اسلام ٹائمز: 27ویں آئینی ترمیم ظاہری طور پر اصلاحات کا عنوان رکھتی ہے، مگر اس کے اثرات ریاستی طاقت کی مرکزیت، عدلیہ کی کمزوری، اور وفاقی ڈھانچے کے بگاڑ کی صورت میں سامنے آسکتے ہیں۔ آئین کی ہر ترمیم کا مقصد شہری حقوق، ادارہ جاتی توازن اور جمہوری بالادستی کو مضبوط کرنا ہونا چاہیئے، نہ کہ انہیں کمزور کرنا۔ جمہوریت صرف پارلیمنٹ کی عمارت میں نہیں بلکہ اداروں کی خودمختاری اور عوام کے شعور میں بستی ہے۔ حقیقی آئینی استحکام اسی وقت ممکن ہے جب ریاست کا ہر ستون اپنی حدود میں آزاد، جواب دہ اور متوازن رہے۔ تحریر: سید عباس حیدر شاہ ایڈووکیٹ

پاکستان کے آئینی و سیاسی ڈھانچے میں 27ویں آئینی ترمیم کی تجویز نے ملک کی جمہوری قوتوں، انسانی حقوق کے اداروں اور قانونی ماہرین میں گہری تشویش پیدا کردی ہے۔ اس ترمیم کو حکومتی بیانیے میں اداروں کے درمیان "توازن" اور "ہم آہنگی" پیدا کرنے کی کوشش کے طور پر پیش کیا گیا ہے، مگر اس کا اصل اثر ریاستی طاقت کو مرکز میں مرکوز کرنا، عدلیہ کی آزادی کو کمزور کرنا اور صوبائی خودمختاری کے ڈھانچے کو متزلزل کرنا ہو سکتا ہے۔

یہ صورتحال اس لیے بھی حساس ہے کہ پاکستان کی آئینی تاریخ میں 18ویں ترمیم ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے، جس نے وفاق اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی واضح تقسیم کرکے صوبائی خودمختاری کو عملی تقویت دی۔ اس کے برعکس 26ویں ترمیم کے ذریعے قائم شدہ آئینی بینچز کا تجربہ ناکام ثابت ہوا اور عدلیہ کی ادارہ جاتی ساخت سیاسی اثر و رسوخ کے دباؤ کا شکار رہی۔ اسی ناکامی کی بنیاد پر اب 27ویں ترمیم کے تحت آئینی عدالت (Constitutional Court) کے قیام کی تجویز سامنے آئی ہے، لیکن اس کے ساتھ نئے اور زیادہ سنگین خطرات جنم لیتے ہیں۔

ترمیم میں آرٹیکل 243 میں تبدیلی کا امکان ظاہر کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں مسلح افواج کی سربراہی اور آئینی حیثیت کو مزید مستحکم کیا جا سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ قدم فوجی اداروں کو آئینی سطح پر اضافی تحفظ دیتا ہے، سول بالادستی اور پارلیمانی نگرانی کمزور ہو سکتی ہے، اگر فوجی عہدوں یا ساخت میں آئینی توسیع کی گئی تو طاقت کا توازن مزید یکطرفہ ہو جائے گا۔ یہ صورت حال جمہوری نظام میں اداروں کی برابری، جواب دہی اور سول اختیار کے بنیادی اصول سے متصادم ہے۔

ترمیم میں مجوزہ آئینی عدالت کا قیام بظاہر ایک انتظامی اور عدالتی اصلاح دکھائی دیتا ہے، مگر اصل مسئلہ ججوں کی تقرری اور تبادلے کی وہ مجوزہ شقیں ہیں جو عدلیہ کے آزاد کردار کو متاثر کر سکتی ہیں۔ اگر جج کی رضامندی کے بغیر اس کا تبادلہ ممکن ہو یا تقرری کا عمل حکومتی اثر کے تابع ہو تو عدلیہ حکومتی مفادات کے سامنے کمزور ہو جائے گی۔ ایسی عدلیہ بنیادی حقوق کی نگہبانی نہیں کر سکتی، کیونکہ اس کی آزادی اور ادارہ جاتی خودمختاری متاثر ہو چکی ہوگی۔

27ویں ترمیم کے مجوزہ ڈھانچے میں وفاق کے اختیارات میں اضافہ اور صوبوں کے دائرہ اختیار میں کمی ایک اہم اور تشویشناک پہلو ہے۔ اس کے نتیجے میں صوبائی سطح پر پالیسی سازی اور مالی انتظام متاثر ہوگا۔ تعلیم، صحت اور سماجی بہبود جیسے بنیادی شعبوں میں صوبوں کا کردار کمزور ہو جائے گا۔ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں پہلے سے موجود مرکزیت مخالف جذبات مزید شدید ہو سکتے ہیں۔ یہ عمل وفاقی اتحاد کے لیے براہ راست خطرہ بن سکتا ہے۔

ترمیم میں ایگزیکٹو مجسٹریٹس کے نظام کی بحالی کی تجویز بھی شامل ہے۔ یہ نظام انتظامیہ کو عدالتی اختیار دینے کے مترادف ہے، جو آئین کے آرٹیکل 175(3) کی روح کے خلاف ہے۔ اس کے نتائج یہ ہوں گے۔ شہریوں کے لیے عدالتی انصاف تک غیر جانبدارانہ رسائی مشکل ہوگی۔ انتظامیہ براہ راست فیصلوں کے عمل میں شامل ہو کر طاقت کا ارتکاز بڑھائے گی۔
1۔ عدلیہ کی آزادی متاثر ہوگی۔
2۔ صوبائی خودمختاری کمزور ہوگی۔
3۔ انسانی حقوق کے تحفظ میں ریاستی ادارے غیر مؤثر ہو جائیں گے۔
4۔ فوج اور سول نظام کے درمیان طاقت کا توازن بگڑ جائے گا۔

میری سفارشات مندرجہ ذیل ہیں:
ترمیم کا مسودہ مکمل طور پر عوام اور پارلیمان کے سامنے پیش کیا جائے۔
ججوں کی تقرری کے نظام میں عدلیہ کی آزادی بنیادی اصول رہے۔
صوبائی اختیارات کو آئینی ضمانت کے ساتھ برقرار رکھا جائے۔
پارلیمان کو فوجی اختیارات کی بالادست نگرانی کا حق حاصل رہے۔

27ویں آئینی ترمیم ظاہری طور پر اصلاحات کا عنوان رکھتی ہے، مگر اس کے اثرات ریاستی طاقت کی مرکزیت، عدلیہ کی کمزوری، اور وفاقی ڈھانچے کے بگاڑ کی صورت میں سامنے آسکتے ہیں۔ آئین کی ہر ترمیم کا مقصد شہری حقوق، ادارہ جاتی توازن اور جمہوری بالادستی کو مضبوط کرنا ہونا چاہیئے، نہ کہ انہیں کمزور کرنا۔ جمہوریت صرف پارلیمنٹ کی عمارت میں نہیں بلکہ اداروں کی خودمختاری اور عوام کے شعور میں بستی ہے۔ حقیقی آئینی استحکام اسی وقت ممکن ہے جب ریاست کا ہر ستون اپنی حدود میں آزاد، جواب دہ اور متوازن رہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: صوبائی خودمختاری 27ویں آئینی ترمیم عدلیہ کی آزادی ادارہ جاتی کمزور ہو

پڑھیں:

27ویں آئینی ترمیم کے بعد28ویں بھی آئے گی، فیصل واوڈا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

 اسلام آباد:۔ سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازت قابل بحث معاملہ نہیں، 27ویں آئینی ترمیم کے بعد 28 ویں بھی آئے گی، بوقت ضرورت تبدیلی ہوتی ہے اور ہونی چاہیے۔

سینیٹر فیصل واوڈا نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے بھارت کو مار کر خود کو منوا لیا ہے، جنگ ہم نہیں ہماری افواج لڑتی ہیں، دفاعی لائن کوبڑھانے کے لیے جو کرناہو کرنا چاہیے، عسکری اداروں کو مضبوط کرنا چاہیے، آرمی چیف کی مدت ملازمت سے متعلق قانون موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ روٹی، کپڑا اور مکان میں روڈ بھی شامل ہو گیا، ای چالان کا اقدام مثبت اقدام ہے، ای چالان پوری دنیامیں ہے، جو اچھا اقدام ہے اس کو سراہا جانا چاہیے، ای چالان سے ٹریفک مسائل کم ہوں گے، نوجوانوں کو آگے آنے کا موقع ملنا چاہیے، آگے آنے والے نوجوانوں کو کام بھی کرنا ہوگا۔

فیصل واوڈا نے کہا کہ سہیل آفریدی بھی نوجوان ہیں، وزیراعلیٰ بننا مثبت ہے، سہیل آفریدی کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات ہونی چاہیے، زہران ممدانی کی للکار ہی سیاست کاحسن ہے، للکار کو مار دھاڑ میں تبدیل کرنا کسی طور درست نہیں۔

انہوں نے کہا کہ سہیل آفریدی کو بات چیت سے معاملات آگے بڑھانا ہوگا، میرے خیال میں 24 نومبر کو وہ اسلام آباد نہیں آئیں گے، کسی کو بھی تشدد کی اجازت نہیں، پابندی، گورنر راج اور دیگر بھی آپشن ہیں، تشدد کرنے والوں کو پھینٹا لگے گا۔ فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ ریاست کی رٹ قائم کرنے کے لیے سب کیا جائے گا، کوئی گولی چلائے گا تو مٹھائی نہیں کھلائی جائے گی، نہیں چاہتا کہ کسی جماعت پر پابندی لگے۔

ویب ڈیسک

متعلقہ مضامین

  • ترمیم سے عدلیہ کی آزادی پر حملہ کیا گیا،804تسبیح والا آئیگا اور تمام ترامیم ملیا میٹ ہوجائیں گی، سینیٹر نور الحق قادری
  • عدلیہ کی آزادی کیلئے قربانیاں دیں،انتقام کے بجائے نظام میں بہتری لانے کی ضرورت ہے، سینیٹر پرویز رشید
  • 27 ویں آئینی ترمیم: ججز ٹرانسفر میں ایگزیکٹو اختیارات کم، فیلڈ مارشل کا اعزاز تاحیات برقرار رہے گا
  • پیپلز پارٹی نے آئینی عدالت کے قیام کی تائید کی ہے: شازیہ مری
  • سپریم کورٹ میں مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کو چیلنج
  • مجوزہ آئینی ترمیم عدلیہ کی خودمختاری کے لیے خطرہ ہے، سپریم کورٹ میں درخواست دائر
  • 27ویں ترمیم، حکومتی رابطے تیز: آرٹیکل 243 میں تبدیلی منظور، این ایف سی ایوارڈ، صوبائی خودمختاری سے متعلق شقیں اور دیگر نکات مسترد، آئینی عدالت پر حتمی فیصلہ آج، بلاول
  • 27ویں آئینی ترمیم کے بعد28ویں بھی آئے گی، فیصل واوڈا
  • آزادی صحافت کیلئے راہ ہموار کرنا حکومت کی اہم ذمہ دار ہے، رفیق احمد نایک