گندم کی ترسیل پر مبینہ پابندی، خیبرپختونخوا حکومت کا پنجاب کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT
خیبر پختونخوا میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران آٹے کی قیمتوں میں اضافہ ہوچکا ہے جو صوبائی حکومت کے مطابق پنجاب سے گندم اور آٹے کی ترسیل پر پابندی کی وجہ سے ہو رہا ہے اور اب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں لے جایا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کی زیرصدارت اجلاس، گندم کی ذخیرہ اندوزی کے خلاف سخت اقدامات کا فیصلہ
خیبر پختونخوا حکومت نے پنجاب کی جانب سے گندم اور آٹے کی سپلائی پر مبینہ پابندی کے خلاف سپریم کورٹ جانے کی تیاری شروع کردی ہے۔
محکمہ خوراک کے 2 اعلیٰ افسران نے اس کی تصدیق کی اور بتایا کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی ہدایت پر قانونی ماہرین سے مشاورت کی گئی ہے اور جلد کیس فائل کیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ صوبائی حکومت کی رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا میں آٹے کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور اس صورت حال سے آٹے کی قلت پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ کچھ دن پہلے وزیراعلیٰ کو اس حوالے سے ایک بریفنگ بھی دی گئی تھی جس میں صوبے کی ضرورت اور موجودہ اسٹاک کے بارے میں بتایا گیا۔
بریفنگ کے مطابق خیبر پختونخوا کے پاس اس وقت اسٹاک موجود ہے لیکن پنجاب سے سپلائی بند ہونے کی صورت میں کمی کا خدشہ ہے، اور قیمتوں میں اضافہ پہلے ہی شروع ہو چکا ہے۔
’کے پی کو گندم پر پابندی سیاسی انتقام ہے‘وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو دی گئی بریفنگ میں بتایا گیا کہ اس وقت ملک میں 23 اعشاریہ 47 ملین میٹرک ٹن (ایم ایم ٹی) گندم دستیاب ہے جس میں سے سب سے زیادہ 22 اعشاریہ 94 ملین پنجاب کے پاس ہے جبکہ پنجاب کی اپنی ضرورت 15 اعشاریہ 43 ہے۔
بریفنگ میں کہا گیا کہ خیبر پختونخوا کے پاس صرف ایک اعشاریہ 74 اسٹاک ہے جبکہ ضرورت 5 اعشاریہ 30 ایم ایم ٹی ہے۔
مزید پڑھیے: پنجاب میں دفعہ 144 کے تحت فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی
وزیراعلیٰ کو بتایا گیا کہ پنجاب کے پاس گندم موجود ہے لیکن خیبر پختونخوا کو سپلائی پر پابندی لگا دی گئی ہے اور اس کے لیے صوبائی حدود میں جگہ جگہ چیک پوسٹس قائم کر دی گئی ہیں۔
علی امین گنداپور نے اس پابندی کو سیاسی انتقام قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ جانے کی ہدایت دی۔
بریفنگ میں موجود ایک افسر نے بتایا کہ صوبے کی گندم اور آٹے کی ضروریات کا 80 فیصد پنجاب پر انحصار ہے اور سیاسی اختلافات کے باعث پنجاب اس کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعلیٰ نے مقامی سطح پر کسانوں کی حوصلہ افزائی اور ان سے گندم خریداری کو ترجیح دینے کی ہدایت کی ہے تاکہ پنجاب پر انحصار کم کیا جا سکے۔
محکمہ خوراک کے ایک افسر نے بتایا کہ وزیراعلیٰ کی ہدایت پر پنجاب کے خلاف سپریم کورٹ جانے کی تیاری شروع کر دی گئی ہے اور مؤقف اپنایا جائے گا کہ ایسی پابندی آئین کی خلاف ورزی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا پنجاب سمیت دیگر صوبوں کو بجلی اور گیس فراہم کر رہا ہے اور اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جا رہی لہٰذا پنجاب کو بھی گندم اور آٹے کی ترسیل روکنے کا حق نہیں۔ افسر کے مطابق جلد یہ کیس فائل کر دیا جائے گا۔
مزید پڑھیں: گندم کی قیمت میں اچانک اضافہ، روٹی نان کتنے مہنگے ہو سکتے ہیں؟
پنجاب کے خلاف سپریم کورٹ جانے کے حوالے سے مؤقف لینے کے لیے صوبائی وزیر خوراک ظاہر شاہ طورو سے بار بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے فون کالز اور سوالات کا کوئی جواب نہیں دیا۔
دوسری جانب پنجاب حکومت کی طرف سے اب تک اس پابندی پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
آٹے کی قیمتوں میں کتنا اضافہ ہوا ہے؟پشاور کی ہول سیل آٹا مارکیٹ میں آٹے کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جبکہ مقامی فلور ملز سے سپلائی بھی کم ہو گئی ہے۔
حاجی ریمبل خان آٹا ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر اور پنجاب سے آٹا منگوانے والے بڑے تاجروں میں شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران پنجاب سے آٹے کی سپلائی کم ہوئی ہے اور سختی میں اضافہ ہوا ہے۔
ان کے مطابق مارکیٹ میں 20 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت میں 100 سے 200 روپے تک اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے 1900 روپے میں بیچتے تھے اب 2100 کا ہو گیا ہے اور پتا نہیں کل کتنا ہو گا۔
ریمبل خان کے مطابق یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ آٹے اور گندم کی سپلائی پر پابندی لگی ہے بلکہ یہ اب معمول بنتا جا رہا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی اختلافات کے باعث اکثر ایسے اقدامات کیے جاتے ہیں جس کا نقصان عوام کو ہوتا ہے۔
سیاسی تجزیہ کار اور صحافی عارف حیات بھی اسی رائے سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کے مطابق اس وقت ملک میں گندم دستیاب ہے لیکن سیاسی اختلافات کا فائدہ کچھ سیاسی عناصر اور مافیا اٹھا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ کوئی پہلی بار پابندی نہیں لگی کیوں کہ جب وفاق میں عمران خان اور پنجاب میں پی ٹی آئی کے عثمان بزدار وزیراعلیٰ تھے تب بھی یہی مسائل تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مریم نواز اور علی امین گنڈاپور سخت سیاسی حریف ہیں اور دونوں کی کارکردگی کا موازنہ کیا جاتا ہے جس کے باعث ایک دوسرے کے خلاف ایسے قدم اٹھائے جا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: پنجاب حکومت کی گندم کے کاشتکاروں کے لیے 100 ارب کے بلاسود قرض اور ٹارگٹڈ سبسڈی کی تجویز
عارف حیات کے مطابق سپریم کورٹ جانے سے صوبائی حکومت کو شاید کوئی بڑا ریلیف نہ ملے لیکن علی امین کو سیاسی فائدہ ضرور ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ یہ سیاسی اور برائے نام کارکردگی کی جنگ ہے اور نقصان عوام کا ہو رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پنجاب حکومت سپریم کورٹ کے پی پنجاب تنازع کے پی میں گندم کی ترسیل گندم.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پنجاب حکومت سپریم کورٹ کے پی پنجاب تنازع کے پی میں گندم کی ترسیل کے خلاف سپریم کورٹ جانے گندم اور آٹے کی خیبر پختونخوا اضافہ ہوا ہے نے بتایا کہ قیمتوں میں پر پابندی انہوں نے پنجاب کے کی ترسیل علی امین کے مطابق کی ہدایت جائے گا گندم کی گئی ہے کے لیے کے پاس رہا ہے ہے اور کہا کہ
پڑھیں:
27ویں ترمیم:ملک میں بڑی آئینی تبدیلیوں کے لیے رواں ہفتہ اہم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: 27ویں آئینی ترمیم کا مجوزہ بل پیش کیے جانے کے بعد یہ ہفتہ سپریم کورٹ کے مستقبل کے لیے فیصلہ کن حیثیت اختیار کر گیا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق حکومت کی جانب سے پیش کردہ ترمیم کے مطابق ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ کو ایک نئی وفاقی آئینی عدالت کے ماتحت کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
اس مجوزہ تبدیلی کے تحت اس نئی عدالت کے پہلے چیف جسٹس کی تقرری براہِ راست انتظامیہ کرے گی، جب کہ سپریم کورٹ کو اس کے دائرۂ اختیار کی پیروی لازمی قرار دی گئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت اس بل کو رواں ہفتے کے دوران ہر صورت منظور کرانے کے لیے پُرعزم ہے۔ مجوزہ ترمیم کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان کے نام سے لفظ پاکستان بھی حذف کر دیا جائے گا، جب کہ چیف جسٹس کا عہدہ چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت میں تبدیل ہو جائے گا۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے 12 نومبر کو ترکی کے سرکاری دورے پر روانہ ہونے کے بعد ان کی غیر موجودگی میں سینئر ترین جج سید منظور علی شاہ قائم مقام چیف جسٹس کا حلف اٹھائیں گے۔
ماہرینِ قانون کے مطابق اگر اس دوران پارلیمان نے 27ویں ترمیم منظور کر لی، تو حکومت کسی بھی جج کو نیا چیف جسٹس نامزد کر سکے گی۔ یہی وجہ ہے کہ تمام نظریں اب سپریم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ اس ترمیم پر کس نوعیت کا ردعمل دیتی ہے۔
قانونی ماہرین اور وکلا برادری میں شدید تشویش پائی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عدلیہ کی خودمختاری آئین کی بنیادی روح ہے، جسے کسی بھی قیمت پر مجروح نہیں کیا جا سکتا۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ چیف جسٹس آفریدی کو فوری طور پر فل کورٹ اجلاس بلا کر ججز کا متفقہ مؤقف سامنے لانا چاہیے تاکہ ادارے کی ساکھ محفوظ رہ سکے۔
دوسری جانب حکومتی اتحاد کے قانونی ماہرین اپنی قیادت کو اس بات پر قائل کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں کہ ایسی وفاقی آئینی عدالت کی ساکھ پر عوامی اعتماد کیسے قائم رہے گا، جس کے سربراہ کا تقرر خود حکومت کرے۔ سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر کے مطابق سپریم کورٹ کے ججز کو اصولی مؤقف اپناتے ہوئے مستعفی ہو جانا چاہیے، تاکہ عدلیہ کی غیر جانب داری اور وقار برقرار رہے۔