سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر ٹرانسفر کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا اور ہائی کورٹ کے ججوں کا ٹرانسفر آئین اور قانون کے مطابق قرار دے دیا۔

سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججوں سینیارٹی اور تبادلے کے کیس کا 55 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ تحریر کیا، جس میں کہاگیا ہے کہ اصل نکتہ یا بنیادی شرط یہ ہے کہ جج کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں منتقل کرنے سے پہلے صدر مملکت کو متعلقہ جج کی رضامندی لینا ضروری ہے۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ سب سے اہم دوسرا پہلو مشاورت کا عمل ہے، مشاورت کے عمل میں صدر مملکت چیف جسٹس آف پاکستان اور دونوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان سے مشاورت کے پابند ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ صدرمملکت کو آئین کے تحت ججوں کے ٹرانسفر کا اختیار حاصل ہے، آئین کے آرٹیکل 175 اے اور 200 میں کوئی تضاد نہیں ہے، دونوں آرٹیکلز کے مطابق مختلف مواقع سے نمٹنے کے لیے موقف مختلف تھا۔

سپریم کورٹ نے کہا   کہ جج کی منتقلی جج کی رضامندی اور مشاورت کے بغیر ممکن نہیں، ججوں کی منتقلی کا فیصلہ عدلیہ کے دائرہ اختیار میں ہے، منتقلی کے عمل میں عدلیہ کی رائے کو اولیت حاصل ہے۔

عدالتی فیصلے میں واضح کیا گیا کہ ججوں کی منتقلی سے عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہوتی، ججوں کی منتقلی میں بدنیتی یا انتقامی کارروائی ثابت نہیں ہوئی، ججوں کی منتقلی آئین اور قانون کے مطابق ہوئی ہے۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ ایکٹ 2010 کا سیکشن 3 منتقلی پر قدغن نہیں لگاتا اور صوبائی نمائندگی کے اصول کی خلاف ورزی نہیں ہوئی، معاملہ سینیارٹی کے تعین کے لیے صدر کو واپس بھجوایا جاتا ہے۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

سپریم کورٹ، وکلا کی سہولت اور عدالتی کارکردگی بہتر بنانے پر اہم ملاقات

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251108-01-4

اسلام آباد (آن لائن)  سپریم کورٹ بار کے صدر ہارون الرشید اور سیکرٹری ملک زاہد اسلم  نے  چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے ملاقات کی، جس میں عدالتی کارکردگی میں بہتری اور وکلا کی سہولت کے امور پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔ سپریم کورٹ بار کی جانب سے ایڈووکیٹس آن اسپیشل کاز کو کیس فائل کرنے کی اجازت دینے کی درخواست کی گئی، جسے چیف جسٹس نے منظور کرتے ہوئے متعلقہ دفتر کو  عملدرآمد کے احکامات  جاری کر دیے۔ بار کے اعلامیے کے مطابق، پبلک فسیلیٹیشن سینٹر میں سروسز بہتر بنانے کے لیے  ڈپٹی رجسٹرار  تعینات کرنے کی تجویز بھی دی گئی، جس پر چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ ڈپٹی رجسٹرار روزانہ مخصوص اوقات میں خدمات فراہم کریں ۔ مزید یہ کہ نئے  ضمانت کے مقدمات دو ہفتوں میں سماعت  کے لیے مقرر کیے جائیں گے، جبکہ پرانے مقدمات کی سماعت ترجیحی پالیسی کے مطابق جاری  رہے گی۔ چیف جسٹس نے یقین دہانی کرائی کہ بار روم کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل  کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ، مستقل پیش ہونے والے وکلا کو سینئر ایڈووکیٹ آف سپریم کورٹ  کا درجہ دینے کی تجویز بھی زیر غور لائی گئی۔ ملاقات میں عدالتی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے اور وکلا کی سہولت کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔

خبر ایجنسی

متعلقہ مضامین

  • 27 ویں ترمیم، سپریم کورٹ کے مستقبل کے لیے فیصلہ کن ہفتہ
  • وفاقی آئینی عدالت قائم کی جائے گی، کوئی جج ٹرانسفر ماننے سے انکار کرے گا وہ ریٹائر تصور کیا جائے گا: مجوزہ آئینی ترمیم
  • اسلام آباد ہائی کورٹ نے جسٹس ثمن رفعت کے خلاف توہینِ عدالت کی درخواست خارج کر دی
  • اسلام آباد ہائی کورٹ نے جسٹس ثمن رفعت کے خلاف توہین عدالت کی درخواست خارج کردی
  • اسلام آباد ہائی کورٹ کی خاتون جج جسٹس ثمن رفعت کیخلاف توہین عدالت درخواست خارج
  • اسلام آباد ہائی کورٹ کی خاتون جج جسٹس ثمن رفعت کیخلاف توہین عدالت درخواست خارج
  • تمام ہائیکورٹ ججز مشترکہ سنیارٹی لسٹ، تعین تاریخ تقرری کی بنیاد پر
  • سپریم کورٹ، وکلا کی سہولت اور عدالتی کارکردگی بہتر بنانے پر اہم ملاقات
  • لاہور ہائیکورٹ میں جدید ریکارڈ مینجمنٹ سسٹم قائم کردیا گیا
  • 27 ویں آئینی ترمیم، مجوزہ آئینی عدالت، 7 ججز، 68 سال ریٹائرمنٹ، ’’ کمانڈر آف ڈیفنس فورسز‘‘ کا نیا عہدہ متعارف کرانے پر غور