شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ کا 148واں یومِ پیدائش کل عقیدت و احترام سے منایا جائیگا
اشاعت کی تاریخ: 9th, November 2025 GMT
سیالکوٹ:۔شاعرِ مشرق، مفکرِ پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کا 148 واں یومِ پیدائش کل اتوار کو ملک بھر میں نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جائے گا۔
اس موقع پر مختلف سرکاری و نجی اداروں، علمی و ادبی تنظیموں، تعلیمی اداروں اور سماجی انجمنوں کی جانب سے ملک بھر میں خصوصی تقریبات، سیمینارز، مذاکرے، مشاعرے اور کلامِ اقبال کے پروگرام منعقد کیے جائیں گے جن میں قومی شاعر کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا جائے گا۔
سیالکوٹ میں یومِ اقبال کی مرکزی تقریب حسبِ روایت اقبال منزل میں منعقد ہوگی جہاں شاعرِ مشرق کے یومِ ولادت کا آغاز نمازِ فجر کے بعد قرآن خوانی، دعائے مغفرت اور نعت و کلامِ اقبال کی محافل سے کیا جائے گا۔
شاعر مشرق علامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنے شاعرانہ کلام اور فلسفیانہ افکار کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں میں بیداری کی لہر پیدا کی اور تصورِ پاکستان پیش کر کے ملتِ اسلامیہ کو نئی سمت عطا کی۔
اس موقع پر صدر مملکت آصف علی زرداری نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی اور اسلامی اقدار پر مبنی علامہ محمد اقبالؒ کے معاشرتی اصولوں نے پاکستان کی قومی شناخت پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، آج ہم علامہ محمد اقبال کا یومِ پیدائش منا رہے ہیں، شاعرِ مشرق اور مفکر کے وژن نے برصغیر کے مسلمانوں میں آزادی اور خود ارادیت کا شعور بیدار کیا۔ صدر نے اپنے پیغام میں کہا کہ 1930ءمیں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس سے اپنے تاریخی خطاب میں علامہ اقبال نے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیا جو بعد ازاں ایک خودمختار مملکت کی بنیاد بنا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے علامہ اقبال کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ اقبال کی فکر آج بھی ہماری قومی و اجتماعی زندگی کے لیے رہنمائی کا سرچشمہ ہے۔ اقبال نے غلامی کے اندھیروں میں خودی اور ایمان کی شمع روشن کی اور ایک مایوس قوم کو بیداری، علم و عمل اور خود اعتمادی کا درس دیا۔ پاکستان، اقبال کے افکار کی روشنی میں امتِ مسلمہ کے اتحاد اور عالمی امن کے فروغ کے لیے اپنا تعمیری کردار ادا کرتا رہے گا۔
.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کھیل علامہ محمد اقبال
پڑھیں:
علامہ اقبال۔۔۔۔۔۔ ایک روشن ستارہ
اسلام ٹائمز: درحقیقت یہ اقبالؒ کی معنوی عظمت اور روحانی تاثیر ہی ہے کہ وقت گزرنے کے باوجود انکی مقبولیت میں کمی نہیں آئی۔ ہر گزرتے دن کیساتھ ان پر تحقیق و تحریر کا دائرہ وسیع تر ہو رہا ہے اور نت نئے پہلو اجاگر کیے جا رہے ہیں۔ یہ سب کچھ اس حقیقت کی گواہی ہے کہ اقبالؒ کا فیضان ایک ہدیۂ الہیٰ ہے، جو ہمیشہ جاری و ساری رہے گا۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم علامہ اقبالؒ کے افکار کو انکے آفاقی، الہیٰ اور معنوی پہلوؤں سے سمجھیں اور انکے بتائے ہوئے راستے پر چل کر اپنے وجود کو جلا بخشیں۔ انکی شاعری کا ہر شعر ہمیں بیداری، عزتِ نفس، خود اعتمادی اور خدا سے تعلق کا سبق دیتا ہے۔ یقیناً یہ عشق و مستی کا سلسلہ رکنے والا نہیں، بلکہ یہ فیضانِ اقبال، دراصل فیضانِ الہیٰ ہے، جو تا قیامت جاری و ساری رہے گا۔ تحریر: محمد حسین بھشتی
علامہ محمد اقبالؒ برصغیر کی تاریخ، فکر اور ادب کا وہ تابناک ستارہ ہیں، جس کی روشنی صدیوں تک نسلِ انسانی کو رہنمائی فراہم کرتی رہے گی۔ اقبالؒ صرف ایک شاعر یا مفکر نہیں بلکہ ایک مصلح، ایک مجاہدِ فکر، ایک روحانی رہنماء اور ایک ایسی ہمہ گیر شخصیت ہیں، جنہوں نے امتِ مسلمہ کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کا فریضہ انجام دیا۔ علامہ اقبال کی شخصیت پر مختلف زاویوں سے ہزاروں اہلِ علم و فکر نے تجزیات و تحلیلات پیش کی ہیں۔ ان کے افکار و نظریات سے مزین مضامین اور مقالات نہ صرف پاکستان کے اندر بلکہ بیرونِ ملک بھی تحریر کیے گئے ہیں، جو بلاشبہ ہمارے فکری ورثے کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ میری رائے میں حضرت علامہ اقبال سے متعلق جو علمی و فکری کام انجام پا رہے ہیں، وہ اکثر و بیشتر سرکاری سرپرستی سے ہٹ کر خالص محبت، عقیدت اور اقبال سے روحانی وابستگی کے جذبے کے تحت ہو رہے ہیں۔
یہ عشق و تعلق کا وہ سلسلہ ہے، جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید پھیلتا اور گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں اگر اقبال سے وابستہ اداروں پر ایک جامع آمار (سروے) کیا جائے تو یقیناً یہ نہ صرف ایک تحقیقی ضرورت ہوگی بلکہ وقت کا تقاضا بھی ہے۔ تاہم ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ بعض افراد، جو اقبال کی فکری و روحانی گہرائی سے ناواقف ہیں، ان کی شخصیت کو محدود یا مشکوک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے افراد کے لیے یہی کہنا کافی ہے کہ اگر وہ اقبال کو ظاہری شہرت سے ہٹ کر روحانی و معنوی زاویے سے دیکھیں تو ان کی سوچ بدل سکتی ہے۔ اقبال کی ذات محض ایک شاعر کی نہیں بلکہ ایک فکرِ قرآنی کے ترجمان، ایک مردِ مومن کے مظہر، اور ایک ملتِ اسلامیہ کے ترجیحی فکری رہنماء کی حیثیت رکھتی ہے۔
اقبالؒ کی زندگی خلوص، عرفانِ ذات اور عشقِ رسولﷺ سے معمور تھی۔ یہی خلوص اور سوز و گداز ان کی شاعری میں جھلکتا ہے اور اسی کے باعث ان کا پیغام دلوں میں اتر جاتا ہے۔ ان کی شاعری میں ایک طرف عشق و مستی کی سرمستی ہے تو دوسری طرف عمل، حوصلے اور خودی کا پیغام۔ اقبالؒ کے نزدیک مسلمان کا اصل سرمایہ ایمان، خودی، اور عشقِ الہیٰ ہے۔ آج جب ہم اقبالؒ کو یاد کرتے ہیں تو ہمیں ان کی تعلیمات کو صرف ادبی یا فکری سطح پر نہیں بلکہ عملی زندگی میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا پیغام صرف ماضی کا حصہ نہیں بلکہ مستقبل کا منشور ہے۔ اگر ہم ان کے افکار کو اپنی اجتماعی زندگی کا حصہ بنائیں تو امتِ مسلمہ دوبارہ اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرسکتی ہے۔
درحقیقت یہ اقبالؒ کی معنوی عظمت اور روحانی تاثیر ہی ہے کہ وقت گزرنے کے باوجود ان کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان پر تحقیق و تحریر کا دائرہ وسیع تر ہو رہا ہے اور نت نئے پہلو اجاگر کیے جا رہے ہیں۔ یہ سب کچھ اس حقیقت کی گواہی ہے کہ اقبالؒ کا فیضان ایک ہدیۂ الہیٰ ہے، جو ہمیشہ جاری و ساری رہے گا۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم علامہ اقبالؒ کے افکار کو ان کے آفاقی، الہیٰ اور معنوی پہلوؤں سے سمجھیں اور ان کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر اپنے وجود کو جلا بخشیں۔ ان کی شاعری کا ہر شعر ہمیں بیداری، عزتِ نفس، خود اعتمادی اور خدا سے تعلق کا سبق دیتا ہے۔ یقیناً یہ عشق و مستی کا سلسلہ رکنے والا نہیں، بلکہ یہ فیضانِ اقبال، دراصل فیضانِ الہیٰ ہے، جو تا قیامت جاری و ساری رہے گا۔ بقولِ خود علامہ اقبالؒ: یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے۔