدد سے تصدیق کی کہ جوڑے کی شادی کو 83 سال مکمل ہو چکے ہیں۔یہ جوڑا 4 جون 1942 کو شادی کے بندھن میں بندھا۔ ان کے تین بچے ہیں، ایک بیٹا اور دو بیٹیاں، جن میں سب سے بڑی بیٹی ان دنوں میں پیدا ہوئی جب لائل دوسری جنگ عظیم میں فوجی خدمات انجام دے رہے تھے۔
لائل اور ایلینر کی ملاقات 1941 میں ایک باسکٹ بال میچ میں ہوئی، جہاں لائل کلارک اٹلانٹا یونیورسٹی کی نمائندگی کر رہے تھے اور ایلینر تماشائیوں میں شامل تھیں۔
ایلینر نے بتایا کہ انہیں یاد نہیں کہ میچ کس نے جیتا، بس یہ یاد ہے کہ اسی دن انہوں نے پہلی بار لائل کو دیکھا تھا۔
جب دوسری جنگِ عظیم جاری تھی، لائل کو فوج میں بھرتی ہونے کا شوق تھا۔ پھر بھی دونوں نے شادی کا فیصلہ کیا اور 4 جون 1942 کو شادی کے بندھن میں بندھے، لائل شادی کے لیے جارجیا میں امریکی فوجی کیمپ سے تین دن کی چھٹی لے کر آئے۔
لائل جب اٹلی میں امریکی فوج کے ساتھ تعینات ہوئے تو ایلینر اس وقت پہلے بچے کی ماں بننے والی تھیں۔ وہ نیویارک منتقل ہوئیں اور شوہر کے خاندان سے پہلی بار ملیں۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
امریکا میں تاریخ کا طویل ترین شٹ ڈاؤن کیوں ہے اور یہ بحران کب تک حل ہوگا!
واشنگٹن: امریکا میں بجٹ کے معاملے پر قانون سازوں کے درمیان تنازع کی وجہ سے بحرانی صورت حال اور تاریخ کا سب سے بڑا شٹ ڈاؤن جاری ہے۔
امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت کا موجودہ شٹ ڈاؤن 36ویں روز میں داخل ہونے کے بعد تاریخ کا طویل ترین شٹ ڈاؤن بن گیا ہے۔
شٹ ڈاؤن کیوں ہوا؟
یہ معاملہ بجٹ سے شروع ہوا جو بحرانی کیفیت اختیار کرگیا ہے اور اس کی وجہ قانون سازوں کے درمیان جاری شدید اختلافات ہیں اور یہ فوری حل ہوتے نظر بھی نہیں آرہے۔
شٹ ڈاؤن کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دونوں جماعتیں یکم اکتوبر سے وفاقی اخراجات کے بل پر اتفاق نہیں کر سکیں جبکہ گزشتہ بجٹ کی مدت یکم اکتوبر کو ختم ہوگئی تھی اور نیا میزانیہ پاس نہ ہونے کے باعث حکومتی اداروں کی فنڈنگ بند ہو گئی۔
کانگریس کے دونوں ایوانوں میں اکثریت رکھنے والی ریپبلکن جماعت اخراجات میں کٹوتی کر کے بل منظور کرنا چاہتی ہے تاہم اس معاملے پر ڈیموکریٹس نے مخالفت کی اور مطالبہ کیا ہے کہ بجٹ میں صحت و ٹیکس کریڈیٹس کی شرح میں کمی کی جائے۔
شٹ ڈاؤن کے دوران بند ہونے والی سروسز
شٹ ڈاؤن کے دوران صرف ضروری خدمات فراہم کی جارہی ہیں، جن میں بارڈر سیکیورٹی، امیگریشن، پولیس اور اسپتالوں کی ایمرجنسی سروسز کے محکمے شامل ہیں تاہم ڈیوٹی کرنے والے بیشتر ملازمین تنخواہوں سے محروم ہیں۔
شٹ ڈاؤن کی وجہ سے فضائی آپریشن بری طرح سے متاثر ہے، ایئر ٹریفک کنٹرولرز تنخواہ کی عدم ادائیگی کے بغیر کام تو کررہے ہیں تاہم بد انتظامی کی وجہ سے ہزاروں پروازیں متاثر ہوچکی ہیں۔
فوڈ اسٹیمپ پروگرام کے لیے فنڈز بند کردیے گئے تھے تاہم وفاقی جج نے ہنگامی فنڈ سے اس کی بحالی کا حکم دیا جبکہ پارکس، عجائب گھر اور پری اسکولز شٹ ڈاؤن کی وجہ سے بند ہیں۔
کئی سرکاری و نجی ادارے بھی شٹ ڈاؤن سے متاثر ہوئے جنہوں نے ہزاروں ملازمین کو جبری رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔
امریکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ڈیموکریٹس اور ریپبلکن کے سنجیدہ افراد 27 نومبر (تھینکس گیونگ) سے پہلے معاملات کو حل کرنے کیلیے کاوشیں تو کررہے ہیں مگر بظاہر ابھی تک دونوں جانب سے کسی بھی جماعت نے اپنے مؤقف میں لچک نہیں دکھائی ہے۔
امریکی معیشت کو ہر ہفتے 15 ارب ڈالرز کا نقصان
امریکا کے معاشی ماہرین نے شٹ ڈاؤن طویل ہونے پر خبردار کیا اور کہا ہے کہ ہر ہفتے امریکی معیشت کو 15 ارب ڈالرز کا نقصان ہورہا ہے، شٹ ڈاؤن کا معاملہ حل ہونے میں جتنی زیادہ تاخیر ہوگی اُس کا معیشت پر اتنا ہی گہرا اثر پڑے گا۔
شٹ ڈاؤن کا خاتمہ کب ہوگا؟
ان ساری باتوں کے باوجود امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ شٹ ڈاؤن کے خاتمے کی کوئی حتمی تاریخ نہیں ہے تاہم نومبر کے آخر تک دونوں جماعتوں کے درمیان اگر بات چیت ہوتی ہے تو کوئی درمیانی راستہ نکل آئے گا۔
حالیہ شٹ ڈاؤن سے ملازمت پیشہ امریکی زیادہ پریشان کیوں ہیں؟
ویسے تو ماضی میں امریکا میں کئی بار شٹ ڈاؤن ہوچکے ہیں جس کے دوران سرکاری اداروں کے ملازمین کو بغیر تنخواہ ادائیگی کے کام کرنا پڑتا ہے اور معاملہ حل ہونے کے بعد واجبات کو حکومت ادا کرتی ہے۔
تاہم اس بار امریکی شہری اس وجہ سے پریشان ہیں کہ امریکی صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ ہے کہ ’شٹ ڈاؤن کے دوران کام کرنے والے تمام ملازمین کو واجبات ادا نہیں کیے جائیں گے‘‘۔ اُن کا اشارہ مخصوص لوگوں کو واجبات کی ادائیگی کی طرف اشارہ تھا۔