روس افغانستان کی طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن گیا۔

نجی اخبار میں شائع خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے لیے روس کے خصوصی نمائندے ضمیر کابلوف نے سرکاری خبر رساں ایجنسی ریا نووستی کو بتایا کہ حکومت نے طالبان کو ’تسلیم‘ کر لیا ہے۔

کابل سے نئے سفیر کی اسناد قبول کرنے کے بعد جاری کردہ ایک بیان میں روسی وزارت خارجہ نے کہا کہ اس اقدام سے ہمارے ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعمیری دو طرفہ تعاون کے فروغ کو تحریک ملے گی۔

The Ambassador of the Russian Federation, Mr.

Dmitry Zhirnov, called on IEA-Foreign Minister Mawlawi Amir Khan Muttaqi.

During the meeting, the Ambassador of Russian Federation officially conveyed his government’s decision to recognize the Islamic Emirate of Afghanistan, pic.twitter.com/wCbJKpZYwm

— Ministry of Foreign Affairs – Afghanistan (@MoFA_Afg) July 3, 2025


افغان وزارت خارجہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر روسی سفیر کی افغان وزیر خارجہ سے ملاقات کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھاکہ روس کے سفیر دمتری ژرنوف نے امارت اسلامیہ افغانستان کے وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی سے ملاقات کی۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ملاقات کے دوران روسی سفیر نے باضابطہ طور پر اپنی حکومت کا افغان حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ پہنچایا۔

ابھی تک کسی دوسرے ملک نے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا، جو اگست 2021 میں اس وقت اقتدار میں آئی تھی جب امریکا کی قیادت میں اتحادی افواج 20 سالہ جنگ کے بعد افغانستان سے افراتفری کے عالم میں نکل گئی تھیں۔

تاہم چین، متحدہ عرب امارات، ازبکستان اور پاکستان نے کابل میں اپنے سفیروں کو تعینات کر رکھا ہے، جو حکومت کو تسلیم کرنے کی جانب ایک قدم سمجھا جاتا ہے۔

روس کا یہ اقدام طالبان انتظامیہ کے لیے ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، جو عالمی سطح پر اپنی تنہائی کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

یہ پیش رفت واشنگٹن کی جانب سے خاص توجہ کے ساتھ دیکھی جائے گی، جہاں امریکا نے افغانستان کے مرکزی بینک کے اربوں ڈالر منجمد کر رکھے ہیں اور طالبان کے چند اعلیٰ رہنماؤں پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، جس کے نتیجے میں افغانستان کا بینکاری نظام عالمی مالیاتی نظام سے بڑی حد تک کٹ چکا ہے۔

رواں سال اپریل میں روس کی اعلیٰ عدالت نے افغان طالبان پر عائد پابندی کو معطل کرتے ہوئے انہیں دہشت گرد تنظیم کی فہرست سے نکال دیا تھا۔

اس وقت یہ اقدام ماسکو کی جانب سے طالبان کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی سمت ایک قدم کے طور پر دیکھا گیا تھا۔

حال ہی میں دونوں کے درمیان مشترکہ سیکیورٹی مفادات، خصوصاً داعش خراسان کے خلاف لڑائی نے روس اور طالبان کو قریب کر دیا ہے۔

اس پیش رفت پر ردعمل دیتے ہوئے افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے جمعرات کو کہا کہ روس کا ان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ ایک ’دلیرانہ قدم‘ ہے۔

وزیر خارجہ امیر خان متقی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر روسی سفیر دمتری ژرنوف سے ملاقات کی ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ دلیرانہ فیصلہ دوسروں کے لیے ایک مثال بنے گا، اب جب کہ تسلیم کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے، روس سب سے آگے ہے‘۔

Post Views: 4

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: حکومت کو تسلیم کرنے افغانستان کے

پڑھیں:

ڈیم ڈیم ڈیماکریسی (پہلا حصہ)

پرانے زمانے میں ایک ملک ہواکرتا تھا اس کا نام اپنی پیداوار کے باعث ’’الوستان‘‘ ہونا چاہیے تھا کیوں کہ اس میں دنیا کے بہت بڑے بڑے ’’الو‘‘ پیدا ہوتے تھے جو الو ہونے کے ساتھ الو کے فرزند بھی ہوتے تھے لیکن انھوں نے اس کا نام ’’یونان‘‘ رکھا تھا ،اس کی سب سے بڑی فصل یا پیداوار یا پراڈکٹ الو ہوا کرتے تھے جو خواہ مخواہ بات بے بات کے فلسفوں کی چیونٹیاں ، بٹیر اورمرغے لڑایا کرتے تھے ، ان الوؤں کے الوپن کااندازہ اس سے لگائیں کہ ان میں سے جو سب سے بڑا تھا سقراط نام کا۔ اس کے سامنے حکومت نے تین شرطیں رکھیں ،نمبر ایک، وطن چھوڑدو، نمبردو اپنے منہ کا زپ بندکرلو۔ نمبرتین۔ زہرکا پیالہ نوش جان کرو۔

اب اگر کوئی پاکستانی دانادانشور ہوتا، تو پہلی شرط مان کر کسی مرغن چرغن ملک میں جا بیٹھتا اورحکومت کے وظیفے پر گل چھرے اڑاتا ، ہمارے حضرت پروفیسر ڈاکٹر علامہ کی طرح یاالطاف بھائی کی طرح اور یا باباجی ڈیموں والی سرکار کی طرح۔ یا منہ بند کرکے کسی لگژری بنگلے میں محو استراحت ہوجاتا ۔ لیکن الو تھا ، اس لیے زہرکا پیالہ ہی پی گیا۔مستے نمونہ ازخروارے یا ایک چاول سے دیگ کااندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ باقی الو بھی ایسے ہی سن آف اوول ہی ہوں گے ۔

اسی سقراط بقراط کی طرح ایک اورتھا۔’’دمیقراط‘‘ ڈیموکریٹس۔ اس نے خواہ مخواہ ساری عمر لگا کرایک تو ’’ایٹم‘‘ کانظریہ دیا کہ ایٹم ناقابل تقسیم ہے یعنی اسے تقسیم نہیں کیا جاسکتا ۔ اوردوسرا ڈیموکریسی اورمعرب ہو کر اس کے نام کی رعایت سے جمہوریت بنا جس لفظ کی ابتداء ہی ڈیم سے ہوتی ہے اس کے ساتھ صرف فول لگایا جا سکتا ہے ۔اس کے دونوں تحفوں کاحشرنشر ہم دیکھ چکے اس نے جس ذرے کو ایٹم یعنی ناقابل تقسیم کہا تھااسے یاروں نے ایسا تقسیم کردیا کہ اس کے پیٹ سے دو بچے نکالے ایسے دو بچے کہ ایک نے ہیروشیما کو گل وگلزار کردیا اوردوسرے نے ناگاساکی کو باغ وبہار کردیا…اوراس کا دوسرا تحفہ ڈیماکریسی۔

زباں پہ بارخدایا یہ کس کانام آیا

اس تحفے کا بعد میں لوگوں نے خلاصہ یوں کیا کہ عوام پر…عوام کی حکومت ۔ عوام کے ذریعے ان تین باتوں کو ہرطرح سے آگے پیچھے کیجیے ۔مطلب وہی نکلے گا لیکن اس میں یہ بات چھپائی گئی ہے کہ عوام کی حکومت ، عوام پر عوام کے ذریعے۔ میں اصل جزواعظم عوام نہیں بلکہ حکومت ہے اورجب یہ منحوس نام کہیں آجاتا ہے وہاں چارپائی کی سی حالت ہوجاتی ہے اوریہ فقرہ ہے بھی چارپائی کی طرح ، چارپائی میں آپ’’سر‘‘ اورپیر کسی بھی طرف کیجیے ، سینٹر چارپائی کے بیچ میں آئے گا ۔

اس فقرے میں بھی حکومت چاہے کسی طرف سے ہوکسی بھی شکل وصورت میں ہو۔حکومت حکومت ہوتی ہے اورمحکوم محکوم ہوتے ہیں اس نام ہی میں ساری اہلیت ہے ،کیوں کہ حکومت میں جو بھی لوگ آجاتے ہیں وہ ’’ہم‘‘سے ’’میں‘‘ ہوجاتے ہیں اورسارے فساد کی جڑ یہ ’’میں‘‘ ہے جس کاموجد اوربانی مبانی ’’ابلیس‘‘ تھا اورجب سے اس دنیا میں ’’ہم‘‘ کے مقابل ’’میں‘‘ آیاہے تب سے خرابیاں شروع ہوئی ہیں۔

خیر اب یہاں سے ایک اورسلسلہ شروع ہوتا ہے اس الو ئے یونان دمیقراط کے ایٹم کاجوحشر نشر لوگوں نے کیا وہ اپنی جگہ ۔۔اس دوسرے تحفے جمہوریت کاجو تیاپانچہ کردیاگیا ہے وہ بڑی دلچسپ کہانی ہے ، اس کی ایسی درگت بنائی گئی ہے کہ خود دمیقراط اگر آجائے تو وہ بھی اسے پہچان نہیں پائے گا بلکہ شاید خود یہ جمہوریت بھی اگر آئینے کے سامنے کھڑی ہوجائے توحیران ہوکر پوچھے گی، آپ کون؟

اورپھر ماشاء اللہ دورجدید کے یونان پاکستان میں تو اس کو اتنے گھنگھرو اورگہنے پہنائے گئے کہ چیونٹی سے ہاتھی بن گئی ۔

ایک انگریزی کاناول نگار ہے ایچ جی ویلزنام ہے شاید۔ اس نے بڑے عجیب وغریب ناول لکھے ہیں وہ مشہورناول (نادیدہ آدمی) بھی اس کاہے جس پر ہرزبان میں فلمیں بھی بنی ہیں اوربھی بہت ہیں ان میں ، ایک ناول ایسا بھی ہے جس میں ایک ضبطی سائنس دان اورسرجن ایک الگ جزیرے میں جانوروں پر تجربے کررہا ہے، سرجن کے ذریعے وہ ایک جانور کے اعضاء دوسرے میں پیوند کرتا ہے۔ آخر وہ ایک ایسا جانور بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے جس میں کئی جانوروں کے اعضاء پیوند کیے ہیں ، شیر ، گیدڑ، بھیڑ، بھیڑیا ، ہاتھی ، گھوڑے کتے سب کے اعضاء اس میں فٹ کیے گئے ہیں ، یوں ایک عجیب الخلقت چیز بنا کر وہ بڑا خوش ہوتا ہے لیکن یہ خوشی اسے راس نہیں کیوں کہ جانور اسے پیوند شکم کردیتا ہے ۔

دیکھیے تو پاکستانی جمہوریت بھی اسی جانورجیسی بن گئی ہے ، اس میں قبائلی وحشی سرداروں کے بھی گن ہیں ، مطلق العنانی بادشاہوں کی بھی صفات ہیں ، آمریت کی نشانیاں بھی ہیں، دینی ریاست کی بھی خوبیاں ہیں، لادینیت سے بھی بھرپو رہے ، بیلٹ بھی ہے بلٹ بھی ، ڈاکو لٹیروں کاچال چلن بھی ہے ، گینگسٹروں کے کردار بھی ہیں ، ٹریجیڈی اورساتھ ہی کامیڈی بھی ہے ، اوراب تو بانی کی مہربانی سے پیری مریدی کا سلسلہ بھی ہوگیا ہے ، مطلب یہ کہ پنساری کی دکان یا جنرل اسٹورہے ، سب کچھ یہاں مل جاتا ہے اگر ڈھونڈئیے تو ، سوائے جمہوریت کے یا عوام کی خوشنودی کے ۔

غیرازیں نکتہ کہ حافظ زتو ناخوشنود است

درسراپائے وجودت پنرے نسیت کہ نسیت

ترجمہ: سوائے اس کے کہ حافظ تم سے خوشنود نہیں باقی دنیا میں ایسی کوئی صفت نہیں جوتم میں نہ ہو۔

اس جمہوریت کو ویسے تو کئی نام دیے جاسکتے ہیں لیکن سب سے بہترنام سیلکٹڈ یا کنٹرولڈ جمہوریت ہوگا کیوں کہ اس میں صرف وہی محدود اشرافیہ حصہ لے سکتی ہے جو ابتدائے آفرینش سے پندرہ فی صد ہوکر پچاسی فی صد پر سوارچلی آرہی ہے ۔

(جاری ہے)

متعلقہ مضامین

  • مالدیپ نئی نسل کیلئے تمباکو نوشی پر مکمل پابندی لگانے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا
  • مذاکرات: افغان ہٹ دھرمی نئے تصادم کا باعث بن سکتی ہے،پاکستان
  • جہادِ افغانستان کے اثرات
  • افغان حکومت بھارتی حمایت یافتہ دہشتگردی کی سرپرست ہے، وزیر دفاع خواجہ آصف
  • جب کوئی پیچھے سے دھمکی دے تو مذاکرات پر برا اثر پڑتا ہے: طالبان حکومت کے ترجمان
  • افغانستان سے کشیدگی نہیں،دراندازی بند کی جائے، دفتر خارجہ
  • طالبان رجیم کو پاکستان میں امن کی ضمانت دینا ہو گی، وزیر دفاع: مزید کشیدگی نہیں چاہتے، دفتر خارجہ
  • پاکستان کا اصولی موقف دنیا اور افغانستان نے تسلیم کیا، طلال چودھری
  • ڈیم ڈیم ڈیماکریسی (پہلا حصہ)
  • افغان طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے اگلے مرحلے کے مثبت نتائج کے بارے میں پرامید ہیں، دفتر خارجہ