پاکستان کی فارما صنعت میں مصنوعی ذہانت (AI) کے استعمال کا آغاز
اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (اسٹاف رپورٹر)پاکستان کی فارماسیوٹیکل انڈسٹری نے مصنوعی ذہانت (اے آئی) کو اپنانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ صحت کے نظام کو جدید بنایا جا سکے، ساتھ ہی بیماریوں کی تشخیص، ادویات کی دریافت اور نسخہ نویسی، اور منفی دوا کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔ یہ فیصلہ پیر کو ایک سرکاری ورکشاپ میں کیا گیا، جو 8ویں پی پی ایم اے (پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن) فارما سمٹ سے قبل منعقد ہوئی، اس ورکشاپ کا عنوان تھا ’فارما کا مستقبل: اے آئی کے ذریعے ادویات کی دریافت اور ذاتی نوعیت کی دوائیوں میں بہتری۔ ورکشاپ میں مصنوعی ذہانت کے عالمی ماہر جِم ہیرس نے بتایا کہ گوگل ڈیپ مائنڈ کے بانی ڈیمیس ہسبیس کے مطابق اے آئی کی مدد سے آئندہ 10 سال میں تمام بڑی بیماریوں کا خاتمہ ممکن ہے۔ ہیرس نے بتایا کہ ’’الفا فولڈ اے آئی‘‘ کا استعمال کینسر کو ابتدائی مرحلے میں روکنے والی مرکبات کی شناخت کے لیے کیا جا رہا ہے، اور اے آئی نے پروٹین میپنگ کی رفتار کو انسانی تحقیق سے کئی گنا بڑھا دیا ہے۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پِل کیم جیسی خوردنی کیمرا ٹیکنالوجی سے معدے کے اندر کی تصاویر لی جا سکتی ہیں اور اے آئی کی مدد سے پرکینسر پالیپس کی شناخت کی جا سکتی ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اے ا ئی
پڑھیں:
سائنسدانوں کی جانب سے لیبارٹریوں میں بنائے جانے والے ‘مصنوعی دماغ’ کا حیران کن استعمال کیا ہے؟
لیبارٹری میں اُگائے گئے انسانی نیورانز کے خلیوں کے چھوٹے چھوٹے ‘دماغ’، جنہیں عام طور پر ‘مِنی برینز’ کہا جاتا ہے، سائنسی دنیا میں توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔
یہ دراصل مصنوعی دماغی اعضا ہیں جو مکمل انسانی دماغ کے محدود مگر اہم افعال کو سادہ شکل میں پیش کرتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق لیبارٹریز میں تیار ہونے والے یہ دماغ تحقیق، ادویات کی تیاری، دماغی امراض کے علاج اور حتیٰ کہ کمپیوٹر سائنس میں بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ انہیں عموماً انسانی خلیات کو مخصوص کیمیائی عمل سے گزار کر تیار کیا جاتا ہے جس کے بعد یہ خلیات 3ڈی ڈھانچے میں بڑھتے ہیں اور دماغی ٹشوز سے ملتی جلتی ساخت اختیار کر لیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: انسانی دماغ میں فاصلہ ناپنے کا نظام دریافت، یہ قدرتی گھڑی کیسے کام کرتی ہے؟
حالیہ برسوں میں سائنس دانوں نے مِنی برینز میں حیرت انگیز خصوصیات دیکھیں۔ کسی تجربے میں ان آرگنائیڈز نے آنکھ جیسی ساخت بنائی، تو کسی میں ایسے دماغی برقی سگنلز پیدا ہوئے جو قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کے دماغ سے مشابہ تھے۔ ان ماڈلز نے یہ بھی ظاہر کیا کہ بعض ادویات حمل کے دوران بچے کی نشوونما پر منفی اثر ڈال سکتی ہیں۔
اس کے علاوہ الزائمر، پارکنسنز اور دماغی رسولیوں جیسے امراض کی تحقیق میں بھی یہ ماڈلز معاون ثابت ہو رہے ہیں۔ ماہرین کو امید ہے کہ مستقبل میں یہ جانوروں پر تحقیق کی ضرورت کم کر دیں گے اور نئی دواؤں کی تیاری میں مددگار ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیے: سندھ: معذور کردی گئی اونٹنی اپنے پیروں پر کھڑی ہوگئی، مصنوعی ٹانگ کا تجربہ کامیاب
دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک تجربے میں انسانی اور چوہے کے خلیات پر مشتمل منی برین نے ‘پونگ’ نامی ویڈیو گیم کھیلنے کی صلاحیت بھی دکھائی۔ بعض سائنس دان انہیں مستقبل کے ‘بایو کمپیوٹرز’ بنانے کے منصوبے پر غور کر رہے ہیں۔
اگرچہ فی الحال یہ منی برین شعور یا احساسات رکھنے کے قابل نہیں لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے یہ مزید پیچیدہ ہوں گے اور احساس کرنے لگیں گے، تب یہ اخلاقی سوال اہم ہوجائے گا کہ انہیں تجربات کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
mini brains organoids سائنس مصنوعی دماغ منی برین