پاکستانی پاسپورٹ کا بے دریغ غیر قانونی اجرا
اشاعت کی تاریخ: 7th, November 2025 GMT
کسی بھی آزاد ،خود مختار ملک کا شہری ہونا ایک بہت بڑی نعمت ہے ۔قونصلیٹ جنرل آف پاکستان، جدہ سعودی عرب میں پوسٹنگ کے دوران رجب کے مہینے کے آخری دنوں میں سعودی وزارتِ خارجہ کی وساطت سے طائف جیل کا ایک خط موصول ہوا۔یہ ایک فہرست تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ اس میں شامل ناموں کے حامل پاکستانی افراد کو منشیات برآمدگی کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی ہے۔
اس فہرست کے ساتھ علیحدہ سے ایک دو سالہ بچے کا نام بھی درج تھا،کہا گیا تھا کہ اس پاکستانی بچے کو پاکستانی قونصلیٹ جنرل جدہ جیل سے لے لے۔اطلاع کے مطابق اس بچے کی والدہ کو بھی موت کی سزا ہوئی تھی لیکن اسے فوراً سزا دینے کے بجائے دو سال انتظار کیا گیا کہ بچہ دو سال کا ہو جائے۔بچے کا دودھ پینے کا دورانیہ مکمل ہو جائے تو پھر اس کو اس کی والدہ سے الگ کر کے والدہ کی موت کی سزا پر عمل درآمد کر دیا جائے۔
ہم نے فوری طور پر پاکستان میں وزارتِ داخلہ،نادرا کے دفتر سے رابطہ کیا اور فہرست میں شامل افراد کی پاکستانی شہریت کی فوری تصدیق چاہی۔یہ 149افراد کی فہرست تھی۔
چھان بین کے نتیجے میں پتہ چلا ان میں سے صرف دو افراد اصلی پاکستانی تھے اور باقی 147افراد پاکستانی پاسپورٹ کے حامل لیکن غیر پاکستانی تھے جنھوں نے پاکستانی پاسپورٹ حاصل کر کے اس پر سفر کیا اور غیر قانونی طور پرمنشیات کا دھندا کر کے پاکستان کے حصے میں بدنامی لکھوائی۔سعودیہ میں روایت یہ ہے کہ جن افراد کے جسموں یا ذاتی سامان سے منشیات برآمد ہوں ان کے لیے کوئی معافی نہیں اور انھیں عام طور پر موت کی سزا ملتی ہے۔سعودی انتظامیہ 15شعبان سے عید الفطر تک موت کی سزا پر عمل در آمد روک دیتی ہے اسی لیے ہمیں رجب کے مہینے میں فہرست بھجوائی گئی تاکہ سفارت خانے کے علم میں ہو کہ ان افراد کی سزاؤں پر 15شعبان سے پہلے عمل در آمد ہو جائے گا۔
افغان طالبان کی پہلی حکومت جب بنی تو اسے پاکستان کی بھرپور حمایت حاصل تھی البتہ دنیا کے دو اور ممالک کو چھوڑ کر کسی بھی ملک کی حکومت نے پہلی طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔طالبان حکومت کو صرف پاکستان،متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے سفارتی پذیرائی بخشی۔ایسے میں افغانستان میں بسنے والوں کے لیے اپنے ملک کے پاسپورٹ پر غیرملکی سفر بالکل ہی ناممکن تھا کیونکہ نہ تو ان کے ملک کی حکومت جائز حکومت متصور تھی اور نہ ہی ان کا پاسپورٹ دنیا کے لیے قابلِ قبول تھا۔
اس صورتِ حال میں تمام افغانوں نے پاکستان کا رخ کیا۔پاکستان کی انتظامیہ نے ناعاقبت اندیش بنتے ہوئے آنکھیں موند لیں اور افغانوں کو دھڑا دھڑ پاکستانی شناختی کارڈ کا غیر قانونی اجرا شروع ہو گیا۔ جب ایک دفعہ شناختی کارڈ جاری ہو گیا تو اس کی بنیاد پر پاکستانی پاسپورٹ بسہولت ایشو ہونے لگا۔افغان نوکریوں اور کاروبار کے لیے پاکستان کے طول و عرض میں پھیل گئے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کو کیمپوں سے باہر نکلنے کی اجازت نہ ہوتی لیکن پاکستان کی انتظامیہ فیاض تھی اور پاکستان کے محکموں میں پیسہ لگانے سے ہر کام کروایا جا سکتا تھا۔افغان پاکستان کا پاسپورٹ حاصل کر کے بڑی تعداد میں پاکستانیوں کے لیے مخصوص ملازمتوں کے کوٹے پر خلیجی ممالک خاص طور پر امارات اور سعودی عرب چلے گئے۔
افغان غیر قانونی طور پر حاصل کردہ پاکستانی پاسپورٹ کی تجدید کرواتے رہے اس لیے افغانوں کے پاس ابھی بھی پاکستانی شناختی کارڈ اور پاکستانی پاسپورٹ ہیں۔وہ پیسے لگا کر اپنے کارڈوں اور پاسپورٹ کی تجدید کرواتے رہتے ہیں۔ان کی وجہ سے پاکستانی سفارت خانوں پر کام کا بوجھ بے تحاشہ ہے۔پاکستانی افسر اور اسٹاف ان کو سروسز دیتے ہیں جس کے بدلے میں پاکستان کو افغانوں سے مفت کی نفرت ملتی ہے کیونکہ ان کا پاکستان اور پاکستانیوں کی جانب رویہ بہت معاندانہ ہے۔طائف کی جیل سے اس دوسالہ بچے کو لیا گیا اور اسے بہت مشکلات جھیل کر پاکستان روانہ کیا گیا۔ایک پاکستانی فیملی کو درخواست کی گئی کہ وہ اپنے گھر میں اس بچے کو اس وقت تک رکھے جب تک اسے پاکستان نہیں بھیج دیا جاتا۔قونصلیٹ جنرل کے افسروں نے اپنے پاس سے رقم اکٹھی کر کے اس کے ٹکٹ کے لیے انتظام کیا۔قونصلیٹ کے ہی ایک ملازم کو فلائٹ میں ساتھ بھیجا گیا تاکہ وہ سفر میں اس بچے کا خیال رکھے اور پاکستانی انتظامیہ کے طفیل کسی این جی او کے حوالے کرے۔اور یہ سب یہ جانتے ہوئے کرنا پڑا کہ اس بچے کے والدین نے غیر قانونی طور پر پاکستان کی شہریت حاصل کر رکھی تھی۔
پاکستان نے صرف افغانوں کو ہی شناختی کارڈ نہیں دئے بلکہ برما کے تمام روہنگیا مسلمانوں کو یہ سہولت دی ہوئی تھی۔ اسی طرح یوگنڈا کے بہت سے باسیوں کے پاس بھی پاکستانی پاسپورٹ ہیں۔یوں ایسے لاکھوں غیر ملکی ہیں جنھوں نے کبھی پاکستان میں رہائش اختیار نہیں کی،بس زندگی میںصرف ایک بار کراچی کا چند دنوں کے لیے چکر لگایا اور شناختی کارڈ و پاسپورٹ بنوا کر یہ جا وہ جا۔ان کے پاسپورٹوں اور شناختی کارڈ پر پتہ بھی بہت عجیب لکھا ہوتا ہے۔
مثلاً یہ لکھا ہوگا نزد فلاں مسجد ناظم آباد کراچی۔آپ ڈھونڈتے رہیں تو وہ مسجد آپ کو نہیں ملے گی۔مکان نمبر اوراسٹریٹ نمبر بھی نہیں ہوگا۔یہ لوگ جہاں بھی کماتے ہیں،وہاں سے اپنا سرمایہ اپنے دیس یا کہیں اور منتقل کرتے ہیں اور سروسز ساری کی ساری پاکستانی مشنوں سے لیتے ہیں۔ یہ کوئی جرم کرتے ہیں تو وہ جرم پاکستان کے کھاتے میں جاتا ہے۔پاکستان کا شناختی کارڈ، شہریت اور پاسپورٹ صرف اور صرف خالص پاکستانیوں کا حق ہے یہ حق کسی دوسرے کو نہیں ملنا چاہیے۔حکومت پاکستان سے درخواست ہے کہ ایسے تمام شناختی کارڈ اور پاسپورٹس منسوخ کرے تاکہ پاکستانی پاسپورٹ کی عزت اور رینکنگ بہتر ہو سکے۔
قارئینِ کرام نیویارک امریکا کا بہت اہم شہر ہے۔ اسی شہر میں اقوامِ متحدہ کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ نیویارک کے میئر کے لیے یوں تو انتخابات ہوتے ہی رہتے ہیں لیکن پہلی بار ایک مسلمان امیدوار میدان میں تھا۔یہ انتخاب جناب ظہران ممدانی نے جیت لیا ہے۔وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حمایتی امیدوار جناب اینڈریو کومو اور ری پبلکن امیدوار کرٹس سلوا کو شکست دے کر جیتے ہیں۔انھوں نے اپنی وکٹری تقریر میں کہا کہ نیویارک میں اب اسلاموفوبیا نہیں چلے گا اور اس اہم شہر کو ایکس پیٹری یاٹس چلائیں گے۔ جناب ظہران ممدانی ایک بوہرہ مسلمان ہیں۔ان کی فیملی کاٹھیاواڑ انڈیا سے مشرقی افریقہ منتقل ہوئی اور وہاں سے امریکا چلی گئی۔خدا کرے کہ وہ اپنے حمایتیوں کے ساتھ مل کر نیویارک جیسے انتہائی اہم شہر کے رہنے والوں کی زندگیوں میں خوبصورت تبدیلی لا کر اپنی جیت کو امر کر دیں۔آمین۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستانی پاسپورٹ شناختی کارڈ اور پاکستان پاکستان کی پاکستان کے موت کی سزا تھا کہ اس بچے کے لیے
پڑھیں:
بھارتی تسلط غیر قانونی، کشمیری جبر کے سامنے نہیں جھکے، حمایت جاری رکھیں گے: وزیراعظم
اسلام آباد (خبر نگار خصوصی) وزیراعظم شہباز شریف نے جد و جہد آزادی میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے ہزاروں کشمیریوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت نے 8 دہائیوں سے تمام بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے برخلاف اپنی افواج کے ذریعہ کشمیریوں پر غیر قانونی تسلط قائم کر رکھا ہے۔ کشمیری عوام بھارتی ظلم و جبر کے سامنے سرنگوں نہیں ہوئے۔ پاکستان کشمیریوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے گا۔ یوم شہدائے جموں پر وزیراعظم نے کہا کہ 6 نومبر 1947ء جموں و کشمیر کی تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جو کشمیریوں کے ذہن پر آج تقریبا 8 دہائیوں کے بعد بھی تازہ زخم کی طرح نقش ہے۔ ہر سال دنیا بھر میں موجود کشمیری اس دن کو بھارتی فوج کی کشمیریوں کی پہلی نسل کشی کی مذمت کے طور پر مناتے ہیں۔ بھارت کی طرف سے کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو مصنوعی طریقہ سے بدلنے کے غیر قانونی حربے آج بھی جاری ہیں، 5 اگست 2019ء کو اٹھائے گئے اقدامات اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ پاکستان آزادی کی اس طویل جد و جہد میں کشمیریوں کی طرف سے جد وجہد آزادی میں قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کرنے بالخصوص نومبر 1947ء میں ہزاروں کشمیریوں کی شہادت کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔ بھارت بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے منافی اپنی مسلح افواج کے ذریعہ کشمیریوں پر اپنے غیر قانونی تسلط اور ناجائز قبضہ کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان اور انسانی حقوق کے تمام علمبردار اس کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ بھارت کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق، حق خود ارادیت اور عالمی قوانین کو مسلسل پامال کر رہا ہے۔ آج کا دن کشمیریوں کی لازوال بہادری اور جد وجہد آزادی کے لئے ان کے غیر متزلزل عزم کا مظہر ہے۔ صدر مملکت زرداری نے اور ہم ان کے انصاف، وقار اور آزادی کی جد وجہد میں ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم بین الاقوامی برادری اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ جموں کے قتل عام کو نسل کشی کے طور پر تسلیم کریں اور جنیوا کنونشنز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت کے غیر قانونی طور پر زیر تسلط جموں و کشمیر کی آبادیاتی ساخت کو تبدیل کرنے کی کوششوں سمیت بین الاقوامی قانون کی مسلسل خلاف ورزیوں کے لیے بھارت کو جوابدہ ٹھہرائیں۔ بابا گرو نانک کے 556 ویں جنم دن پر صدرِ نے سکھ برادری کو دلی مبارکباد دی، صدرِ نے کہا کہ بابا گرو نانک دیو جی امن، رواداری اور مساوات کے پیامبر تھے۔