WE News:
2025-09-27@06:33:00 GMT

ستارے نہیں، موسم فیصلہ کرتا ہے

اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT

ستارے نہیں، موسم فیصلہ کرتا ہے

دنیا بھر کے ماہرینِ نفسیات اور سائنس دان اس بات پر متفق ہیں کہ موسموں کی تبدیلی صرف درختوں، ہواؤں یا درجہ حرارت پر ہی اثر انداز نہیں ہوتی، بلکہ انسانی ذہنی صحت پر بھی گہرے نقوش چھوڑتی ہے۔

خاص طور پر ماہِ ستمبر، جو گرمی کے طویل اور تھکا دینے والے دنوں کے بعد خزاں کے آغاز کی خبر دیتا ہے، انسانی ذہن اور جذبات پر ایک منفرد دباؤ پیدا کرتا ہے۔

ماہرین نے اس کیفیت کو ایک مخصوص اصطلاح بھی دی ہے: “Autumn Anxiety” یعنی خزاں کی بے چینی۔

پاکستان میں یہ رجحان تیزی سے نمایاں ہو رہا ہے اور بالخصوص اسلام آباد جیسے نسبتاً خوشحال اور تعلیم یافتہ شہر میں اس کی شدت زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ یہی رجحان دنیا کے دیگر خطوں میں بھی پایا جاتا ہے، جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ستمبر محض ایک مہینہ نہیں، بلکہ انسانی ذہنی و نفسیاتی منظرنامے میں ایک اہم موڑ ہے۔

پاکستان میں ستمبر اور نفسیاتی مسائل

تعلیمی دباؤ اور طلبہ

پاکستان میں تعلیمی نظام سال کے آغاز میں ہی ایک نئے دباؤ کے دور سے گزرتا ہے۔ ستمبر کے مہینے میں امتحانات کی تیاری، ہوم ورک کے بوجھ اور مستقبل کی غیر یقینی کیفیت طلبہ کے ذہن پر براہِ راست اثر ڈالتی ہے۔

ماہرین کے مطابق یہی وہ وقت ہے جب طلبہ میں ڈپریشن اور بے چینی کی شرح دیگر مہینوں کے مقابلے میں زیادہ ریکارڈ کی جاتی ہے۔

معاشی دباؤ اور خاندان

ستمبر کا مہینہ والدین کے لیے مالی طور پر ایک کڑا امتحان بن جاتا ہے۔ اسکول فیس، کتابوں اور یونیفارم کے اخراجات کے ساتھ گھریلو ضروریات کا دباؤ والدین کو نفسیاتی طور پر متاثر کرتا ہے۔

اس کے نتیجے میں گھریلو جھگڑے، تلخ رویے اور تناؤ کی کیفیت جنم لیتی ہے، جو بچوں اور بڑوں سب کی ذہنی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے۔

موسمی تبدیلیاں

ستمبر میں پاکستان کے بیشتر علاقوں میں مون سون کی نمی ختم ہو جاتی ہے اور موسم خشک ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی ہونے لگتی ہیں، جس سے انسان کا حیاتیاتی نظام (Circadian Rhythm) متاثر ہوتا ہے۔ نتیجہ؟ نیند کی کمی، تھکن اور موڈ کی خرابی۔

سماجی دباؤ

ستمبر کے بعد شادیوں اور تقریبات کا موسم شروع ہوتا ہے۔ لوگ پہلے سے ہی ذہنی طور پر اخراجات، تیاریوں اور سماجی میل جول کے دباؤ میں مبتلا رہتے ہیں۔ ماہرین اس کیفیت کو Anticipatory Stress یعنی ’آنے والے بوجھ کا دباؤ‘ قرار دیتے ہیں، جو بے چینی اور چڑچڑاپن کو بڑھا دیتا ہے۔

اسلام آباد میں ستمبر کا نفسیاتی منظرنامہ

پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد اپنی خوبصورتی، سبزہ زاروں اور پرامن ماحول کی وجہ سے منفرد حیثیت رکھتا ہے، مگر نفسیاتی مسائل سے یہ شہر بھی محفوظ نہیں۔

ماحولیاتی عوامل: اسلام آباد میں ستمبر کے دوران کبھی بارشیں تو کبھی خشک موسم رہتا ہے۔ یہ غیر یقینی کیفیت شہریوں کے موڈ پر منفی اثر ڈالتی ہے۔

تعلیمی و پیشہ ورانہ دباؤ: اسلام آباد یونیورسٹیوں، کالجوں اور سرکاری دفاتر کا مرکز ہے۔ ستمبر میں یہاں طلبہ کو نصابی بوجھ اور ملازمین کو نئی منصوبہ بندیوں کا دباؤ جھیلنا پڑتا ہے۔

سماجی رویے: یہاں کے شہری عمومی طور پر محدود سماجی زندگی رکھتے ہیں۔ لیکن ستمبر کے بعد بڑھتی تقریبات ان پر دباؤ میں اضافہ کرتی ہیں۔

ماہرین کا مشاہدہ: شہر کے ماہرینِ نفسیات کے مطابق ستمبر میں مریضوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ ان میں زیادہ تر شکایات بے خوابی، ڈپریشن اور کام کے دباؤ سے متعلق ہوتی ہیں۔

دنیا میں کیا ہورہا ہے؟

موسمی افسردگی (Seasonal Affective Disorder – SAD)

یورپ اور شمالی امریکہ میں روشنی کم ہونے کے باعث لوگوں کی ذہنی کیفیت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ ستمبر کے آغاز کے ساتھ ہی ڈپریشن اور تنہائی کی شرح بڑھ جاتی ہے۔

مغربی دنیا میں بھی ستمبر بچوں اور والدین دونوں کے لیے دباؤ کا مہینہ ہے۔ نئی جماعت، نئے اساتذہ اور نیا نصاب بچوں کو پریشان کرتے ہیں، جبکہ والدین مالی اور وقت کی تقسیم کے دباؤ میں آتے ہیں۔

پیشہ ورانہ دباؤ

دفاتر میں ستمبر کے آغاز پر نئے اہداف اور منصوبے ملازمین پر اضافی دباؤ ڈالتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ستمبر کو بعض ماہرین “Mental Health Challenge Month” بھی قرار دیتے ہیں۔

تحقیقی شواہد

بین الاقوامی مطالعات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ستمبر اور اکتوبر میں نفسیاتی مسائل جیسے ڈپریشن، بے چینی اور حتیٰ کہ خودکشی کی شرح میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

سائنس کیا کہتی ہے؟

روشنی کی کمی: سورج کی روشنی میں کمی دماغ میں سیرٹونن ہارمون کم کر دیتی ہے، جو خوشی اور توانائی کے لیے ضروری ہے۔

حیاتیاتی گھڑی کا بگاڑ: Circadian Rhythm متاثر ہونے سے نیند میں خلل، تھکن اور مزاج کی خرابی پیدا ہوتی ہے۔

سماجی و معاشی دباؤ: نئے اہداف اور تعلیمی بوجھ انسانی ذہنی صحت پر بوجھ ڈالتے ہیں۔

Anticipatory Stress: آنے والے مہینوں کی ذمہ داریوں کی سوچ دماغ پر بوجھ ڈالتی ہے۔

کیا اس کا کوئی حل ہے؟

روزانہ کم از کم 30 منٹ سورج کی روشنی میں گزاریں۔

باقاعدگی سے ورزش کریں۔

نیند کے اوقات کو متوازن رکھیں۔

دوستوں اور خاندان کے ساتھ سماجی روابط کو مضبوط کریں۔

اپنی کیفیت کا اظہار کریں، ڈپریشن کو اندر نہ رکھیں۔

اگر مسائل بڑھ جائیں تو ماہرِ نفسیات یا کونسلر سے رجوع کریں۔

ستمبر محض ایک مہینہ نہیں بلکہ انسانی ذہنی صحت کے لیے ایک امتحان ہے۔ پاکستان ہو یا یورپ، اسلام آباد ہو یا نیویارک، دنیا بھر میں ستمبر کے دوران انسانی دماغ اور جذبات پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

تاہم اگر بروقت آگاہی، صحت مند عادات اور ماہرین کی رہنمائی اختیار کی جائے تو اس “خزاں کی بے چینی” پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سیدہ سفینہ ملک

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسلام آباد ستمبر کے بے چینی ہوتی ہے جاتی ہے کے آغاز کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

اقوام متحدہ، ذہنی صحت اور نان کمیونیکیبل بیماریوں کے خلاف جنگ جاری ہے، ڈی جی ہیلتھ

نیویارک:

ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ ڈاکٹر عائشہ عیسانی مجید نے اقوام متحدہ میں ذہنی صحت سے متعلق اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں نان کمیونیکیبل بیماریوں میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے، جن سے نمٹنے کے لیے جامع اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔

ڈاکٹر عائشہ عیسانی نے اجلاس کو بتایا کہ پاکستان نے NCDs اور ذہنی صحت کے لیے نیشنل ایکشن پلان تشکیل دے دیا ہے، جس کے تحت کئی اہم اقدامات کیے گئے ہیں۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ ہر 9 میں سے ایک پاکستانی خاتون کو بریسٹ کینسر لاحق ہونے کا خدشہ ہے، جسے مدنظر رکھتے ہوئے بریسٹ اور سروائیکل کینسر کی اسکریننگ کو پرائمری ہیلتھ کیئر سطح پر منتقل کر دیا گیا ہے۔

ڈاکٹر عائشہ نے بتایا کہ پاکستان میں 9 سے 14 سال کی بچیوں کو HPV ویکسین دی جا رہی ہے تاکہ خواتین میں رحم کے سرطان کی روک تھام ممکن ہو۔

انہوں نے بتایا کہ تمباکو نوشی کے خلاف بھی سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ سگریٹ کے پیکٹ پر 70 فیصد وارننگ لازمی قرار دی جا چکی ہے، جبکہ شیشہ عوامی مقامات پر مکمل طور پر بین کر دیا گیا ہے۔

ڈاکٹر عائشہ کے مطابق، حکومت ویپ اور دیگر الیکٹرانک نکوٹین ڈیوائسز پر پابندی کے قانون پر بھی غور کر رہی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ شوگر اور سافٹ ڈرنکس پر ٹیکس 40 فیصد تک بڑھا دیا گیا ہے تاکہ غیر صحت بخش اشیاء کے استعمال میں کمی لائی جا سکے۔

ڈی جی ہیلتھ نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان نوجوانوں، کمیونٹی اور موسمیاتی اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے صحت کے نظام میں اصلاحات لا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کے صحت کے حوالے سے نکتہ نظر سے مکمل ہم آہنگ ہے اور عالمی شراکت داروں کے ساتھ مل کر اہداف کے حصول کے لیے پُرعزم ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت دنیا بھر میں دہشتگردوں کی سرپرستی کو چھپا نہیں سکتا، اقوام متحدہ میں پاکستان کا کرارا جواب
  • جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ذہنی صحت مرکز بحث
  • اقوام متحدہ، ذہنی صحت اور نان کمیونیکیبل بیماریوں کے خلاف جنگ جاری ہے، ڈی جی ہیلتھ
  • ایمان کے اثرات
  • لاہور دنیا بھر میں فضائی آلودگی کے اعتبار سے ایک بار پھرپہلے نمبر پر آگیا۔
  • بھارت پر سفارتی دباؤ بڑھ چکا ہے، اعزاز چوہدری
  • ایران یورینیم افزودگی سے کسی طور پیچھے نہیں ہٹےگا، کوئی دباؤ قبول نہیں: خامنہ ای
  • شہید حسن نصراللہ کی پہلی برسی، 27 ستمبر کو یوم شہدائے القدس منایا جائے گا، علامہ باقر زیدی
  • دباؤ میں ایران یورینیم کی افزودگی ترک نہیں کرے گا، خامنہ ای