پاک بھارت فائنل: پاکستان کی ممکنہ پلیئنگ الیون، صائم ایوب کے مستقبل کا فیصلہ ہوگیا
اشاعت کی تاریخ: 28th, September 2025 GMT
ایشیا کپ فائنل کے لیے پاکستان کی ممکنہ پلیئنگ الیون سامنے آگئی۔
میڈیا ذرائع کے مطابق بھارت کے خلاف فائنل میچ میں بنگلادیش کو شکست دینے والی ٹیم ہی میدان میں اترے گی۔
کپتان سلمان علی آغا کا صائم ایوب سے متعلق کہنا ہے کہ وہ اتنے باصلاحیت پلیئر ہیں کہ آئندہ 10 سال تک قومی ٹیم کی نمائندگی کرسکتے ہیں، ایسے پلیئر کو بیک کرنا ہی پڑتا ہے۔
سلمان علی آغا کا کہنا تھا کہ اگر صائم ایوب کی بولنگ اور فیلڈنگ دیکھی جائے تو انہوں نے دونوں شعبوں میں غیر معمولی کارکردگی دکھائی، مجھے پوری امید ہے کہ وہ فائنل میں شاندار اننگز کھیلنے میں کامیاب رہیں گے۔
یاد رہے کہ صائم ایوب ایشیا کپ کے چھ میچز میں چار مرتبہ صفر پرآؤٹ ہوچکے ہیں۔
ممکنہ پلیئنگ الیون:
صاحبزادہ فرحان، فخر زمان، صائم ایوب، سلمان علی آغا، حسین طلعت، محمد حارث، محمد نواز، فہیم اشرف، ابرار احمد، شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: صائم ایوب
پڑھیں:
پاکستان کو سرمایہ کاری کا مرکز بنانے کیلیے پالیسیوں میں استحکام ناگزیر ہوگیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ملکی معیشت میں پائیدار اور طویل المدتی سرمایہ کاری کو یقینی بنانے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے۔
حالیہ عرصے میں کئی بین الاقوامی کارپوریشنز کے پاکستان سے اپنے کاروبار کو سمیٹنے اور نئی غیر ملکی سرمایہ کاری کے رجحان میں تشویشناک کمی نے ملک کی اقتصادی منصوبہ بندی پر ایک نئی اور سنجیدہ بحث کا آغاز کر دیا ہے۔
معاشی مبصرین اور مالیاتی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کا اصل مسئلہ قدرتی وسائل کی کمی یا مارکیٹ کا محدود حجم نہیں ہے، بلکہ پالیسی سازی میں غیر متوقع صورت حال اور ریاستی اداروں کے اندر گہری ناپائیداری وہ بنیادی رکاوٹیں ہیں جو بیرونی سرمایے کو دور رکھتی ہیں۔
سرمایہ کاری کے عالمی رجحانات پر مبنی تحقیقات یہ واضح کرتی ہیں کہ دنیا بھر کے سرمایہ کار اپنے سرمائے کی حفاظت اور ترقی کے لیے کسی بھی چیز سے زیادہ طویل مدتی استحکام کو ترجیح دیتے ہیں۔ شفاف قانونی فریم ورک اور ایسے معاہدے جو وقت کے ساتھ ساتھ قابلِ عمل رہیں، سرمایہ کاروں کے فیصلے کی بنیاد ہوتے ہیں۔
اس کے برعکس پاکستان میں سرمایہ کاری سے متعلق قوانین اور مراعات میں مسلسل اور بار بار کی جانے والی تبدیلیاں، بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو شک و شبہ میں ڈالتی ہیں اور انہیں یہاں مستقل بنیادوں پر سرمایہ لگانے سے روکتی ہیں۔
خطے کے کئی ممالک ویتنام، بنگلا دیش اور ملائیشیا نے پالیسیوں میں تسلسل اور حکومتی فیصلوں میں یکسانیت کے ذریعے عالمی سطح پر سرمایہ کاروں کا بھروسا جیتا ہے۔ ان ممالک نے ایک ایسا قابلِ اعتماد ماحول فراہم کیا ہے جس میں کاروبار کرنے والی کمپنیاں بغیر کسی خوف کے کئی دہائیوں پر محیط منصوبہ بندی کر سکتی ہیں۔
پاکستان کو بھی اپنی معیشت کا رخ موڑنے اور ایک پرکشش سرمایہ کاری کی منزل بننے کے لیے ان علاقائی حریفوں کے نقش قدم پر چلنے کی ضرورت ہے۔
ماہرینِ اقتصادیات اور تجزیہ نگاروں نے ملک میں پائیدار سرمایہ کاری کے لیے چھ بنیادی اور لازمی اقدامات تجویز کیے ہیں۔
ان اقدامات میں سب سے اہم پالیسیوں میں پیش بینی لانا ہے، جس کا مطلب ہے کہ حکومتی پالیسیاں ایک مقررہ مدت تک غیر متغیر رہیں تاکہ کاروباری برادری طویل المدتی فیصلے کر سکے۔
دوسرا اہم نقطہ شفاف اور سادہ ٹیکس نظام کا قیام ہے، تاکہ ٹیکس کے قوانین ہر کسی کے لیے واضح اور سمجھنے میں آسان ہوں۔ تیسرا، غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے منافع کی آسان منتقلی کو یقینی بنانا ضروری ہے تاکہ وہ بغیر کسی رکاوٹ کے اپنا کمایا ہوا منافع واپس اپنے ملک بھیج سکیں۔
اسی طرح چوتھا قدم برآمدات پر خصوصی توجہ مرکوز کرنا ہے، جو ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے اور غیر ملکیوں کے لیے پاکستان کی مارکیٹ کو زیادہ پرکشش بنانے کا سبب بنے گا۔
پانچواں اہم اقدام تنازعات کے تیز رفتار اور مؤثر حل کا ایک ایسا نظام قائم کرنا ہے جو کسی بھی کاروباری تنازعے کو فوراً اور غیر جانبدارانہ طریقے سے نمٹا سکے۔
چھٹا بنیادی اور جامع قدم ادارہ جاتی استحکام کو یقینی بنانا ہے، تاکہ تمام حکومتی ادارے سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے ایک ہی صفحے پر اور مستقل مزاجی کے ساتھ کام کریں۔
تجزیہ کاروں کا یہ موقف ہے کہ دنیا پاکستان کے اندر موجود اقتصادی صلاحیت، اس کے جغرافیائی محل وقوع اور نوجوان افرادی قوت کی اہمیت سے بخوبی واقف ہے، مگر یہ صلاحیت اس وقت تک بے معنی رہے گی جب تک پاکستان اپنی اندرونی تنظیم نو نہیں کرتا۔
اب وقت آ گیا ہے کہ محض صلاحیت پر انحصار کرنے کے بجائے ملک اپنے انتظامی نظام میں پیش بینی کا عنصر شامل کرے اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرے تاکہ اس اقتصادی صلاحیت کو حقیقت میں بدل کر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔