ڈائنوسار کے رشتے دار دیوہیکل پرندوں سے متعلق دلچسپ حقائق دریافت
اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT
سائنسدانوں نے ایک نئی قسم کے ’پیٹروسار‘ (قدیم پرندہ نما ریپٹائل) کی دریافت کی ہے جو 20 کروڑ سال پہلے اپنے ڈائنوسار کزنز کے برخلاف آسمانوں میں پرواز کیا کرتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ڈائنوسار کے دور کی سیر کراتا کوئٹہ کا عجائب گھر
بی بی سی کے مطابق اس قدیم ریپٹائل کے جبڑے کی ہڈی سنہ 2011 میں ایریزونا میں دریافت ہوچکی تھی لیکن جدید اسکیننگ تکنیکوں کی مدد سے اب یہ ثابت ہوا ہے کہ یہ ایک نئی نوع ہے جو سائنس کے لیے پہلے سے نامعلوم تھی۔
یہ تحقیق اسمِتھ سونین نیشنل میوزیم آف نیچرل ہسٹری کے سائنسدانوں کی قیادت میں کی گئی جنہوں نے اس پرندہ نما جانور کا نام Eotephradactylus mcintireae رکھا ہے جس کا مطلب ’راکھ کے پروں والی صبح کی دیوی‘ ہے۔ یہ نام اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس جانور کی ہڈیاں قدیم دریا کے پاٹ میں آتش فشانی راکھ کے میں دب کر محفوظ ہوئیں۔
تقریباً 20 کروڑ 90 لاکھ سال پرانی یہ مخلوق شمالی امریکا میں دریافت ہونے والی سب سے قدیم پیٹروسار نوع مانی جاتی ہے۔
مزید پڑھیے: کیا ڈائنوسار تیرنا بھی جانتے تھے، وہ ایک براعظم سے سمندر میں گھرے جزیرے پر کیسے پہنچے؟
ڈاکٹر کِلگمین نے بتایا کہ ٹرائسی کا دور پیٹروسارز کی ہڈیاں چھوٹی، پتلی اور اکثر کھوکھلی ہوتی ہی، جس کے باعث یہ تیزی سے خراب ہوجاتی ہیں اور فوسل نہیں بنتیں۔
اس دریافت کا مقام پیٹریفائیڈ فارسٹ نیشنل پارک میں واقع ایک قدیم چٹانی علاقے میں ہے جہاں ایک زمانے میں دریا بہتا تھا اور اس کے کنارے پر تہہ در تہہ مادہ نے جانوروں کی ہڈیوں، اسکیلز اور دیگر آثار محفوظ پائے گئے۔
اس علاقے کا نقشہ بتاتا ہے کہ یہ جگہ ایک ایسا ماحولیاتی نظام تھی جہاں ماضی کے بڑے جانوروں کے ساتھ وہ مخلوق بھی موجود تھی جو آج کے دور میں ہمیں نظر آتی ہے، جیسے کہ مینڈک اور کچھوے۔ سائنسدانوں کے مطابق یہ فوسل بیڈ 20 کروڑ سال پہلے کی زندگی کے آثار محفوظ کیے ہوئے ہے۔
دریافت شدہ پیٹروسر کے دانتوں کی نوعیت سے یہ اندازہ بھی لگایا گیا ہے کہ یہ جانور ممکنہ طور پر مچھلیوں کو شکار کرتا تھا۔ ڈاکٹر کِلگمین کے مطابق ان کی چونچ کے گھسے ہوئے سرے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ پرندہ سخت جسم والی مچھلیوں پر شکار کرتا تھا۔
مزید پڑھیں: ارجنٹائن کے کسان نے دیو قامت ‘ڈائنوسارس انڈہ’ کیسے دریافت کیا؟
یہ دریافت قدیم حیات اور ارتقا کے مطالعے میں اہم سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ ماضی کے مختلف جانور ایک ساتھ ایک ہی ماحولیاتی نظام میں موجود تھے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اڑنے والے دیوہیکل پرندے پیٹروسار ڈائنوسار.ذریعہ: WE News
پڑھیں:
ابوظبی کے سر بنی یاس جزیرے پر 1400 سال پرانی صلیب کی حیرت انگیز دریافت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ابوظہبی کے تاریخی جزیرے سر بنی یاس پر ماہرینِ آثار قدیمہ نے ایک غیر معمولی دریافت کی ہے جس نے اس خطے کی قدیم تاریخ کو مزید اجاگر کر دیا ہے۔
حالیہ کھدائی کے دوران تقریباً 1400 سال پرانی ایک مسیحی صلیب برآمد ہوئی ہے جسے ماہرین ساتویں یا آٹھویں صدی کا قرار دے رہے ہیں۔ اس دریافت نے ثابت کیا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے ان علاقوں میں صدیوں پہلے مسیحی کمیونٹیز نہ صرف موجود تھیں بلکہ انہوں نے عبادت، خانقاہی زندگی اور مذہبی رسومات کو باقاعدگی سے اپنایا ہوا تھا۔
یہ کھدائی جنوری میں شروع کی گئی تھی اور تقریباً 3 دہائیوں بعد اس جزیرے پر آثار قدیمہ کی پہلی بڑی مہم ہے۔ صلیب پلاسٹر پر بنی ہوئی ہے اور اس کا سائز تقریباً 27 سینٹی میٹر لمبا، 17 سینٹی میٹر چوڑا اور 2 سینٹی میٹر موٹا ہے۔
اسے ایک ایسے مقام پر دریافت کیا گیا ہے جو ایک صحن نما مکانات کے قریب ہے، جنہیں خانقاہ یا دیر کے شمالی حصے میں بزرگ راہب اور تنہائی پسند عبادت گزار استعمال کرتے تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صلیب کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ اس خطے میں ابتدائی مسیحی برادریاں خاص طور پر مشرقی مسیحیت سے تعلق رکھنے والی کمیونٹیاں آباد تھیں۔ وہ یہاں عبادت اور دینی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اپنی الگ تھلگ خانقاہی طرزِ زندگی گزارتے تھے۔ اس دریافت کو خلیجی خطے کی مذہبی و ثقافتی تاریخ کا ایک اہم باب قرار دیا جا رہا ہے۔
آثار قدیمہ کے محققین کا خیال ہے کہ یہ دریافت مستقبل میں خطے کی قدیم تہذیب اور مختلف مذاہب کے درمیان روابط کو سمجھنے میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔
متحدہ عرب امارات اپنی تاریخی و ثقافتی وراثت کو محفوظ بنانے کے لیے پہلے ہی کئی اقدامات کر چکا ہے اور سر بنی یاس پر یہ نئی کھوج اس سمت میں ایک اور سنگ میل سمجھی جا رہی ہے۔