پاکستانی نژاد آسٹریلوی شہری پر مبینہ پولیس تشدد، تحقیقات جاری
اشاعت کی تاریخ: 25th, October 2025 GMT
لاہور میں ایک پاکستانی نژاد آسٹریلوی شہری خواجہ ذیشان نے پولیس پر مبینہ تشدد کا الزام عائد کیا ہے۔ متاثرہ شہری کے مطابق اس کے چہرے، ہاتھوں اور ٹانگوں پر تشدد کے واضح نشانات موجود ہیں۔
خواجہ ذیشان نے تھانہ ٹبی سٹی میں درخواست دی ہے کہ 24 اکتوبر کو علاقے کے تین پولیس اہلکاروں نے انہیں روکا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔ شہری نے بتایا کہ مارپیٹ کے نتیجے میں ان کا چہرہ لہولہان اور ہاتھ و ٹانگیں زخمی ہو گئیں۔
درخواست میں مزید الزام لگایا گیا کہ پولیس اہلکاروں نے کہا، “تمہیں رکنے کا اشارہ دیا گیا تھا، تم کیوں نہیں رکے؟” بعد ازاں اہلکاروں نے خواجہ ذیشان کو تھانہ بھاٹی گیٹ لے جا کر ان کا موبائل فون اور گاڑی کی چابیاں چھین لیں۔ بعد میں متاثرہ کی بھانجی اور اس کے شوہر نے تھانے پہنچ کر انہیں آزاد کرایا۔
خواجہ ذیشان نے یہ بھی الزام لگایا کہ پولیس اہلکاروں نے گاڑی سے 3 ہزار آسٹریلوی ڈالر بھی لے لیے۔
دوسری جانب ایس پی سٹی بلال احمد نے بتایا کہ واقعے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں اور ذمہ داروں کے خلاف مناسب کارروائی کی جائے گی۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: اہلکاروں نے خواجہ ذیشان
پڑھیں:
بھارت میں خاتون ڈاکٹر نے پولیس اہلکار کی مبینہ زیادتی پر خودکشی کرلی
بھارت کی ریاست مہاراشٹر کے ضلع سَتارا میں سرکاری اسپتال کی ایک خاتون ڈاکٹر نے مبینہ طور پر جمعرات کی رات ہوٹل کے کمرے میں خودکشی کر لی۔
بھارتی میڈیا کے مطابق ڈاکٹر نے اپنی ہتھیلی پر ایک نوٹ لکھ کر ایک پولیس افسر پر الزام عائد کیا کہ وہ گزشتہ 5 ماہ سے خاتون کو جنسی زیادتی اور ہراسانی کا نشانہ بنا رہا تھا۔
خاتون نے الزام لگایا کہ پولیس افسر گوپال نے گزشتہ 5 ماہ کے دوران متعدد بار اس کا ریپ کیا، جبکہ ایک اور شخص پرشانت بانکر پر ذہنی اذیت دینے کا الزام لگایا۔
واقعہ سامنے آنے کے بعد پولیس نے خاتون ڈاکٹر کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھجوا دیا ہے اور ڈاکٹر کی ہتھیلی پر لکھے نوٹ کا فرانزک تجزیہ شروع کر دیا ہے۔ دوسری جانب پولیس افسر کو معطل کر دیا گیا ہے اور دونوں ملزمان کی گرفتاری کے لیے کارروائی جاری ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق خاتون ڈاکٹر کے کزن نے الزام عائد کیا ہے کہ ڈاکٹر پر طویل عرصے سے پولیس کا دباؤ تھا اور اسے غلط پوسٹ مارٹم رپورٹس تیار کرنے پر مجبور کیا جا رہا تھا۔
خاتون ڈاکٹر کے کزن کا کہنا تھا کہ ’گزشتہ سال اسے پولیس اور سیاست دانوں کی طرف سے شدید دباؤ کا سامنا تھا۔ اسے جھوٹی پوسٹ مارٹم رپورٹس بنانے پر مجبور کیا جا رہا تھا۔ اس نے ڈی سی پی کو شکایت کے لیے خط بھی لکھا تھا لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی‘۔