دوحہ میں صدرِ مملکت آصف علی زرداری اور امیرِ قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی کے درمیان ہونے والی ملاقات میں دوطرفہ تعلقات کے فروغ اور علاقائی تعاون پر اہم گفتگو ہوئی۔ امیرِ قطر نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان عرب دفاعی معاہدے کو خوش آئند اور بروقت اقدام قرار دیا۔

ملاقات میں بلاول بھٹو زرداری اور پاکستانی سفیر بھی شریک تھے۔ صدر زرداری نے امیرِ قطر کو حکومت اور عوامِ پاکستان کی جانب سے نیک تمناؤں کا پیغام پہنچایا۔

قطری ایوانِ امارت سے جاری اعلامیے کے مطابق دونوں رہنماؤں نے برادرانہ اور تاریخی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔ صدر زرداری نے قطر کی جانب سے افغان امن مذاکرات کی میزبانی اور افغانستان سے متعلق مثبت کردار کو سراہا، جب کہ امیرِ قطر نے امید ظاہر کی کہ پاکستان خطے کے موجودہ چیلنجز پر قابو پا کر استحکام کی راہ پر گامزن رہے گا۔

صدر زرداری نے دفاع، دفاعی پیداوار، زراعت اور غذائی تحفظ کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کی تجویز پیش کی جس پر امیرِ قطر نے اتفاق کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو فوری رابطے کی ہدایت کی۔

امیرِ قطر نے پاکستانی کمیونٹی کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے ان کی تعداد میں اضافے کی خواہش ظاہر کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے جو چین، مغرب اور خلیجی ممالک کے ساتھ متوازن تعلقات رکھتا ہے، اور قطر کو پاکستان کی کامیابیوں پر فخر ہے۔

اعلامیے کے مطابق صدر زرداری نے امیرِ قطر کو دورۂ پاکستان کی دعوت دی جسے انہوں نے قبول کرتے ہوئے آئندہ سال کے اوائل میں پاکستان آنے کا اعلان کیا۔

.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پاکستان کھیل

پڑھیں:

امریکا۔بھارت دفاعی معاہدہ: ٹرمپ کی دوہری محبت

حال ہی میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بھارت کے ساتھ دستخط شدہ جامع دفاعی تعاون معاہدہ جنوبی ایشیا کے تزویراتی توازن کے لیے ایک نیا موڑ ثابت ہوا ہے۔ اس معاہدے کے تحت امریکا بھارت کو جدید ترین دفاعی ٹیکنالوجی، انٹیلی جنس شیئرنگ، اور سیٹلائٹ نیویگیشن سسٹم تک رسائی دے گا۔

بظاہر یہ ایک دفاعی شراکت داری ہے، مگر درپردہ اس کے کئی سیاسی و جغرافیائی مضمرات ہیں، جن میں سب سے نمایاں پاکستان کے لیے اس کے اثرات ہیں۔

ایک طرف تعریف، دوسری طرف دباؤ:

دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی دوران ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پاکستٍانی قیادت، خصوصاً آرمی چیف اور وزیراعظم کی ’امن کے قیام اور خطے میں استحکام‘ کی کوششوں کی بھرپور تعریف بھی کی گئی۔ مختلف امریکی بیانات میں پاکستان کو ایک ’اہم اتحادی‘ اور ’دہشتگردی کے خلاف شراکت دار‘ قرار دیا گیا۔

تاہم بین الاقوامی مبصرین اس صورت حال کو ایک ’دوہری محبت‘ (Double Game)  قرار دے رہے ہیں؛ یعنی ایک طرف تعریف اور دوسری طرف دباؤ۔

امریکی سفارتی حلقوں کے مطابق، ٹرمپ کی حالیہ بیانات دراصل پاکستان کو چین کے قریب ہونے سے روکنے اور امریکا کی علاقائی حکمتِ عملی کے مطابق قابو میں رکھنے کی کوشش ہے۔

بھارت کے ساتھ معاہدے کی نوعیت:

معاہدے کے مطابق، بھارت کو امریکی ساختہ جدید ڈرونز، میزائل ڈیفنس سسٹم، اور خلائی معلومات کی فراہمی کی اجازت مل گئی ہے۔ دفاعی ماہرین کے مطابق یہ شراکت داری دراصل چین کے اثرورسوخ کو روکنے کے لیے ہے، مگر اس کے مضر اثرات پاکستان پر براہِ راست پڑ سکتے ہیں، خصوصاً کشمیر اور لداخ کے خطے میں طاقت کا توازن مزید بھارت کے حق میں جا سکتا ہے۔

امریکی پالیسی سازوں کا ماننا ہے کہ بھارت ایک ’علاقائی پولیس مین‘ کے طور پر زیادہ قابلِ اعتماد پارٹنر ہے، جب کہ پاکستان کو وہ اب ایک ’کنٹرولڈ پارٹنر‘ کے طور پر دیکھتے ہیں؛ یعنی محدود اعتماد کے ساتھ مشروط تعلق۔

وفاداری یا دانشمندی؟

پاکستان اس وقت ایک نازک دو راہے پر کھڑا ہے۔ ایک طرف امریکا کے ساتھ دہائیوں پرانا عسکری اور مالی تعاون کا پس منظر ہے، دوسری جانب چین کے ساتھ سی پیک (CPEC) جیسے اسٹریٹجک منصوبے کی وابستگی ہے۔

اگر پاکستان امریکا کے دفاعی دباؤ میں آتا ہے تو چین کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری پیدا ہو سکتی ہے، اور اگر امریکا سے دوری اختیار کرتا ہے تو عالمی مالیاتی و سفارتی دباؤ میں اضافہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اب اپنی خارجہ پالیسی میں خودمختاری اور توازن پیدا کرنا ہوگا۔

پاکستان کے لیے ’ٹرمپ کی تعریف‘ کو سفارتی فریب سمجھا جا رہا ہے، ایک ایسا فریب جو چین مخالف اتحاد میں پاکستان کو گھسیٹنے کی ممکنہ کوشش ہو سکتی ہے۔

بین الاقوامی تجزیہ کاروں کے مطابق ٹرمپ کا بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدہ دراصل چین و پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کی حکمتِ عملی ہے۔ پاکستان کو امریکا سے ’زبانی محبت‘ ضرور ملی، مگر ’عملی فائدہ‘ بھارت کو پہنچا۔

اگر پاکستان نے اس صورت حال میں غیرجانبدارانہ توازن برقرار نہ رکھا تو اسے معاشی و سیکیورٹی دونوں محاذوں پر نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

ریٹائرڈ دفاعی ماہرین کے مطابق، امریکا کے نئے اسٹریٹجک بلاک میں پاکستان کا کردار محدود ہوتا جا رہا ہے، جب کہ بھارت کو مرکزی حیثیت دی جا رہی ہے۔

سیاسی پنڈتوں کے مطابق پاکستان کو اب صرف تعریفوں پر خوش ہونے کے بجائے عملی پالیسیاں وضع کرنا ہوں گی۔ٹرمپ کی سفارت کاری ’محبت کے پیچھے مفاد‘ کی ایک واضح مثال ہے۔

پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنی علاقائی خودمختاری برقرار رکھتے ہوئے امریکا اور چین کے درمیان ایک متوازن کردار ادا کرے، تاکہ کسی بڑے سفارتی جال میں نہ پھنسے۔

وقت آ گیا ہے کہ پاکستان تعریف اور تعاون کے بیچ کے فرق کو سمجھتے ہوئے اپنی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کو ریئل ازم (Realism) پر استوار کرے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عبید الرحمان عباسی

مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کی کامیابیوں پر فخر، دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنائیں گے: امیرِ قطر
  • پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی معاہدہ خوش آئند اور وقت کی اہم ضرورت قرار: امیرِ قطر
  • صدر زرداری کی امیرِ قطر سے ملاقات، پاکستان اور قطر کے تاریخی تعلقات مزید مضبوط بنانے پر اتفاق
  • امیر قطر نے پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی معاہدے کو خوش آئند اور بروقت قرار دیدیا
  • صدر زرداری کی دوحا میں امیرِ قطر سے ملاقات؛ شیخ تمیم کا آئندہ سال دورۂ پاکستان کا اعلان
  • دورہ پاکستان کا اعلان، دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنائیں گے: امیرِ قطر کی صدر زرداری سے گفتگو
  • صدر زرداری کی دوحا میں امیرِ قطر سے ملاقات؛ شیخ تمیم کا آئندہ سال دورۂ پاکستان کا اعلان
  • امریکا۔بھارت دفاعی معاہدہ: ٹرمپ کی دوہری محبت
  • امریکا اور بھارت کے دفاعی معاہدے کی کیا اہمیت ہے؟