WE News:
2025-11-05@08:51:45 GMT

امریکا۔بھارت دفاعی معاہدہ: ٹرمپ کی دوہری محبت

اشاعت کی تاریخ: 5th, November 2025 GMT

امریکا۔بھارت دفاعی معاہدہ: ٹرمپ کی دوہری محبت

حال ہی میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بھارت کے ساتھ دستخط شدہ جامع دفاعی تعاون معاہدہ جنوبی ایشیا کے تزویراتی توازن کے لیے ایک نیا موڑ ثابت ہوا ہے۔ اس معاہدے کے تحت امریکا بھارت کو جدید ترین دفاعی ٹیکنالوجی، انٹیلی جنس شیئرنگ، اور سیٹلائٹ نیویگیشن سسٹم تک رسائی دے گا۔

بظاہر یہ ایک دفاعی شراکت داری ہے، مگر درپردہ اس کے کئی سیاسی و جغرافیائی مضمرات ہیں، جن میں سب سے نمایاں پاکستان کے لیے اس کے اثرات ہیں۔

ایک طرف تعریف، دوسری طرف دباؤ:

دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی دوران ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پاکستٍانی قیادت، خصوصاً آرمی چیف اور وزیراعظم کی ’امن کے قیام اور خطے میں استحکام‘ کی کوششوں کی بھرپور تعریف بھی کی گئی۔ مختلف امریکی بیانات میں پاکستان کو ایک ’اہم اتحادی‘ اور ’دہشتگردی کے خلاف شراکت دار‘ قرار دیا گیا۔

تاہم بین الاقوامی مبصرین اس صورت حال کو ایک ’دوہری محبت‘ (Double Game)  قرار دے رہے ہیں؛ یعنی ایک طرف تعریف اور دوسری طرف دباؤ۔

امریکی سفارتی حلقوں کے مطابق، ٹرمپ کی حالیہ بیانات دراصل پاکستان کو چین کے قریب ہونے سے روکنے اور امریکا کی علاقائی حکمتِ عملی کے مطابق قابو میں رکھنے کی کوشش ہے۔

بھارت کے ساتھ معاہدے کی نوعیت:

معاہدے کے مطابق، بھارت کو امریکی ساختہ جدید ڈرونز، میزائل ڈیفنس سسٹم، اور خلائی معلومات کی فراہمی کی اجازت مل گئی ہے۔ دفاعی ماہرین کے مطابق یہ شراکت داری دراصل چین کے اثرورسوخ کو روکنے کے لیے ہے، مگر اس کے مضر اثرات پاکستان پر براہِ راست پڑ سکتے ہیں، خصوصاً کشمیر اور لداخ کے خطے میں طاقت کا توازن مزید بھارت کے حق میں جا سکتا ہے۔

امریکی پالیسی سازوں کا ماننا ہے کہ بھارت ایک ’علاقائی پولیس مین‘ کے طور پر زیادہ قابلِ اعتماد پارٹنر ہے، جب کہ پاکستان کو وہ اب ایک ’کنٹرولڈ پارٹنر‘ کے طور پر دیکھتے ہیں؛ یعنی محدود اعتماد کے ساتھ مشروط تعلق۔

وفاداری یا دانشمندی؟

پاکستان اس وقت ایک نازک دو راہے پر کھڑا ہے۔ ایک طرف امریکا کے ساتھ دہائیوں پرانا عسکری اور مالی تعاون کا پس منظر ہے، دوسری جانب چین کے ساتھ سی پیک (CPEC) جیسے اسٹریٹجک منصوبے کی وابستگی ہے۔

اگر پاکستان امریکا کے دفاعی دباؤ میں آتا ہے تو چین کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری پیدا ہو سکتی ہے، اور اگر امریکا سے دوری اختیار کرتا ہے تو عالمی مالیاتی و سفارتی دباؤ میں اضافہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اب اپنی خارجہ پالیسی میں خودمختاری اور توازن پیدا کرنا ہوگا۔

پاکستان کے لیے ’ٹرمپ کی تعریف‘ کو سفارتی فریب سمجھا جا رہا ہے، ایک ایسا فریب جو چین مخالف اتحاد میں پاکستان کو گھسیٹنے کی ممکنہ کوشش ہو سکتی ہے۔

بین الاقوامی تجزیہ کاروں کے مطابق ٹرمپ کا بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدہ دراصل چین و پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کی حکمتِ عملی ہے۔ پاکستان کو امریکا سے ’زبانی محبت‘ ضرور ملی، مگر ’عملی فائدہ‘ بھارت کو پہنچا۔

اگر پاکستان نے اس صورت حال میں غیرجانبدارانہ توازن برقرار نہ رکھا تو اسے معاشی و سیکیورٹی دونوں محاذوں پر نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

ریٹائرڈ دفاعی ماہرین کے مطابق، امریکا کے نئے اسٹریٹجک بلاک میں پاکستان کا کردار محدود ہوتا جا رہا ہے، جب کہ بھارت کو مرکزی حیثیت دی جا رہی ہے۔

سیاسی پنڈتوں کے مطابق پاکستان کو اب صرف تعریفوں پر خوش ہونے کے بجائے عملی پالیسیاں وضع کرنا ہوں گی۔ٹرمپ کی سفارت کاری ’محبت کے پیچھے مفاد‘ کی ایک واضح مثال ہے۔

پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنی علاقائی خودمختاری برقرار رکھتے ہوئے امریکا اور چین کے درمیان ایک متوازن کردار ادا کرے، تاکہ کسی بڑے سفارتی جال میں نہ پھنسے۔

وقت آ گیا ہے کہ پاکستان تعریف اور تعاون کے بیچ کے فرق کو سمجھتے ہوئے اپنی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کو ریئل ازم (Realism) پر استوار کرے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عبید الرحمان عباسی

مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان کو کے مطابق بھارت کو بھارت کے کا بھارت ٹرمپ کی کے ساتھ کے لیے چین کے

پڑھیں:

غزہ معاہدہ: اسحاق ڈار اسلامی وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت کیلئے آج استنبول جائینگے

اسلام آباد (خبر نگار خصوصی) نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار ترک وزیر خارجہ کی دعوت پر (آج) پیر کو ایک روزہ دورے پر استنبول جائیں گے۔ جہاں وہ عرب- اسلامی وزرائے خارجہ کے رابطہ اجلاس میں شرکت کریں گے۔ اتوار کو دفتر خارجہ سے جاری بیان کے مطابق استنبول اجلاس کے دوران پاکستان جنگ بندی معاہدے پر مکمل عمل درآمد، مقبوضہ فلسطینی علاقوں، بالخصوص غزہ سے اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا، فلسطینی عوام کو بلا رکاوٹ انسانی امداد کی فراہمی اور غزہ کی تعمیرِ نو کی ضرورت پر زور دے گا۔ پاکستان اس بات کو بھی دہرائے گا کہ تمام فریقوں کو مل کر ایک آزاد، قابلِ عمل اور جغرافیائی طور پر متصل فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کوششیں تیز کرنی چاہئیں، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو، جو 1967 سے قبل کی سرحدوں پر مبنی ہو اور جو اقوامِ متحدہ کی متعلقہ قراردادوں اور عرب امن منصوبے کے مطابق ہو۔

متعلقہ مضامین

  • صدر ٹرمپ پاکستان کو کیا سمجھتے ہیں؟ دوست یا دشمن؟
  • امریکا کی غلامی سے نجات کا سنہری موقع
  • امریکا اور بھارت کے دفاعی معاہدے کی کیا اہمیت ہے؟
  • بھارت تاجکستان میں فضائی اڈے سے بے دخل، واحد غیر ملکی فوجی تنصیب چِھن گئی
  • پاک-بھارت جنگ روکنے کا 57ویں مرتبہ تذکرہ، ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کے ساتھ کسی بھی تعاون سے متعلق امکان کو مسترد کردیا
  • امریکی اداکارہ جینیفر اینسٹن کا انسٹاگرام پر نئے رشتے کا اعلان، نئی محبت کون ہے؟
  • غزہ معاہدہ: اسحاق ڈار اسلامی وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت کیلئے آج استنبول جائینگے
  • امریکا بھارت معاہدہ پاکستان کی سفارتی ناکامی ہے،صاحبزادہ ابوالخیر زبیر
  • امریکہ نے فیلڈ مارشل کی تعریفیں بہت کیں لیکن دفاعی معاہدہ ہندوستان کیساتھ کرلیا، پروفیسر ابراہیم