Express News:
2025-12-14@21:56:40 GMT

وزیراعلیٰ کے پی کو پنڈی پولیس نے اڈیالہ جانے سے روک دیا

اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT

راولپنڈی:

وزیراعلیٰ کے پی سہیل آفریدی عمران خان سے ملنے اڈیالہ جیل پہنچے جہاں انہیں راولپنڈی پولیس نے داہگل ناکے پر روک لیا۔

روکے جانے پر میڈیا سے گفتگو میں انہوں ںے کہا کہ بانی میرا لیڈر ہے اور لیڈر سے ملاقات میرا حق ہے، اب میں ادھر آگیا ہوں دیکھتا ہوں اجازت ملتی ہے کہ نہیں۔

سہیل آفریدی نے کہا کہ بانی کے احکامات پر کابینہ کی تشکیل کرلی ہے، جلد اعلان ہوگا، پہلے مرحلے میں کابینہ 10 سے زائد ممبران پر مشتمل ہوگی، ملاقات کے لیے کوشش کر رہا ہوں اور آئینی و قانونی راستہ اختیار کر رہا ہوں۔

انہوں ںے کہا کہ مجھے روکنے والوں کو پتا ہوگا کہ ان کو مجھ سے کیا خوف ہے، ہائیکورٹ کے تحریری آرڈر ملنے پر توہین عدالت کی کارروائی میں جائیں گے، میں اپنے قائد سے دو سال سے نہیں ملا، میں دیکھتا ہوں مجھے ملنے سے کتنا روکتے ہیں۔

صحافی نے سوال کیا کہ رانا ثنا اللہ آپ پر بہت تنقید کر رہے ہیں اس پر انہوں ںے کہا کہ میں بہت مصروف ہوں سوشل میڈیا دیکھنے کا وقت نہیں، تنقید اسی نے کرنی ہے اسی لیے اس کو رکھا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مقدمات کا سامنا کرنے والے کارکنوں کو شکایات تھیں، ان کارکنوں سے ملاقات ہوگئی ہے، ان کو کل بلایا تھا، ان سے مکمل تعاون کریں گے۔

انہوں ںے کہا کہ مارٹر گولے اور ڈرون گرنے سے 21 ،21 لوگ شہید ہورہے ہیں، جن کے گھروں میں شہادتیں ہورہی ہیں وہی درد سمجھتے ہیں، فوج میری ہے جو کل چھ  اہلکار شہید  ہوئے ہیں ان کے جنازے پر گیا ہوں، انھیں کندھا دیا، کل میرے کندھے پر 80 ہزار شہدا کا بوجھ تھا، کے پی کے نے دہشت گردی کے خلاف 80 ہزار جانوں کا نذرانہ دیا ہے، فوج اور پولیس کے شہدا کی قربانیوں کی قدر کی جائے، پاکستان میں جو غلط پالیسی ہوگی اس کے خلاف ہوں۔

صحافی نے پوچھا کہ افغانستان سے مسلسل دہشت گردی ہورہی ہے، شہادتیں ہورہی ہیں پی ٹی آئی کی ہمدردیاں افغان باشندوں کے ساتھ کیوں ہیں؟ اس پر وزیراعلیٰ نے کہا کہ میری ہمدردی صرف اور صرف پاکستان کے ساتھ ہیں، اگر ایک پالیسی پاکستان میں بنتی ہے تو فیصلہ سازوں کو چاہیے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیں۔

صحافی نے پوچھا کہ آپ کو اعتماد میں لینے کے لیے بلوایا گیا این ایف سی ایوارڈ میں بھی بلوایا گیا آپ نہیں گئے؟ اس پر وزیراعلیٰ نے کہا کہ مجھے کسی نے نہیں بلوایا اور نہ این ایف سی ایوارڈ کے لیے بلوایا گیا، میرے سے پہلے والے سی ایم بھی این ایف سی ایوارڈ میں مدعو کرنے کے لیے کہتے رہے، اگست میں وعدہ کیا گیا تھا کہ این ایف سی ایوارڈ ہوگا،  نومبر میں اگر این ایف سی کے حوالے سے میٹنگ ہوئی تو ضرور جاؤں گا اور اپنے صوبے کا حق مانگوں گا۔

بلٹ پروف گاڑیوں پر انہوں ںے کہا کہ پرانی اور کباڑ کی گاڑیاں نہیں چاہیئں، جو کے پی کے کا حق ہے وہ ڈنکے کی چوٹ پر لوں گا، کسی کی بھیک نہیں چاہیے۔

صحافی نے پوچھا کہ آپ کا راستہ روکنے کے لیے گورنر کی تبدیلی کی خبریں چل رہی ہیں اس پر وزیراعلیٰ نے کہا کہ جو بھی آئے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا، میں عوامی مینڈیٹ سے آیا ہوں اور عوامی مینڈیٹ سے ہی رہوں گا۔ 

خیبرپختونخوا سے اب تک کتنے افغان باشندوں کو واپس بھیجا گیا اس سوال پر سہیل آفریدی نے کہا کہ آٹھ لاکھ افغان باشندوں کو واپس بھیجا گیا ہے اور باقی کا انخلا بھی عزت اور وقار کے ساتھ جاری ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ایف سی ایوارڈ انہوں ںے کہا کہ نے کہا کہ صحافی نے کے لیے

پڑھیں:

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے بیان پر وفاقی وزیر کا سخت ردعمل

اسلام آباد:

وفاقی وزیر اور پاکستان مسلم لیگ (ن) خیبرپختونخوا امیر مقام نے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کے بیان پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ آزادی یا موت جیسے نعرے آئین اور قانون کے منافی ہیں اور ریاست کو بلیک میل کرنے کی سیاست اب نہیں چلے گی۔

وفاقی وزیر امیر مقام نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی کوہاٹ جلسے میں کی گئی تقریر پر ردعمل میں کہا کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی تقریر سن کر یوں محسوس ہوا جیسے کوئی شخص خواب کی دنیا میں حقائق سے دور کھڑے ہو کر خطاب کر رہا ہو۔

انہوں نے کہا کہ آج کوہاٹ خیبرپختونخوا میں ایک بار پھر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مسترد کر دیا گیا، عوام کو اب احساس ہوا کہ یہ لوگ صرف دعوے کرتے ہیں لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کرتے، وزیراعلیٰ کے دعوے اور حقیقت میں واضح تضاد ہے اور تقریر ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش ہے۔

امیر مقام نے کہا کہ نوجوانوں کو ایک بار پھر لاشوں اور کفن کی سیاست کی طرف دھکیلا جا رہا ہے، 2014، 2018 اور 2022 میں سڑکوں کی سیاست نے ملک کو نقصان پہنچایا، ریاست کو بلیک میل کرنے کی سیاست اب نہیں چلے گی۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ مریم نواز آئینی اور منتخب وزیراعلیٰ ہیں، ذاتی حملے ناکامی کا ثبوت ہیں، پنجاب پولیس اور صحت کے شعبے میں اصلاحات مریم نواز کی اولین ترجیح ہے جبکہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اپنے صوبے کے اسپتالوں اور صحت بحران پر بات سے گریزاں ہیں-

انہوں نے کہا کہ عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کو خط لکھ کر ملک کو ڈیفالٹ کے قریب کس نے پہنچایا؟ 2018 سے 2022 تک تاریخی قرضے اور معاشی تباہی پی ٹی آئی کی نالائقی کا نتیجہ ہے، زیرو کرپشن کے دعوؤں کے باوجود بی آر ٹی اور صحت کارڈ اسکینڈلز سامنے آئے اور بلین ٹری، گندم اور دیگر اسکینڈلز نیب اور عدالتی رپورٹس میں موجود ہیں-

ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا میں منصوبوں کے اعلانات بہت ہوئے ہیں لیکن تکمیل نہ ہونے کے برابر ہے، پشاور، سوات اور قبائلی اضلاع کے اسپتالوں کی حالت زار ان کی ترجیحات ظاہر کرتی ہے، خیبرپختونخوا میں بے روزگاری عروج پر ہے اور نوجوان احتجاج پر مجبور ہیں، سب کچھ شفاف ہے تو نوجوان دربدر کیوں ہیں۔

امیر مقام نے کہا کہ آزادی یا موت جیسے نعرے آئین اور قانون کے منافی ہیں، سیاست آئین اور پارلیمان سے چلتی ہے، تشدد کے نعروں سے نہیں، اداروں پر حملے اپنی ناکامیوں کا ملبہ دوسروں پر ڈالنے کی کوشش ہیں، میڈیا کو گالیاں دینا اور صحافیوں کو غدار کہنا آمریت کی علامت ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر نے کہا کہ آزاد میڈیا جمہوریت کی بنیاد ہے، اسے دبایا نہیں جا سکتا، وزیراعلیٰ کی تقریر کارکردگی نہیں بلکہ خوف اور نفرت کا مجموعہ ہے، عوام نعروں اور دھمکیوں سے آگے بڑھ چکے ہیں، پاکستان کو استحکام، روزگار اور قانون کی حکمرانی چاہیے اور ملک کو استحکام صرف مسلم لیگ (ن) ہی دے سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بدین : سوئی انتظامیہ کی نااہلی، شہر کی بڑی آبادی گیس سے محروم
  • وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے بیان پر وفاقی وزیر کا سخت ردعمل
  • ہمارے محافظ ہی ہمارے قاتل بنے ہوئے ہیں ،مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالاگیا،وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا
  • اس بار ڈی چوک سے آزادی یا کفن میں واپس آئینگے، سہیل آفریدی
  • اس بار ڈی چوک سے آزادی لیکر یا کفن میں واپس آئیں گے، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا
  • بھارت،بیٹے نے اسرائیل جانے کے لیے باپ کو قتل کردیا
  • اسلام آباد اور پنڈی میں شہریوں پر انسانیت سوز تشدد کرنے والے ملزم کی مقابلے میں ہلاکت کی اطلاع
  • سنگیتا نے صائمہ نور کو ہراساں اور گھنٹوں یرغمال بنائے جانے کی تفصیلات بیان کردیں
  • بانی پی ٹی آئی اور اہلیہ کو ناحق قید اور مسلسل تنہائی میں رکھا جا رہا ہے: سہیل آفریدی
  • جیل میں سینڈوچ بھی مجھ تک نہیں پہنچے، نہ جانے کون کھا گیا؟ ڈکی بھائی