اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیشنل انرجی ایفیشنسی اینڈ کنزرویشن اتھارٹی (نیکا) کے ڈائریکٹر ایس ایم او صبیح حیدر کی تعیناتی غیر قانونی قرار دے دی ہے اور کہا ہے کہ ڈائریکٹر اسٹریٹیجی مینجمنٹ آفس (SMO) کے عہدے کی تخلیق بھی غیر قانونی تھی۔
جسٹس بابر ستار نے سینئر اسسٹنٹ ڈائریکٹر نیکا محمد ساجد حسین کی درخواست پر فیصلہ جاری کیا، جس میں ادارے کے ڈائریکٹر کی تعیناتی کو چیلنج کیا گیا تھا۔ عدالت نے کہا کہ ایس ایم او کے عہدے کی تخلیق اور اس پر کی گئی تقرری قانون کے مطابق نہیں تھی۔
عدالت نے ہدایت کی کہ نیکا بورڈ جائزہ لے کہ یہ ترمیمی ریگولیشنز بغیر بورڈ کی منظوری کے سرکاری گزٹ میں کیسے شائع ہوئیں۔ مزید کہا گیا کہ نیکا بورڈ کو ان غیر منظور شدہ ترامیم کی اشاعت کی ذمہ داری اٹھانی ہوگی۔
عدالت نے فیصلے کی کاپی چیئرمین نیکا بورڈ کو بھجوانے کی بھی ہدایت کی ہے تاکہ ادارے میں قانونی تقاضوں کے مطابق اقدامات کیے جا سکیں۔

 

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کو 14 سال قیدِ بامشقت کی سزا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

راولپنڈی میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کے خلاف فوجی عدالت کا طویل اور اہم مقدمہ اپنے فیصلے تک پہنچ گیا، جہاں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے انہیں 14 سال قیدِ بامشقت کی سزا سناتے ہوئے تمام الزامات میں قصوروار قرار دے دیا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان کے مطابق فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کو 14 سال قیدِ بامشقت کی سزا سنائی، پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت شروع کی جانے والی یہ کارروائی مجموعی طور پر 15 ماہ تک جاری رہی، جس دوران متعدد سماعتیں ہوئیں اور دفاع و استغاثہ کے دلائل تفصیل سے سنے گئے۔

فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ نے بتایا کہ مقدمے میں سابق لیفٹیننٹ جنرل کے خلاف چار سنگین نوعیت کے الزامات کی بنیاد پر کارروائی مکمل کی گئی۔

آئی ایس پی آر کے مطابق فیض حمید پر سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی، اپنے اختیارات اور سرکاری وسائل کے ناجائز استعمال اور متعلقہ افراد کو غیر قانونی طور پر نقصان پہنچانے جیسے الزامات عائد کیے گئے تھے۔

بیان میں کہا گیا کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے مکمل قانونی تقاضوں کی پاسداری کرتے ہوئے کارروائی مکمل کی، ملزم کو اپنی پسند کی دفاعی ٹیم رکھنے کا پورا اختیار دیا گیا اور اسے وہ تمام قانونی حقوق فراہم کیے گئے جو اسے آئینی و فوجی قوانین کے تحت حاصل ہیں۔

آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ جامع اور محنت طلب قانونی عمل کے بعد عدالت نے یہ قرار دیا کہ ملزم تمام الزامات میں ملوث تھا۔

فوجی حکام کے مطابق عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزا کا اطلاق 11 دسمبر 2025 سے ہوگا اور فیصلے کی روشنی میں تمام متعلقہ فوجی و قانونی تقاضے پورے کیے جائیں گے۔ یہ فیصلہ حالیہ برسوں کے سب سے نمایاں فوجی مقدمات میں سے ایک تصور کیا جارہا ہے۔

یاد رہے کہ 29 نومبر 2022 کو لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی تھی، سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو 12 اگست 2024 کو اس وقت حراست میں لیا گیا تھا جب سپریم کورٹ کے حکم پر ٹاپ سٹی کیس کی کورٹ آف انکوائری کا باضابطہ آغاز کیا گیا۔

واضح رہے کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید پاک فوج میں اہم ذمہ داریاں سنبھال چکے ہیں، وہ نہ صرف ڈی جی آئی ایس آئی کے منصب پر فائز رہے بلکہ بعدازاں کور کمانڈر پشاور کے عہدے پر بھی خدمات انجام دیتے رہے، جہاں انہیں ملک کی سیکیورٹی اور انسدادِ دہشت گردی کے امور میں مرکزی حیثیت حاصل رہی۔

ویب ڈیسک دانیال عدنان

متعلقہ مضامین

  • فیض حمید کو 14 سال قید بامشقت
  •  لانڈھی کاٹیج انڈسٹری کیس‘عدالت کا سینئر ممبر ریونیو بورڈ کو شو کاز
  • سندھ ہائی کورٹ میں ای چالان کے خلاف حکم امتناع کی درخواست مسترد
  • لندن ہائی کورٹ سے عادل راجہ کے خلاف تفصیلی فیصلہ جاری
  • پاکستان میں ہائی پروفائل کورٹ مارشلز کی تاریخ
  • سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کو 14 سال قیدِ بامشقت کی سزا
  • پاکستان میں کم ازکم تنخواہ ہزار ڈالر کرنیکی درخواست مسترد
  • سندھ ہائی کورٹ بار کی ایمان مزاری کے خلاف عدالتی کارروائی کی شدید مذمت
  • امریکی عدالت کا لاس اینجلس میں نیشنل گارڈ کی تعیناتی فوری ختم کرنے کا حکم
  • اسلام آباد ہائی کورٹ نے خاکروب آسامیوں کے بارے بڑا فیصلہ سنا دیا