تورا بورا بھیجنے کی دھمکی
اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے افغان طالبان کو واپس ’تورا بورا‘ بھیجنے کی وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ کے خواہاں طالبان عناصر، نے ہمارے عزم و حوصلے کا غلط اندازہ لگایا، اگر وہ لڑائی پر آمادہ ہیں تو دنیا ان کی دھمکیوں کو محض ایک تماشا سمجھے گی کسی بھی دہشت گردانہ حملے یا خود کش دھماکے کا مزہ چکھا دیں گے۔ ترکیہ کے شہر استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے مابین ہونے والے مذاکرات کے بے نتیجہ ختم ہونے کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر جاری کیے گئے اپنے ایک بیان میں وزیر دفاع خواجہ محمدآصف کا موقف تھا کہ طالبان حکومت برادر ممالک سے مسلسل مذاکرات کے لیے درخواست کر رہی تھی چنانچہ برادر ممالک کی درخواست پر پاکستان نے امن کی خاطر افغان طالبان سے مذاکرات کی پیشکش قبول کر لی مگر بعض افغان حکام کے زہریلے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان حکمران انتشار اور دھوکا دہی کے حربے استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستان یہ واضح کرتا ہے کہ طالبان حکومت کو ختم کرنے یا انہیں غاروں میں چھپنے پر مجبور کرنے کے لیے ہمیں اپنی پوری طاقت استعمال کرنے کی ضرورت ہرگز نہیں پڑے گی۔ اگر ضرورت پڑی تو ہم انہیں تورا بورا جیسے مقامات پر شکست دے کر لوگوں کے لیے نشان عبرت بنا سکتے ہیں، جو اقوام عالم کے لیے دلچسپ منظر ہو گا طالبان صرف اپنی قابض حکمرانی اور جنگی معیشت کو بچانے کے لیے افغانستان کو ایک اور تنازع میں دھکیل رہے ہیں اور اپنی کمزوری اور جنگی دعوئوں کی حقیقت کو جانتے ہوئے طبل جنگ بجا کر بظاہر افغان عوام میں اپنی بگڑتی ہوئی ساکھ بچانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں اگر طالبان دوبارہ افغانستان اور اس کے معصوم عوام کو تباہ کرنے پر بضد ہیں تو پھر جو بھی ہوتا ہے وہ ہو… وزیر دفاع نے اس بیان میں افغانستان کے ’سلطنتوں کے قبرستان‘ ہونے کے بیانیہ کی بھی ایک نئی تعبیر پیش کی جو ماضی میں پاکستان کا موقف کبھی نہیں رہی! قبل ازیں قطر کے دارالحکومت دوحا میں ترکی اور قطر کی مصالحتی کوششوں کے نتیجے میں پاکستان اور افغانستان کے مابین جنگ بندی کا معاہدہ 19 اکتوبر کو طے پایا تھا جس کے بعد اس معاہدے پر عمل درآمد سے متعلق امور کو حتمی شکل دینے کے لیے 25 سے 28 اکتوبر تک ترکیہ کے شہر استنبول میں دونوں ملکوں کے مابین چار روزہ مذاکرات کا دور ہوا پچپن گھنٹے تک جاری رہنے والے ان مذاکرات میں فریقین میں اتفاق رائے اور حتمی معاہدہ نہ ہو سکا چنانچہ پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے مذاکرات کی ناکامی کا باقاعدہ اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے افغان طالبان سے بھارتی حمایت یافتہ فتنہ، الخوارج اور فتنہ الہندوستان کی سرحد پار دہشت گردی پر بارہا احتجاج کیا اور دوحا معاہدہ میں کیے گئے تحریری وعدوں پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا مگر افغان طالبان کی جانب سے دہشت گردوں کی حمایت رکوانے کی تمام پاکستانی کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔ طالبان قیادت افغان عوام کو غیر ضروری جنگ میں دھکیلنے پر بضد ہے، پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے عوام کے امن و خوش حالی کے لیے قربانیاں دی ہیں مگر افغان طالبان نے پاکستان کے نقصانات سے بے نیازی دکھائی ہے۔ چار برس گزرنے کے بعد اب پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے تاہم ترکیہ اور قطر کے برادر مسلم ممالک کی درخواست پر پاکستان نے امن کو ایک اور موقع دیا۔ دوحا اور استنبول میں مذاکرات کا واحد ایجنڈا دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کو روکنا تھا مگر حیران کن طور پر طالبان اس معاملے میں ٹال مٹول سے کام لیتے رہے اور حقائق کو تسلیم کرنے کے بجائے کبھی کہتے کہ ٹی ٹی پی اور دہشت گردی پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے، افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہو رہی اور کبھی یہ مشورہ دیتے کہ پاکستان براہ راست ٹی ٹی پی سے گفت و شنید کرے مگر پاکستان نے طالبان کے اس موقف اور مشورے کو مسترد کر دیا اور مطالبہ کیا کہ ٹی ٹی پی چونکہ نہ صرف افغان سرزمین سے اپنی سرگرمیاں منظم کر رہی ہے بلکہ اسے وہاں سے سہولت کاری بھی حاصل ہے اس لیے اس کی سرپرستی ختم کی جائے اور افغان انتظامیہ ان کے خلاف کارروائی کرے۔ طالبان اس بات کی ضمانت دیں کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔ افغان حکمران ایسی کوئی تحریری ضمانت نہیں دیں گے تو پاکستان دہشت گرد عناصر کے افغانستان میں موجود ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کرے گا۔ مذاکرات کے دوران پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس ثبوت اور ناقابل تردید شواہد بھی پیش کیے جنہیں افغان مذاکراتی وزراء نے تسلیم بھی کیا۔ مگر ضمانت دینے کا مطالبہ تسلیم کرنے کے بجائے پاکستان پر الزام تراشی کی گئی اور ایسے معاملات میں ضمانتیں مانگی گئیں جن کا پاکستان سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ یوں چار روز تک جاری رہنے والا مذاکراتی عمل بے نتیجہ ختم ہو گیا۔ کوئی ذی شعور انسان اس طرز عمل کی حمایت نہیں کر سکتا جس کا مظاہرہ پاکستان کے وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ کے بقول افغان طالبان کی طرف سے کیا جا رہا ہے تاہم اس معاملہ میں کوئی حتمی فیصلہ کرنے سے قبل فریقین کو اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ حملہ جس جانب سے بھی ہو، اس کا نقصان بہرحال مسلمانوں ہی کو پہنچے گا جب کہ پاکستان اور افغانستان دونوں کے حکمران اپنی اپنی حدود میں قرآن و سنت کی بالادستی پر مبنی اسلامی شرعی نظام کی حکمرانی کے دعویدار ہیں اور قرآن حکیم میں تو واضح الفاظ میں فرمایا گیا ہے کہ ’’محمدؐ، اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں‘‘۔ شاعر نے اس حکم کو ان الفاظ میں شعر کا جامہ پہنایا ہے:
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
قرآن دو ٹوک الفاظ میں مسلمانوں اور رسول کریمؐ کے امتیوں کا یہ وصف بیان کرتا ہے کہ حق و باطل کا معرکہ ہو تو ان کا رویہ نہایت سخت ہوتا ہے تاہم جب معاملہ آپس کا ہو تو وہ عفو و درگزر کا رویہ ہوتا ہے تاہم جب معاملہ آپس کا ہو تو وہ عفو و در گزر کے پیکر اور ایک دوسرے پر رحم کرنے والے ہوتے ہیں مگر یہاں معاملہ عجیب ہے کہ افغانستان اور پاکستان دونوں مسلمانوں کے ازلی دشمن بھارت کے بارے میں تو دوستانہ اور نرمی پر مبنی طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں مگر آپس میں سختی برتتے ہوئے مسلمان بھائیوں کا خون بہانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ بہتر ہو گا فریقین قرآن و سنت کی روشنی میں اپنے اپنے طرز عمل پر از سر نو غور کریں اور امت مسلمہ اور دونوں ملکوں میں آباد مسلمان بھائیوں کے مفاد میں افہام و تفہیم سے معاملات طے کریں اور خونریزی سے ہر صورت گریز کیا جائے۔ جہاں تک خواجہ آصف کا تعلق ہے وہ جارحانہ طرز عمل کا مظاہرہ کرنے اور غیر ذمے دارانہ بیانات دینے کے عادی ہیں انہیں افغان بھائیوں کو تورا بورا کا طعنہ اور دھمکی دینے سے قبل سو بار سوچنا چاہیے تھا۔ ان کے تحریک انصاف کی خاتون رکن اسمبلی کے بارے میں ’’ٹریکٹر ٹرالی‘‘ والے اسمبلی میں دیے گئے بیان پر بھی پوری قوم نے شدت سے برا منایا تھا مگر وہ اپنا رویہ بدلنے پر آمادہ نہیں ہیں ابھی چند روز قبل جب پاک افغان مذاکرات جاری تھے انہوں نے افغانستان کو کھلی جنگ کی دھمکی دے کر مذاکرات کو سبوتاژ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ انہیں احساس ہونا چاہیے کہ وہ ایک اہم اسلامی مملکت، جو جوہری صلاحیت کی بھی حامل ہے، کے ایک انتہائی ذمے داریوں کے حامل منصب پر فائز ہیں۔ ان کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ اپنا وزن رکھتا ہے اس لیے زبان کھولتے ہوئے انہیں کسی بھی صورت احتیاط کا دامن چھوڑنا نہیں چاہیے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: افغان سرزمین افغانستان کے افغان طالبان پاکستان کے پاکستان نے اور افغان تورا بورا ہے تاہم ہوتا ہے کے خلاف کے لیے
پڑھیں:
استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے مابین مذاکرات ناکام ہو گئے
 وزیر اطلاعات نے افغان طالبان حکومت اور پاکستان کے درمیان سرحدی کشیدگی کے بعد ہونے والے مذکرات کی ناکامی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ استنبول میں ہونے والی بات چیت میں بھی قابل حل عمل نہیں نکل سکا۔ اسلام ٹائمز۔  پاکستان اور افغانستان کے درمیان استنبول میں ہونے والے مذاکرات ناکام ہو گئے۔ وزیر اطلاعات نے افغان طالبان حکومت اور پاکستان کے درمیان سرحدی کشیدگی کے بعد ہونے والے مذکرات کی ناکامی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ استنبول میں ہونے والی بات چیت میں بھی قابل حل عمل نہیں نکل سکا۔ افغانستان کی عبوری حکومت کی جانب سے ان مذاکرات کے حوالے سے تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ وزیر اطلاعات نے بدھ کی صبح سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کہا کہ پاکستان نے بھارتی حمایت یافتہ فتنہ الخوارج اور بھارتی پیروکار فتنہ الہندوستان کی جانب سے مسلسل سرحد پار دہشت گردی کے حوالے سے افغان طالبان سے بارہا رابطہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ افغان طالبان کے حکمرانوں سے کئی بار کہا گیا ہے کہ وہ دوحہ معاہدے میں پاکستان اور بین الاقوامی کمیونٹی کے لیے کیے گئے اپنے تحریری وعدے پورے کریں، تاہم افغان طالبان کی حکومت کے ساتھ پاکستان کی کاوشیں رائیگاں ثابت ہوئیں، کیوں کہ انہوں نے بدستور پاکستان مخالف دہشت گردوں کی حمایت جاری رکھی۔
 
 انھوں نے کہا کہ ان مذاکرات میں ایک نکاتی ایجنڈے یعنی افغان طالبان حکومت کی طرف سے افغان سرزمین کو تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ لبریشن آرمی جیسی دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے تربیت گاہ کے طور پر استعمال کرنے سے روکنے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کے معاملے پر بات کی گئی۔ وزیر اطلاعات کے مطابق مذاکرات کے دوسرے دور میں افغان طالبان کے وفد نے شدت پسند تنظیموں اور دہشت گردوں کے خلاف قابل اعتماد اور فیصلہ کن کارروائی کے لیے پاکستان کے منطقی اور جائز مطالبے سے بارہا اتفاق کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ پاکستان کی جانب سے اس بارے میں ناقابل تردید شواہد فراہم کیے گئے جن کا اعتراف افغان طالبان اور مذاکرات کروانے والے میزبان ممالک نے کیا تاہم افغان فریق نے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی اور وہ اس بنیادی مسئلے سے انحراف کرتا رہا جس پر بات چیت کا عمل شروع کیا گیا تھا۔
 عطا تارڑ نے افغان طالبان پر ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے الزام تراشی، ٹال مٹول اور چالبازی کا سہارا لینے کے الزامات عائد کیے اور کہا کہ اس وجہ سے بات چیت کوئی قابل عمل حل نکالنے میں ناکام رہی۔ 
 
 ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب سے افغان طالبان نے کابل کا کنٹرول سنبھالا ہے پاکستان نے بارہا ان سے شدت پسند گروہوں کی طرف سے مسلسل سرحد پار دہشت گردی کے حوالے سے بات چیت کی ہے اور بار بار یہ کہا ہے کہ طالبان حکومت دوحہ معاہدے میں پاکستان اور عالمی برادری سے کیے گئے تحریری وعدوں کو پورا کرے تاہم افغان طالبان حکومت کی جانب سے پاکستان مخالف دہشت گردوں کی بے دریغ حمایت کی وجہ سے پاکستان کی کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چار سال تک بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان برداشت کرنے کے بعد پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور عوام کی سلامتی پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے اس لیے پاکستان اپنے عوام کو دہشت گردی کی لعنت سے بچانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرتا رہے گا اور دہشت گردوں، ان کی پناہ گاہوں، ان کے سرپرستوں اور معاونین کو ختم کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے گی۔
 عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ طالبان کی حکومت افغانستان کے عوام کے تئیں کوئی ذمہ داری نہیں رکھتی اور جنگی معیشت پر پروان چڑھتی ہے، اس لیے وہ افغان عوام کو ایک غیر ضروری جنگ میں گھسیٹنا چاہتی ہے جبکہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے عوام کے لیے امن اور خوشحالی کی خواہش کی ہے اور اسی جذبے کے تحت پاکستان نے افغان طالبان حکومت کے ساتھ بارہا مذاکرات کیے لیکن بدقسمتی سے وہ ہمیشہ پاکستان کے نقصانات سے لاتعلق رہے۔
 
 وزیر اطلاعات نے بات چیت میں سہولت کاری پر قطر اور ترکی کا شکریہ بھی ادا کیا اور کہا کہ پاکستان خطے کی خوشحالی اور سلامتی اور مسئلے کے پرامن حل کے لیے مخلصانہ کوششوں پر دونوں ممالک اور دیگر دوست ممالک کی حکومتوں کا شکر گزار ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین استبول میں ہونے والے مذاکرات 25 اکتوبر سے شروع ہوئے تھے۔ یہ دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کا دوسرا دور تھا۔خیال رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین شدید سرحدی جھڑپوں کے بعد دونوں ممالک نے عارضی طور جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا اور پھر مذاکرات کے پہلا دور قطر میں ہوا تھا جس میں دونوں ممالک نے جنگ بندی توسیع اور دیرپا امن کے قیام کے لیے دوسرے مرحلے کے مذاکرات کا اعلان کیا تھا۔ تاہم استنبول میں چار روزہ مذاکرات کے بعد منگل کو رات گئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر ایک طویل بیان میں وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ امن کو ایک موقع دینے کی کوشش میں، قطر اور ترکی کی درخواست پر، پاکستان نے افغان طالبان حکومت کے ساتھ پہلے دوحہ اور پھر استنبول میں مذاکرات کیے لیکن ان مذاکرات میں کوئی قابل عمل حل نہیں نکل سکا۔ افغان طالبان کی جانب سے ابھی تک کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔ 
 پاکستانی نژاد آسٹریلوی شہری پر مبینہ پولیس تشدد، تحقیقات جاری
پاکستانی نژاد آسٹریلوی شہری پر مبینہ پولیس تشدد، تحقیقات جاری