افغانستان سے دہشت گردی کے خطرات میں اضافے کا خدشہ، پاکستان
اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 جولائی 2025ء) پاکستان نے پیر کے روز اقوام متحدہ کو بتایا کہ اس کے پاس کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور مجید بریگیڈ جیسے دہشت گرد گروپوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون کے معتبر ثبوت ہیں، جن کا مقصد ملک کے اسٹریٹجک انفراسٹرکچر اور ترقیاتی منصوبوں کو نشانہ بنانا ہے۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے جنرل اسمبلی کو بتایا کہ دہشت گردوں کے یہ گروپ افغانستان کے اندر ان مقامات سے کام کر رہے ہیں، جہاں حکومت کی رٹ بے اثر ہے۔
ان کی یہ تنبیہ ایک ایسے وقت آئی ہے، جب حالیہ ہفتوں میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں کافی اضافہ ہوا ہے۔
(جاری ہے)
باجوڑ بم دھماکے میں اسسٹنٹ کمشنر سمیت پانچ افراد ہلاک
28 جون کو ایک خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی شمالی وزیرستان میں فوجی قافلے سے ٹکرا دی تھی، جس کے نتیجے میں 16 فوجی ہلاک اور متعدد شہری زخمی ہو گئے تھے۔
اس کے چند روز بعد ہی باجوڑ میں ایک اسسٹنٹ کمشنر سمیت پانچ سینیئر اہلکار اس وقت مارے گئے جب ان کی گاڑی معمول کے دورے کے دوران سڑک کنارے نصب بم سے ٹکرا گئی۔ پاکستانی مندوب نے اقوام متحدہ سے کیا کہا؟اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر عاصم افتخار احمد نے جنرل اسمبلی کو بتایا کہ دہشت گردوں کی جانب سے ایسے بیشتر حملے ان جدید ترین ہتھیاروں اور آلات سے کیے جاتے ہیں، جو سن 2021 میں افغانستان سے انخلاء کے بعد بین الاقوامی افواج نے اپنے پیچھے چھوڑ دیے تھے۔
انہوں نے کہا، " گزشتہ دو ہفتوں کے دوران افغانستان میں مقیم دہشت گردوں نے ان جدید ترین ہتھیاروں کو پاکستان کے خلاف بڑھتے ہوئے حملوں کے لیے استعمال کیا ہے۔"
پاکستانی سفیر نے مزید کہا کہ اندازے کے مطابق ٹی ٹی پی کے تقریبا 6,000 جنگجو ہیں اور اقوام متحدہ کی طرف سے نامزد یہ سب سے بڑا دہشت گرد گروپ ہے، جو افغان سرزمین سے کام کر رہا ہے۔
انہوں بتایا کہ یہ گروپ نہ صرف پاکستان بلکہ علاقائی اور عالمی استحکام کے لیے بھی خطرہ ہے۔پاکستان نے سکیورٹی خطرات کے درمیان افغانستان کے ساتھ اہم سرحدی گزرگاہ بند کردی
انہوں نے افغانستان میں سرگرم ایسے دیگر گروہوں کی بھی نشاندہی کی، جن میں آئی ایس-خراسان، القاعدہ اور مختلف بلوچ علیحدگی پسند دھڑے شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا، "ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ افغانستان دہشت گردوں کی افزائش گاہ نہ بن جائے، جو اس کے پڑوسیوں اور وسیع تر عالمی برادری کے لیے خطرہ ہیں۔
" انہوں نے اقوام متحدہ اور علاقائی طاقتوں پر زور دیا کہ وہ معاملات کو "خراب کرنے والے" ایسے گروپوں کے خلاف کارروائی کریں، جو خطے میں دوبارہ تنازعات کو ہوا دے سکتے ہیں۔ایران: ایک ماہ میں دو لاکھ تیس ہزار افغان مہاجرین کی واپسی
اسلام آباد اور کابل میں مذاکراتکابل اور اسلام آباد نے پیر کے روز اپنے پہلے ایڈیشنل سیکرٹری سطح کے مذاکرات کیے، جو گزشتہ اپریل میں پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے دورہ افغانستان کے دوران طے پانے والے معاہدے کے تحت ہوئے۔
پاکستان کی طرف سے ایڈیشنل سیکریٹری (افغانستان اور مغربی ایشیا) سفیر سید علی اسد گیلانی نے نمائندگی کی جبکہ افغان فریق کی قیادت وزارت خارجہ میں فرسٹ پولیٹیکل ڈویژن کے ڈی جی مفتی نور احمد نور نے کی۔
زندگی بھر کی جمع پونجی سمیٹ کر پاکستان چھوڑنے کے لیے صرف 45 منٹ
اسلام آباد میں دفتر خارجہ نے اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا کہ بات چیت کے دوران فریقین نے تجارتی امور، ٹرانزٹ تعاون، سیکورٹی اور رابطے پر تبادلہ خیال کیا۔
دونوں فریقوں نے دہشت گردی کو علاقائی امن کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا اور اس بات پر اتفاق کیا کہ سلامتی کے مسائل کو حل کیے بغیر خطہ ترقی نہیں کر سکتا۔
اس موقع پر بھی پاکستانی وفد نے "افغان سرزمین پر سرگرم دہشت گرد گروہوں کے خلاف ٹھوس کارروائیوں" کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایسے گروہ سلامتی کو نقصان پہنچاتے ہیں اور یہ علاقائی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
پاکستان: شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی، 14 شدت پسند ہلاک
بات چیت کے دوران تجارت کو فروغ دینے کے اقدامات کا بھی جائزہ لیا گیا جن میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی سہولت، 10 فیصد پروسیسنگ فیس کا خاتمہ، انشورنس گارنٹی کی فراہمی اور سکیننگ میں کمی اور ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کو فعال کرنا شامل ہے۔
ملاقات کے دوران ازبکستان-افغانستان-پاکستان ریلوے فریم ورک معاہدے پر بھی تبادلہ خیال ہوا اور دونوں فریقوں نے اسے جلد حتمی شکل دینے پر اتفاق کیا۔
افغان شہریوں کی وطن واپسی بھی بحث کا اہم موضوع تھا۔مذاکرات کا اگلا دور باہمی اتفاق سے تاریخوں پر طے کیا جائے گا، جس میں دونوں ممالک مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پائیدار تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کریں گے۔
ص ز/ ج ا نیوز ایجنسیاں
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے میں پاکستان اقوام متحدہ اسلام آباد بتایا کہ کے دوران کے لیے
پڑھیں:
اقوام متحدہ: امریکہ کے اعتراضات کے باوجود طالبان حکومت سے متعلق قرارداد منظور
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 جولائی 2025ء) گیارہ صفحات پر مشتمل قرارداد میں افغانستان میں اقتصادی بحالی، ترقی اور خوشحالی کے مواقع پیدا کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیا گیا ہے اور عطیہ دہندگان سے ملک کے سنگین انسانی اور معاشی بحران سے نمٹنے کی اپیل کی گئی ہے۔
افغانستان: انسانی حقوق پر طالبان حکمرانوں کے حملوں کا سلسلہ جاری
قرارداد کے حق میں 116 ووٹ پڑے، امریکہ اور اس کے قریبی اتحادی اسرائیل نے مخالفت کی جبکہ روس، چین، بھارت اور ایران سمیت 12 ملکوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
قرارداد پر عمل درآمد قانونی طور پر لازمی نہیں ہے لیکن اسے عالمی رائے کے عکاس کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔جرمنی، آئرلینڈ اور سویڈن کی طرف سے پیش کی گئی قرارداد میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ہدایات، سیکرٹری جنرل کی رپورٹس، اور اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کے جائزوں سے حاصل کردہ نتائج شامل ہیں۔
(جاری ہے)
طالبان کے ماتحت افغانستان کتنا ’محفوظ‘ ہے؟
اقوام متحدہ میں جرمنی کی سفیر انٹجے لینڈرسے نے ووٹنگ سے قبل اسمبلی کو بتایا کہ ان کا ملک اور بہت سے دوسرے لوگ افغانستان میں انسانی حقوق کی سنگین صورت حال، خاص طور پر طالبان کی طرف سے خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کو تقریباً مکمل طور پر ختم کیے جانے پر سخت تشویش میں مبتلا ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قرارداد کا بنیادی پیغام افغان ماؤں، جو بیمار اور قلت تغذیہ کا شکاربچوں کو پالتی ہیں، یا دہشت گردی کے حملوں کا شکار ہونے والے سوگوار ہیں، ساتھ ہی لاکھوں افغان خواتین اور لڑکیاں جو گھروں میں بند ہیں، کو یہ بتانا ہے کہ انہیں فراموش نہیں کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ سن دو ہزار اکیس میں افغانستان میں اقتدار میں واپسی کے بعد سے، طالبان نے سخت اقدامات نافذ کیے ہیں، جن میں خواتین کو عوامی مقامات پر جانے اور چھٹی جماعت سے آگے کی لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
امریکہ کو اعتراضاتامریکی مندوب جوناتھن شریئر نے اس قرارداد پر تنقید کی، جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ کو شک ہے کہ وہ (طالبان) ''بین الاقوامی برادری کی توقعات کے مطابق‘‘ پالیسیوں پر عمل پیرا ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ کئی دہائیوں تک ہم نے وقت، پیسے اور سب سے اہم امریکی جانوں کے ساتھ افغان عوام کی حمایت کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھایا۔
اب وقت آگیا ہے کہ طالبان آگے بڑھیں۔ امریکہ اب ان کے گھناؤنے رویے کا مزید بوجھ نہیں اٹھائے گا۔افغانستان کے لیے امریکی امداد کی معطلی کا مطلب کیا؟
پچھلے مہینے، ٹرمپ انتظامیہ نے استشنائی معاملات کو چھوڑ کر، مستقل طور پر امریکہ میں دوبارہ آباد ہونے کی امید رکھنے والے افغانوں اور عارضی طور پر آنے کے خواہشمندوں پر پابندی لگا دی تھی۔
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے روس طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن گیا۔
قرارداد میں اور کیا ہے؟قرارداد میں افغان مہاجرین کی میزبانی کرنے والی حکومتوں کی تعریف کی گئی ہے۔ اس حوالے سے ایران اور پاکستان کا خصوصی ذکر کیا گیا ہے۔
قرارداد میں افغانستان کی مجموعی سلامتی کی صورت حال میں بہتری کو نوٹ کیا گیا ہے، تاہم القاعدہ اور اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسندوں اور ان کے ساتھیوں کے حملوں کے بارے میں تشویش کا اعادہ کیا گیا ہے۔
قرارداد میں افغانستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ''تمام دہشت گرد تنظیموں سے یکساں طور پر اور بلا تفریق نمٹنے، ختم کرنے اور نیست و نابود کرنے کے لیے فعال اقدامات کرے۔‘‘
جنرل اسمبلی نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیریش کی بھی حوصلہ افزائی کی کہ وہ ایک کوآرڈینیٹر کا تقرر کریں تاکہ افغانستان کے بارے میں اس کی بین الاقوامی مصروفیات کے لیے زیادہ مربوط اور منظم انداز میں سہولت فراہم کی جا سکے۔
ادارت: صلاح الدین زین