بلوچستان یونیورسٹی: مادری زبانوں کے شعبے ضم کرنے کا فیصلہ، اساتذہ، طلبہ اور سیاسی حلقوں میں شدید اضطراب
اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT
بلوچستان میں اعلیٰ تعلیم کی سطح پر مادری زبانوں کے تحفظ اور ترویج سے متعلق شدید خدشات نے سر اٹھا لیا ہے۔ حکومت بلوچستان کی جانب سے یونیورسٹی آف بلوچستان کے پشتو، بلوچی اور براہوی شعبوں کو یکجا کر کے ’انسٹیٹیوٹ آف لینگویجز اینڈ لٹریچر‘ میں ضم کرنے کے مجوزہ منصوبے پر صوبے بھر میں تشویش اور مخالفت کی لہر دوڑ گئی ہے۔
بلوچستان یونیورسٹی میں دنیا کا واحد براہوی شعبہ بھی قائم ہے، جس کی ممکنہ بندش یا انضمام پر نہ صرف اساتذہ اور طلبہ پریشان ہیں بلکہ علمی اور ادبی حلقے بھی اسے مادری زبانوں کی شناخت اور ان کے علمی فروغ کے لیے نقصان دہ قرار دے رہے ہیں۔ یونیورسٹی کے طلبہ کا کہنا ہے کہ ان شعبوں کو یکجا کرنا ان کی زبانوں کی شناخت مٹانے کے مترادف ہے اور اس سے مقامی زبانوں میں تحقیق اور تعلیم کا عمل متاثر ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: شمالی علاقہ جات کی زبانوں کے تحفظ اور فروغ کے لیے تقریب کا انعقاد
جامعہ بلوچستان کے اساتذہ، پروفیسرز اور تعلیم دوست حلقوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان زبانوں کے شعبے ختم کرنے یا ضم کرنے کے بجائے انہیں مزید فروغ دیا جائے تاکہ مادری زبانوں کے ذریعے صوبے کی تہذیب، ثقافت اور تاریخ کا تسلسل برقرار رکھا جا سکے۔
اس تنازع پر نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بھی شدید ردعمل دیا ہے۔ کوئٹہ میں پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت بلوچستان نے یونیورسٹی آف بلوچستان کے وائس چانسلر کو تحریری طور پر ہدایت دی ہے کہ پشتو، بلوچی اور براہوی شعبوں کو ملا کر ایک ادارے میں ضم کیا جائے۔ انہوں نے اس فیصلے کو مقامی زبانوں اور قوموں کے خلاف سازش قرار دیا اور کہاکہ محض مالی نقصان کے نام پر اگر یہ شعبے ختم کیے جا رہے ہیں تو پورا ملک خسارے میں ہے، اس کا کیا کیا جائے گا؟
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہاکہ جب بلوچی زبان سویڈن میں پڑھائی جا رہی ہے تو بلوچستان میں اسے بند کرنا ناقابل فہم ہے۔ انہوں نے اس فیصلے کو مادری زبانوں کے قتل سے تعبیر کیا اور واضح کیاکہ ان کی جماعت اس حکومتی اقدام کے خلاف ہر ممکن جمہوری جدوجہد کرے گی۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور پشتونخوا نیشنل پارٹی نے بھی اس حکومتی فیصلے کی شدید مذمت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ اس اقدام کو فی الفور واپس لیا جائے۔
دوسری جانب گورنر بلوچستان جعفر خان مندوخیل نے یونیورسٹی آف بلوچستان کے گیارہویں سینیٹ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اس مسئلے پر بھی گفتگو کی۔ گورنر نے اس بات کا اعتراف کیاکہ یونیورسٹی کے بعض ڈیپارٹمنٹس خاص طور پر زبانوں کے شعبوں میں اساتذہ کی تعداد طلبہ سے زیادہ ہے جس کی وجہ سے مالی بوجھ بڑھ رہا ہے اور اس کے لیے ایک پائیدار حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہاکہ منصوبہ ایسا ہونا چاہیے جو غیر ضروری اخراجات کم کرنے کے ساتھ ساتھ قومی زبانوں کی ترقی اور ترویج کو بھی یقینی بنائے۔
گورنر بلوچستان نے مزید کہا کہ صوبے کی تمام سرکاری یونیورسٹیوں کو چاہیے کہ وہ محض تعلیم دینے کے بجائے جدید تحقیق کے مراکز کے طور پر اپنا کردار ادا کریں۔ انہوں نے وائس چانسلرز کو ہدایت کی کہ وہ اپنے اداروں کے لیے واضح ریسرچ ایجنڈا تشکیل دیں، تحقیق کے لیے فنڈ مختص کریں اور اس کی رپورٹ چانسلر آفس میں جمع کرائیں تاکہ پبلک سیکٹر یونیورسٹیز میں تحقیق اور علم کی نئی راہیں کھلیں۔
یہ بھی پڑھیں: میری مادری زبان اردو نہیں انگریزی ہے، اداکارہ سلمیٰ حسن کا انکشاف
بلوچستان میں مقامی زبانوں کے تحفظ اور ترویج کے حوالے سے یہ معاملہ صوبے میں اعلیٰ تعلیم کی پالیسی، ثقافتی شناخت اور سماجی ہم آہنگی سے جڑا ہوا حساس موضوع بنتا جا رہا ہے، جس پر سیاسی اور سماجی حلقوں کی گہری نظر ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews بلوچستان یونیورسٹی شدید تشویش شعبوں کا انضمام مادری زبانیں وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلوچستان یونیورسٹی شدید تشویش شعبوں کا انضمام وی نیوز مادری زبانوں کے بلوچستان کے انہوں نے کے لیے
پڑھیں:
لشکری رئیسانی کا مائنز اینڈ منرلز بل سے متعلق سیاسی رہنماؤں کو خط
حاجی لشکری رئیسانی کا کہنا ہے کہ اگر قانون سازی میں مقامی اقوام اور نمائندہ سیاسی جماعتوں کو نظرانداز کیا گیا تو یہ عمل غیر منصفانہ اور آئین پاکستان کی روح کے منافی ہوگا۔ اسلام ٹائمز۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی سیاسی شخصیت سابق سینیٹر حاجی لشکری رئیسانی نے مائنز اینڈ منرلز ایکٹ کے خلاف سیاسی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ ان کی جانب سے بلوچستان کے عوام کے خدشات اور تحفظات کو ملکی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں کے سربراہان کے نام خطوط ارسال کئے گئے ہیں، جن میں بلوچستان کے قومی حقوق کے تحفظ کے لیے آئندہ قانون سازی میں عملی کردار ادا کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔ حاجی لشکری رئیسانی کی جانب سے نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے نام لکھے گئے خط کے سلسلے میں اسحاق لہڑی نے نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل کبیر احمد شہی سے ملاقات کی اور خط ان کے حوالے کیا۔ ملاقات میں خط کے نکات اور اس کی اہمیت پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔
اس موقع پر اسحاق لہڑی نے بتایا کہ خط میں حاجی لشکری رئیسانی نے واضح کیا کہ موجودہ اور مجوزہ مائنز اینڈ منرلز قانون بلوچستان کے عوام کے مفادات سے متصادم ہے۔ انہوں نے کہا کہ معدنی وسائل بلوچستان کے عوام کی اجتماعی ملکیت ہیں، اور ان کے حوالے سے کسی بھی قانون سازی میں صوبے کی مشاورت ناگزیر ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر قانون سازی میں مقامی اقوام اور نمائندہ سیاسی جماعتوں کو نظرانداز کیا گیا تو یہ عمل غیر منصفانہ اور آئین پاکستان کی روح کے منافی ہوگا۔ لشکری رئیسانی نے تمام قومی سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ بلوچستان کے حقوق کے تحفظ کے لیے پارلیمانی و عوامی سطح پر مشترکہ موقف اپنائیں اور مائنز اینڈ منرلز ایکٹ کو کسی بھی صورت میں مرکز کی اجارہ داری کے تحت نہ ہونے دیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ آئندہ دنوں میں جمعیت علماء اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور دیگر جماعتوں کے رہنماؤں سے بھی رابطے کیا جائے گا۔