اقوام متحدہ: امریکہ کے اعتراضات کے باوجود طالبان حکومت سے متعلق قرارداد منظور
اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 جولائی 2025ء) گیارہ صفحات پر مشتمل قرارداد میں افغانستان میں اقتصادی بحالی، ترقی اور خوشحالی کے مواقع پیدا کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیا گیا ہے اور عطیہ دہندگان سے ملک کے سنگین انسانی اور معاشی بحران سے نمٹنے کی اپیل کی گئی ہے۔
افغانستان: انسانی حقوق پر طالبان حکمرانوں کے حملوں کا سلسلہ جاری
قرارداد کے حق میں 116 ووٹ پڑے، امریکہ اور اس کے قریبی اتحادی اسرائیل نے مخالفت کی جبکہ روس، چین، بھارت اور ایران سمیت 12 ملکوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
قرارداد پر عمل درآمد قانونی طور پر لازمی نہیں ہے لیکن اسے عالمی رائے کے عکاس کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔جرمنی، آئرلینڈ اور سویڈن کی طرف سے پیش کی گئی قرارداد میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ہدایات، سیکرٹری جنرل کی رپورٹس، اور اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کے جائزوں سے حاصل کردہ نتائج شامل ہیں۔
(جاری ہے)
طالبان کے ماتحت افغانستان کتنا ’محفوظ‘ ہے؟
اقوام متحدہ میں جرمنی کی سفیر انٹجے لینڈرسے نے ووٹنگ سے قبل اسمبلی کو بتایا کہ ان کا ملک اور بہت سے دوسرے لوگ افغانستان میں انسانی حقوق کی سنگین صورت حال، خاص طور پر طالبان کی طرف سے خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کو تقریباً مکمل طور پر ختم کیے جانے پر سخت تشویش میں مبتلا ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قرارداد کا بنیادی پیغام افغان ماؤں، جو بیمار اور قلت تغذیہ کا شکاربچوں کو پالتی ہیں، یا دہشت گردی کے حملوں کا شکار ہونے والے سوگوار ہیں، ساتھ ہی لاکھوں افغان خواتین اور لڑکیاں جو گھروں میں بند ہیں، کو یہ بتانا ہے کہ انہیں فراموش نہیں کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ سن دو ہزار اکیس میں افغانستان میں اقتدار میں واپسی کے بعد سے، طالبان نے سخت اقدامات نافذ کیے ہیں، جن میں خواتین کو عوامی مقامات پر جانے اور چھٹی جماعت سے آگے کی لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
امریکہ کو اعتراضاتامریکی مندوب جوناتھن شریئر نے اس قرارداد پر تنقید کی، جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ کو شک ہے کہ وہ (طالبان) ''بین الاقوامی برادری کی توقعات کے مطابق‘‘ پالیسیوں پر عمل پیرا ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ کئی دہائیوں تک ہم نے وقت، پیسے اور سب سے اہم امریکی جانوں کے ساتھ افغان عوام کی حمایت کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھایا۔
اب وقت آگیا ہے کہ طالبان آگے بڑھیں۔ امریکہ اب ان کے گھناؤنے رویے کا مزید بوجھ نہیں اٹھائے گا۔افغانستان کے لیے امریکی امداد کی معطلی کا مطلب کیا؟
پچھلے مہینے، ٹرمپ انتظامیہ نے استشنائی معاملات کو چھوڑ کر، مستقل طور پر امریکہ میں دوبارہ آباد ہونے کی امید رکھنے والے افغانوں اور عارضی طور پر آنے کے خواہشمندوں پر پابندی لگا دی تھی۔
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے روس طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن گیا۔
قرارداد میں اور کیا ہے؟قرارداد میں افغان مہاجرین کی میزبانی کرنے والی حکومتوں کی تعریف کی گئی ہے۔ اس حوالے سے ایران اور پاکستان کا خصوصی ذکر کیا گیا ہے۔
قرارداد میں افغانستان کی مجموعی سلامتی کی صورت حال میں بہتری کو نوٹ کیا گیا ہے، تاہم القاعدہ اور اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسندوں اور ان کے ساتھیوں کے حملوں کے بارے میں تشویش کا اعادہ کیا گیا ہے۔
قرارداد میں افغانستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ''تمام دہشت گرد تنظیموں سے یکساں طور پر اور بلا تفریق نمٹنے، ختم کرنے اور نیست و نابود کرنے کے لیے فعال اقدامات کرے۔‘‘
جنرل اسمبلی نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیریش کی بھی حوصلہ افزائی کی کہ وہ ایک کوآرڈینیٹر کا تقرر کریں تاکہ افغانستان کے بارے میں اس کی بین الاقوامی مصروفیات کے لیے زیادہ مربوط اور منظم انداز میں سہولت فراہم کی جا سکے۔
ادارت: صلاح الدین زین
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے قرارداد میں افغان میں افغانستان اقوام متحدہ کیا گیا ہے
پڑھیں:
کلاشنکوف چھوڑ کر قلم اٹھا لیے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
افغانستان میں اقتدار میں آنے سے قبل میدان جنگ میں متحرک رہنے والے طالبان میں سے کچھ نے مغربی قوتوں کے ساتھ 20 سالہ تنازعے کے بارے میں اپنا نکتہ نظر بیان کرنے کے لیے ہتھیار چھوڑ کر قلم کا سہارا لیا ہے۔مہاجر فراحی نے، جو اب طالبان حکومت کے نائب وزیر اطلاعات و ثقافت ہیں ”میموریز آف جہاد: 20 ایئرز ان آکوپیشن‘‘ یعنی جہاد کی یادیں، قبضے کے 20 سال نامی کتاب لکھی ہے۔
انہوں نے کابل کے وسطی حصے میں موجود اپنے دفتر سے اے ایف پی کو بتایا، ”امریکہ نے اپنے دعوؤں کے برعکس ظالمانہ اور وحشیانہ کارروائیوں کا ارتکاب کیا ہے، ہمارے ملک کو بموں سے تباہ کیا ہے، بنیادی ڈھانچے کو تباہ کیا ہے اور قوموں اور قبائل کے درمیان اختلافات اور مایوسی کا بیج بویا ہے۔‘‘فراحی کی کتاب کا پانچ زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ اپنی کتاب کے انگریزی ورڑن میں لکھتے ہیں، ”یہ بات واضح تھی… امریکیوں نے پہلے ہی افغانستان پر قبضے کی منصوبہ بندی کر لی تھی۔‘‘
وہ مزید لکھتے ہیں کہ 11 ستمبر کے حملوں کے بعد، افغانوں نے سوچا کہ ان حملوں کا ”ہمارے ملک سے کوئی لینا دینا نہیں ہوگا‘‘، لیکن جلد ہی انہیں احساس ہوا کہ افغانستان کو ”سزا‘‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔20 سال تک جاری رہنے والی اس جنگ میں طالبان عسکریت پسند افغان جمہوریہ اور اس کی افواج کی حمایت کرنے والے 38 ممالک پر مشتمل امریکی قیادت والی اتحادی افواج کے خلاف لڑتے رہے اس لڑائی اور طالبان کے حملوں میں دسیوں ہزار افغان ہلاک ہوئے جبکہ تقریبا? چھ ہزار غیر ملکی فوجی بھی ہلاک ہوئے جن میں 2400 امریکی بھی شامل تھے۔فراحی کے نزدیک یہ جنگ مغرب کی اس خواہش کی عکاسی کرتی ہے کہ وہ اپنی ثقافت اور نظریے کو دوسری قوموں پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔