Islam Times:
2025-11-06@21:38:02 GMT

حزب اللہ کی سعودی عرب کو رابطوں اور تعلقات کی اعلانیہ دعوت

اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT

حزب اللہ کی سعودی عرب کو رابطوں اور تعلقات کی اعلانیہ دعوت

اسلام ٹائمز: شیخ نعیم قاسم نے جمعہ کے روز ایک تقریر میں کہا کہ عرب خلیجی ملک قطر پر صیہونی دشمن کے حملے کے بعد کا مرحلہ اب پہلے کے مقابلے مختلف ہے، اس حملے کے بعد مزاحمت، حکومتیں، قومیں اور ہر وہ جغرافیائی اور سیاسی رکاوٹ جو "گریٹر اسرائیل" نامی منصوبے کی راہ میں حائل ہے، اب صیہونی حکومت کے ہدف بن چکا ہے اور اب اسرائیلی اھداف میں فلسطین، لبنان، اردن، مصر، شام، عراق، سعودی عرب، یمن اور ایران سب شامل ہیں۔ اسرائیلی حکومت مرحلہ بہ مرحلہ پر قدم بڑھا رہی ہے۔ عرب میڈیا کی رپورٹ:

لندن سے اپ ڈیٹ ہونے والے الیکٹرانک عربی زبان اخبار رائے الیووم نے پیر کے روز خالد الجیوسی کی ایک تجزیاتی رپورٹ شائع کی ہے، جس میں وہ کہتے ہیں کہ شاید وقت ہی کلیدی عامل ہے جس کی وجہ سے حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے سعودی عرب کو اپنے ایک عمومی خطاب میں آشکار طور پر "مفاہمت" کی دعوت دی، کیونکہ سعودی عرب اسرائیل کے خلاف نئے اتحاد بنانے کی کوشش کر رہا ہے، اور اسرائیل کے حماس کے رہنماؤں کو قتل کرنے کی کوشش کے طور پر دوحہ پر ہونیوالے حالیہ حملوں کے بعد اسلام آباد اور ریاض کے درمیان دفاعی معاہدہ اس کا ثبوت ہے۔

شیخ نعیم قاسم نے جمعہ کے روز ایک تقریر میں کہا کہ عرب خلیجی ملک قطر پر صیہونی دشمن کے حملے کے بعد کا مرحلہ اب پہلے کے مقابلے مختلف ہے، اس حملے کے بعد مزاحمت، حکومتیں، قومیں اور ہر وہ جغرافیائی اور سیاسی رکاوٹ جو "گریٹر اسرائیل" نامی منصوبے کی راہ میں حائل ہے، اب صیہونی حکومت کے ہدف بن چکا ہے اور اب اسرائیلی اھداف میں فلسطین، لبنان، اردن، مصر، شام، عراق، سعودی عرب، یمن اور ایران سب شامل ہیں۔ اسرائیلی حکومت مرحلہ بہ مرحلہ پر قدم بڑھا رہی ہے۔

شیخ نعیم قاسم نے پس پردہ چینلز کے بجائے اپنی تقریر میں سعودی عرب سے حزب اللہ کے ساتھ تعلقات میں ایک نئے باب کا آغاز کرنے کو ترجیح دی۔ انہوں نے سعودی عرب کے ساتھ بات چیت پر زور دیا جس سے مسائل حل ہوں، خدشات رفع ہونگے اور باہمی مفادات بھی ملحوظ رہیں۔ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے واضح طور پر کہا کہ یہ عوامی سطح پر دی گئی دعوت اور بیانیہ ایک ایسی تجویز ہے، جس کی ماضی میں مثال موجود نہیں۔ شیخ نعیم قاسم نے اس بات پر زور دیا کہ اس کا مقصد امت اسلامیہ کے روشن مستقبل کے لیے جدوجہد کرنا اور خطے میں تقسیم اور تسلط کے صیہونی منصوبوں کا مقابلے کرنے کے لئے اپنی آزادی اور وقار کا تحفظ کرنا ہے۔

شیخ نعیم قاسم نے سعودی عرب سے اختلافات کو پس پشت ڈالنے کے لیے نہیں کہا، بلکہ اس غیر معمولی مرحلے پر "اسرائیل" کا مقابلہ کرنے اور اس چیلنج پر قابو پانے کے لیے ان اختلافات کو "منجمد" کرنے کا کہا۔ حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے لیے اسرائیلی دباؤ کے درمیان شیخ نعیم قاسم کی یقین دہانی قابل ذکر تھی کیونکہ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ مزاحمت کے ہتھیار اسرائیلی دشمن کے خلاف ہیں اور ان کا ہدف صیہونی حکومت ہے، نہ کہ لبنان، سعودی عرب یا دنیا کا کوئی ادارہ یا ملک۔ 

سعودی عرب فلسطینی ریاست کو بین الاقوامی طور پر تسلیم کرنے کی مہم کی قیادت کر رہا ہے اور اسے اپنے ایجنڈے میں شامل کر رہا ہے، لیکن ساتھ ہی وہ غزہ کی پٹی میں مزاحمت کو غیر مسلح کرنے اور اقتدار سویلین اتھارٹی کو منتقل کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اسی دوران شیخ نعیم قاسم نے اپنی تقریر میں یاد دلایا کہ مزاحمت پر دباؤ مکمل طور پر اسرائیل کے مفاد میں ہے اور مزاحمت کی عدم موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ باری دوسرے  ممالک کی ہوگی جنہیں اسرائیلی حکومت کی طرف سے حملوں کا نشانہ بنایا جائیگا۔
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے سعودی عرب کے ساتھ مذاکرات کی دعوت کے دوران اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا کہ مذاکرات کی بنیاد مشترکہ دشمن "اسرائیل" کیخلاف مزاحمت ہے۔

شیخ نعیم قاسم نے یاد دلایا کہ فلسطین میں مزاحمت اس (خطے میں) مزاحمت کا حصہ ہے اور اسرائیلی توسیع پسندی کے خلاف ایک اعلیٰ رکاوٹ ہے۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس کے رہنماؤں پر اسرائیلی حملے کے حوالے سے حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ قطر پر صیہونی حملے کے بعد کا مرحلہ اس سے مختلف ہے جو  صورتحال پہلے تھی۔ شاید شیخ نعیم قاسم کا اندازہ کسی حد تک سعودی عرب کے وژن سے متصادم ہو، کیونکہ سعودی عرب نئے اسلامی اتحاد کے ذریعے اپنی پوزیشن بہتر بنانا چاہتا ہے۔ 

سعودی عرب کے ساتھ بات چیت کے لیے شیخ نعیم قاسم کی کال سعودیہ ایران تعلقات میں ہونے والی مثبت پیش رفت سے جدا نہیں ، جس میں ایرانی صدر مسعود پیزشکیان اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے درمیان ملاقات اور اس کے بعد ایران کی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سیکریٹری علی لاریجانی کا دورہ ریاض شامل ہے۔ قابل ذکر ہے کہ لاریجانی نے کہا ہے کہ ریاض کے دورے کے دوران ایران اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ ان سرگرمیوں کو پہلے مرحلے میں وفود اور گروہوں کی سطح پر اور بعد میں انشاء اللہ اداروں اور محکموں کی سطح پر جاری رکھا جائیگا۔

اس سوال کے جواب میں کہ آیا قطر پر اسرائیل کے حملے کے بعد عرب ممالک اور ان کے حکام کے نقطہ نظر اور حکمت عملی میں کوئی تبدیلی آئی ہے، لاریجانی نے کہا کہ ہاں، یقیناً ہمارے سعودی دوست پہلے ہی اس پیش رفت کے بارے میں نسبتاً واضح نظریہ رکھتے تھے، اور اب یہ مزید واضح ہو گیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ خطے کے مختلف ممالک محسوس کرتے ہیں کہ ایران جس راستے پر پہلے یقین کیساتھ گامزن تھا، اب ایک زیادہ ٹھوس شکل میں خطے میں یہ راستہ طے ہوگا اور کسی کو عدم استحکام پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

ہر صورت میں یہ عرب اور اسلامی ممالک کے درمیان اتحاد کی تشکیل میں ایک غیر معمولی پیش رفت ہے، جن میں سے سبھی مشترکہ طور پر "گریٹر اسرائیل" کے خطرے کو محسوس کرتے ہیں۔ یہ اتحاد اور معاہدے، عرب اور اسلامی ممالک کے درمیان سیاسی اور فرقہ وارانہ تنازعات سے فائدہ اٹھانے والے اسرائیل کے لئے مایوسی کا باعث ہیں۔ تاہم، جب عملی طور پر ان اتحادوں اور معاہدوں کی کامیابی اور انکے نتیجے میں ڈیٹرنس کےاندازے لگانے کیساتھ یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ ابھی تو آغاز ہے، اور ایک مشہور چینی کہاوت ہے کہ ہزار میل کا سفر ایک قدم سے شروع ہوتا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: سعودی عرب کے حزب اللہ کے حملے کے بعد اسرائیل کے کے درمیان کر رہا ہے کے ساتھ اور اس کے لیے ہے اور کہا کہ

پڑھیں:

 سعودی عرب سے تعلقات مضبوط اور تاریخی ہیں‘ برطانوی وزیر خارجہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251104-06-6

 

ریاض (انٹرنیشنل ڈیسک) برطانوی وزیر خارجہ ایویٹ کوپر نے کہا ہے کہ ریاض کے ساتھ لندن کے تعلقات مضبوط اور تاریخی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب میں 1900 سے زیادہ برطانوی کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ ایویٹ کوپران دنوں ریاض کا دورہ کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا ان کا ملک مالی تعاون کے فریم ورک کے اندر سعودی عرب کے ساتھ تعاون کو تیز کرنا چاہتا ہے۔ ایویٹ کوپر نے اس بات کی تصدیق کی کہ ان کا ملک سوڈان میں مذاکرات کی حمایت کرتا ہے جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ جنگ علاقائی امن اور سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ ہے ۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ ان کا ملک سوڈان میں فوری طور پر جنگ بندی کو یقینی بنانے کے لیے شراکت داروں کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ لندن نے سوڈان میں شہریوں کی تکالیف کے ذمہ داروں کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیے فنڈز مختص کرنے کی کوششوں کا اعلان کیا ہے۔اسی سلسلے میں برطانوی وزیر خارجہ ایویٹ کوپر نے کہا کہ ان کا ملک لبنان میں حزب اللہ کو غیر مسلح دیکھنا چاہتا ہے۔ لندن لبنانی حکومت اور لبنانی فوج کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔

 

سعودی وزیر خارجہ اپنی برطانوی ہم منصب سے گفتگو کررہے ہیں

انٹرنیشنل ڈیسک

متعلقہ مضامین

  • آج ایک اور ملک ابراہم معاہدے میں شامل ہونے جا رہا ہے، اسٹیو وٹکوف
  • حزب اللہ کا اسرائیل کیخلاف حقِ دفاع برقرار، مذاکرات مسترد کرنے کا اعلان
  • اسرائیل مذاکرات کی نہیں بلکہ صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے، حزب اللہ لبنان
  • پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی معاہدہ خوش آئند اور وقت کی اہم ضرورت ہے: امیرِ قطر
  • پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی معاہدہ خوش آئند اور وقت کی اہم ضرورت قرار: امیرِ قطر
  • لبنان کیلئے نیتن یاہو کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا
  • سعودی عرب ابراہیمی معاہدے میں شامل ہوگا، ہم حل نکال لیں گے: ٹرمپ کا دعویٰ
  • ایک یمنی کا بے باک تجزیہ
  • سعودی عرب ابراہیمی معاہدے میں شامل ہوگا، ہم حل نکال لیں گے: ٹرمپ
  •  سعودی عرب سے تعلقات مضبوط اور تاریخی ہیں‘ برطانوی وزیر خارجہ