لاء بورڈ مسلمانوں سے بھی اپیل کرتا ہے کہ وہ ان رکاوٹوں اور مشکلات سے ہرگز بھی مایوس نہ ہوں بلکہ جرات اور حوصلے کیساتھ بورڈ کیجانب آنے والے اعلانات کا اسیطرح خیرمقدم کریں، جسطرح کہ وہ اب تک کرتے رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ دہلی مونسپل کارپوریشن نے 16 نومبر 2025ء کو رام لیلا میدان پر ہونے والے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے احتجاجی اجلاس کی اجازت یہ کہہ کر صرف 8 دن قبل منسوخ کر دی کہ رام لیلا میدان دہلی حکومت کے پروگرام کے لئے مطلوب ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ دہلی حکومت اور مونسپل کارپوریشن کے اس غیرذمہ دارانہ حرکت پر اپنی برہمی کا اظہار کر تے ہوئے اس کی سخت الفاظ میں مذمت کر تا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ایک پریس بیان میں کہا کہ جب میونسپل کارپوریشن اس اجلاس کے انعقاد کے لئے تین ماہ قبل اجازت دے چکی تھی، اس اجازت کو صرف ایک ہفتہ قبل منسوخ کر دینا قانوناََ اور اخلاقاََ غلط اور ظالمانہ اقدام ہے جس کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی جاتی ہے، ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ یاتو دہلی کے پروگرام کو آگے بڑھایا جاتا یا انھیں متبادل جگہ فراہم کی جاتی۔

انہوں نے کہا کہ وقف ترمیمی قانون 2025ء کی مخالفت میں کئے جانے والے اس پروگرام کی تشہیر بڑے پیمانے پر ملکی سطح پر ہوچکی تھی، چنانچہ ہزاروں افراد دہلی کے لئے اپنا ٹکٹ بناچکے تھے۔ بورڈ کے ذمہ دار بھی اس کے لئے مغربی اترپردیش، ہر یانہ، راجستھان اور دہلی کی قریبی ریاستوں میں مسلسل دورے کرکے ماحول بنا چکے تھے۔ ظاہر ہے مونسپل کارپوریشن دہلی کے اس فیصلے نے ان سب لوگوں کو نہ صرف مایوس کیا ہے بلکہ ہوائی جہاز اور ٹرینوں کے ٹکٹ کی منسوخی کی وجہ سے انہیں خاصا مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔ اسی طرح مغربی اترپردیش اور ہریانہ سے جو بسیں بک کی جا چکی تھیں اس کا نقصان بھی ان علاقوں کے مسلمانوں کے حصہ میں گیا۔

ڈاکٹر الیاس نے کہا کہ حکومت کے غلط فیصلوں پر تنقید اور احتجاج ہمارا بنیادی و دستوری حق ہے اور جمہوری ملک میں اس کے لئے جگہیں اور مقامات مختص کئے جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی وقف ترمیمی قانون 2025ء پر احتجاجی تحریک کو جو پذیرائی مل رہی ہے اس سے حکومت گھبراگئی ہے اور 16 نومبر کی اجازت کی منسوخی حکومت کی اسی بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے۔ بورڈ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ حکومت کے اس طرح کے بزدلانہ اقدامات کے آگے سپر نہیں ڈالے گا اور ملتوی شدہ پروگرام کو دوبارہ رمضان المبارک کے بعد دہلی میں ہی منعقد کرے گا۔ توقع ہے کہ حکومت کی طرف سے آئندہ کوئی رکاوٹ نہیں کھڑی کی جائے گی۔ بورڈ مسلمانوں سے بھی اپیل کرتا ہے کہ وہ ان رکاوٹوں اور مشکلات سے ہرگز بھی مایوس نہ ہوں بلکہ جرات اور حوصلے کے ساتھ بورڈ کی جانب آنے والے اعلانات کا اسی طرح خیر مقدم کریں، جس طرح کہ وہ اب تک کرتے رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: مسلم پرسنل لاء بورڈ کے لئے

پڑھیں:

حکومت کا گورننس کے نام پر ایک ارب ڈالر کا قرض لینے کا فیصلہ

اسلام آباد:

پاکستان نے ٹیکس نظام کی کارکردگی بہتر بنانے،اخراجات میں شفافیت لانے اورسرکاری اداروںکے قانون پر عملدرآمد یقینی بنانے کے نام پر ایک ارب ڈالرکے 2 غیرملکی قرضے حاصل کرنے کافیصلہ کیاہے۔

سرکاری دستاویزات کے مطابق حکومت 60 کروڑ ڈالرکاقرض "پاکستان پبلک ریسورسزفار اِنکلیوسِوڈیولپمنٹ پروگرام" کے تحت ورلڈ بینک سے،جبکہ 40 کروڑ ڈالر کاقرض "ایکسلیریٹنگ اسٹیٹ اونڈ انٹرپرائز ٹرانسفارمیشن پروگرام" کے تحت ایشیائی ترقیاتی بینک سے حاصل کریگی۔

موجودہ زرمبادلہ کے نرخ کے مطابق ایک ارب ڈالر تقریباً281 ارب روپے کے برابر بنتے ہیں،جو نیاہوائی اڈہ تعمیرکرنے یاسیکڑوں اسکول بنانے کیلیے کافی رقم ہے،تاہم یہ قرضہ جات بجٹ سپورٹ کے طور پر حاصل کیے جائیں گے اور ان سے کوئی نیااثاثہ نہیں بنایاجائیگا۔

وزارتِ خزانہ کے ذرائع کے مطابق قرضے زرمبادلہ ذخائرکوسہارادینے کیلیے لیے جارہے ہیں،جبکہ آئی ایم ایف کی جانب سے ابھی تک بڑے غیر ملکی قرضوں کی راہ ہموار نہیں ہوسکی۔

دستاویزات کے مطابق ورلڈ بینک کا 60 کروڑ ڈالرکا پروگرام وزارتِ خزانہ، ایف بی آر، بیورو آف اسٹیٹسٹکس، وزارتِ تجارت، پاور ڈویژن، آئی ٹی وزارت، پی پی آر اے اورآڈیٹر جنرل کے محکمے میں اصلاحات کیلیے ہوگا۔

پروگرام کے تحت ایف بی آرکے ٹیکس اصلاحاتی اقدامات، اخراجات میں شفافیت اور درست اعداد و شمار فراہم کرنیوالے نظام کو مضبوط کرنے کاہدف مقررکیاگیا۔

ذرائع کے مطابق وزارتِ منصوبہ بندی نے نئے قرضے پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے کہاکہ ایف بی آر اوآڈیٹر جنرل کیلیے پہلے ہی اسی نوعیت کے قرضے جاری ہیں،جیسے کہ "پاکستان ریز ریونیو پروگرام" اور "آن لائن بلنگ سسٹم"۔ دوسری جانب، حکومت ایشیائی ترقیاتی بینک سے 40 کروڑ ڈالرکاقرض 40 بڑے سرکاری اداروں کی کارکردگی اور مالی پائیداری بہتر بنانے کیلیے حاصل کرناچاہتی ہے۔

ماہرین کاکہناہے کہ پاکستان کیلیے گورننس اور شفافیت میں بہتری لانے کیلیے "سیاسی عزم اور اصلاحی ارادے" زیادہ اہم ہیں،محض قرضوں سے اصلاحات ممکن نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کے سابق عہدیدار کیخلاف جنسی ہراسانی کا الزام، تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل
  • حکومت کا گورننس کے نام پر ایک ارب ڈالر کا قرض لینے کا فیصلہ
  • امریکی سپریم کورٹ نے ٹرمپ کو امدادی فنڈز روکنے کی اجازت دیدی
  • اپوزیشن اتحاد کا 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان
  • خوفزدہ حکومت کسی سیاسی سرگرمی کی اجازت نہیں دے رہی، پی ٹی آئی بلوچستان
  • بھارتی سپریم کورٹ کا آوارہ کتوں کو پناہ گاہوں میں منتقل کرنے کا حکم
  • ماس ٹرانزٹ پروگرام، مسئلہ کا حل
  • نجکاری کمیشن بورڈ کا اجلاس، 3 ہوائی اڈوں کو نجکاری پروگرام میں شامل کرنے کی سفارش
  • کوئٹہ میں پی ٹی آئی کا جلسہ منسوخ، حکومت پر حالات کشیدہ کرنے کا الزام