عوام کو جمہوریت بچانے اور 26 ویں ترمیم کیخلاف نکلنا ہے، میں جیل سے لیڈ کروں گا، عمران خان
اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT
راولپنڈی:
بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ وہ احتجاج کو لیڈ کریں گے، وہ جیل میں آزاد ہیں اور ہم لوگ جو باہر ہیں وہ قید ہیں، آپ لوگوں کو اپنے لیے نکلنا ہے، رول آف لا اور جمہوریت کے لیے نکلنا ہے اور 26 ویں ترمیم کے خلاف نکلنا ہے۔
یہ بات علیمہ خان نے عمران خان سے ملاقات کے بعد اڈیالہ جیل کے باہر اپنی بہنوں نورین اور عظمی کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو میں کہی۔
علیمہ خان نے کہا کہ بہنوں کی عمران خان سے الحمدللہ ملاقات ہوگئی، بانی پی ٹی آئی خیریت سے ہیں، بانی کے ساتھ وہ کچھ ہورہا ہے جو کسی قیدی کے ساتھ نہیں ہوتا، یہ ظلم کی انتہا ہے، ان کا ٹی وی اخبار ایک ہفتے سے بند کیا ہوا ہے، بانی کے پاس پڑھنے لکھنے کے لیے کچھ نہیں، بانی سے مل کر خوشی ہوتی ہے وہ ٹھیک ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بانی جیل میں بہترین کتاب لکھ سکتے لیکن ان کے پاس کچھ لکھنے کے لیے قلم کاغذ ہو تو لکھیں۔
علیمہ خان نے کہا کہ عمران خان جیل سے احتجاج کو لیڈ کریں گے، عمران خان نے کہا ہے وہ جیل میں آزاد ہیں اور ہم لوگ جو باہر ہیں وہ قید ہیں، آپ لوگوں نے اپنے لیے نکلنا ہے، رول آف لاء اور جمہوریت کے لیے نکلنا ہے اور 26 ویں ترمیم کے خلاف نکلنا ہے۔قبل ازیں گورکھ پور ناکے پر گفتگو میں علیمہ خان نے کہا کہ 10 محرم گزر گیا اب پارٹی لائحہ عمل دے گی، بانی نے تو لائحہ عمل دے دیا، بانی نے پلان بنایا ہوا ہے جب پچھلے ہفتے ہماری فیملی نے ملاقات کی تھی تو ہم نے پلان دے دیا تھا، پارٹی والے میڈیا کے کہنے پر توپلان نہیں بتاسکتے، پتا نہیں پشاور سے چلیں گے اور لاہور تک جائیں گے یہ تو پلان پارٹی بتائے گی، ہماری فیملی کو احتجاج کا پلان پتا ہے میڈیا کو اس وقت بتائیں گے جب وقت آئے گا بھروسہ رکھیں بہتر ہوگا۔
علیمہ خان نے کہا کہ جب تحریک کا اعلان ہوتا ہے تو ایسی باتیں ہوتی ہیں، میں نے تو کہا تھا نواز شریف کو تو گھر والے نہیں پوچھتے تو بانی سے مل کر کیا کریں گے، یہ مریم نواز کے شوق پورے کرنے کے لیے ہمیں روکا جاتا ہے، انھوں نے 26 ممبران کو معطل کردیا اس لیے کہ مریم نواز کو خوش کرسکیں، مریم نواز کی ہر خواہش پوری کی جاتی ہے۔ قبل ازیں بانی پی ٹی آئی کی بہنیں گورکھ پور ناکے سے پیدل جیل کی جانب روانہ ہوئیں کارکنوں کی بڑی تعداد بھی ان کے ساتھ موجود تھی جنہوں نے کارکنوں نے نعرے بازی کی، پولیس کی بھاری نفری بھی پہنچی، پارٹی سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ بھی بانی پی ٹی آئی کی بہنوں کے پاس پہنچے، بانی پی ٹی آئی کی بہنوں کو مقامی ہوٹل کے قریب روک لیا گیا بعدازاں بانی پی ٹی آئی سلمان صفدر، عظمی خان اور نورین خان کو ملاقات کی اجازت مل گئی مگر علیمہ خان کو روک دیا گیا۔اسی طرح بشریٰ بی بی سے ان کی بھابھی مہرالنساء کو ملاقات کی اجازت مل گئی، چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر، سلمان صفدر اور ظہیر عباس چودھری کو بھی ملاقات کی اجازت مل گئی۔
بانی پی ٹی آئی کے فوکل پرسن نیاز اللہ نیازی ایڈووکیٹ، منورہ بلوچ داہگل ناکہ پہنچے انہیں پولیس نے روکا۔ سینیٹر فیصل جاوید، ایڈووکیٹ ظہیر عباس چوہدری کو بھی گورکھپور ناکہ پر روک لیا گیا۔
بانی پی ٹی آئی کے فوکل پرسن نیاز اللہ نیازی ایڈووکیٹ، منورہ بلوچ داہگل ناکہ پہنچے انہیں پولیس نے روکا۔ سینیٹر فیصل جاوید، ایڈووکیٹ ظہیر عباس چوہدری کو بھی گورکھپور ناکہ پر روک لیا گیا۔
سلمان صفدر میڈیا ٹاک
دریں اثنا وکیل سلمان صفدر نے عمران خان سے ملاقات سے قبل میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ہم اندر جارہے ہیں یہ ملاقات اتنی ہی اہم ہے جتنی پہلے تھی۔
صحافی نے سوال کیا کہ بانی کو جیل میں 700 دن ہوگئے آپ لوگ کوئی بھی ریلیف لینے میں ناکام رہے، اس پر سلمان صفدر نے کہا کہ ہم کوشش کرتے ہیں مقدمات عدالتوں میں لڑ رہے ہیں۔ صحافی نے سوال کیا کہ آپ لوگوں نے کیس لڑنے کی فیس 26 کروڑ روپے لی؟ اس پر سلمان صفدر نے کہا کہ اس پر واپسی میں بات کرتے ہیں۔.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: علیمہ خان نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی لیے نکلنا ہے ملاقات کی جیل میں کے لیے
پڑھیں:
ایک مفروضہ ملاقات کے چرچے
سیاست بھی عجیب کھیل ہے۔ کئی دفعہ ایسی باتیں جو ممکن نہیں ہوتیں زیر بحث آجاتی ہیں۔ سب کو معلوم ہو تا ہے کہ یہ ممکن نہیں لیکن بحث شروع ہو جاتی ہے۔ شاید جب سیاست میں حقیقی کچھ نہیں ہوتا تو لوگ مفروضوں پر سیاست کرنے لگ جاتے ہیں۔ آج کل بھی سیاست کا مندا رجحان چل رہا ہے۔ سیاست میں کچھ خاص نہیں ہو رہا۔
جمود کا شکار ہے۔ اس لیے ایسی ایسی باتیں سامنے آجاتی ہیں جن کو سوچ کر بھی حیرانی ہوتی ہے۔ ایسی ہی ایک بات نواز شریف اور عمران خان ملاقات کی بھی ہے۔ ویسے مجھے یہ موجودہ حالات میں ممکن نظر نہیں آتی۔ لیکن پھر بھی اچھا چرچا ہے۔ سب بات کر رہے ہیں۔
میں پھر واضح کر دوں میری رائے میں اس وقت ملکی سیاست میں ایسا کوئی ماحول نہیں کہ نواز شریف چل کر اڈیالہ جائیں اور بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کریں۔ لیکن پھر بھی سب بات کر رہے ہیں تو میں نے سوچا آپ سے بھی اس پر بات کر لوں۔ پہلی بات یہ کیوں ممکن نہیں۔ سادہ بات ہے کہ سیاست مفادات کا کھیل ہے۔
لوگ اکٹھے بھی تب ہوتے ہیں جب مفادات اکٹھے ہوتے ہیں۔ جب دشمن مشترکہ ہو تب بھی اکٹھے ہوتے ہیں۔ اس لیے سیاست میں اتحاد یا اکٹھا چلنے کی دو ہی شرائط ہیں۔ پہلی یا مفاد مشترکہ ہو دوسرا یا دشمن مشترکہ ہو۔ اس وقت نواز شریف اور بانی پی ٹی آئی کا نہ تو مفاد مشترکہ ہے اور نہ ہی دشمن مشترکہ ہے۔ اس لیے اتحاد کیسا ۔ ملاقات کیسی۔ بانی پی ٹی آئی اس نظام کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ نواز شریف اس نظام کا تحفظ چاہتے ہیں۔
اس لیے مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ اکٹھے چلنے کا کوئی ایجنڈا ہی نہیں ہے۔ کوئی دشمن بھی مشترکہ نہیں۔ بانی پی ٹی آئی کے دشمن نواز شریف کے دشمن نہیں ہیں۔ اس لیے سیاست کے سادہ اصول بھی اس ملاقات کے حق میں نہیں۔ ان کے مطابق بھی ملاقات ممکن نہیں۔
اس وقت نہ بانی پی ٹی آئی نواز شریف کو کچھ دے سکتے ہیں اور نہ ہی نواز شریف بانی پی ٹی آئی کو کچھ دے سکتے ہیں۔ اقتدار نواز شریف کے گھر میں موجود ہیں۔ اس کے لیے انھیں بانی پی ٹی آئی کی ضرورت نہیں۔
نواز شریف بھی بانی پی ٹی آئی کو کچھ نہیں دے سکتے۔ نواز شریف چاہتے ہوئے بھی بانی پی ٹی آئی کو اڈیالہ سے رہائی نہیں دے سکتے۔ بانی پی ٹی آئی کی رہائی نواز شریف کی سیاست کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ ان کی بیٹی اور بھائی کے اقتدار کے لیے خطرہ ہو سکتی ہے۔
نواز شریف اگر بانی پی ٹی آئی کی رہائی کی بات کریں تو ان کا مقتدرہ سے اتحاد ٹوٹ سکتا ہے۔ اس لیے کوئی ایسی شکل نظر نہیں آتی کہ نواز شریف بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے کوئی کردار ادا کر سکیں۔ سیاست میںکوئی بھی بات ایسے ہی نہیں ہوتی۔
آپ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ نواز شریف جب وزیر اعظم تھے تب بھی تو بانی پی ٹی آئی سے ملنے اڈیالہ گئے تھے۔ اب کیوں نہیں جا سکتے۔ یہ درست ہے کہ نواز شریف نے ماضی میں بانی پی ٹی آئی سے ایک سیاسی ورکنگ ریلشن شپ قائم کرنے کی کوشش کی۔
ایسا انھوں نے وزیر اعظم بننے سے پہلے بھی کیا جب بانی پی ٹی آئی انتخابی مہم کے دوران گر گئے تب بھی نواز شریف ان کی خبر لینے اسپتال گئے۔ اپنی انتخابی مہم ان کے لیے ملتوی کی۔ پھر وزیر اعظم بننے کے بعد بنی گالہ گئے۔ لیکن دونوں دفعہ ایک ایجنڈا موجود تھا۔
نواز شریف کا اندازہ تھا کہ اسٹبلشمنٹ کی واحد آپشن بانی پی ٹی آئی ہے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ بانی پی ٹی آئی اسٹبلشمنٹ کی گود میں بیٹھ کر ان کی حکومت کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ وہ سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے تھے۔ پیپلزپارٹی اپوزیشن میں ہوتے ہوئے ان کے ساتھ تھی، وہ بانی پی ٹی آئی کو بھی ساتھ لے کر چلنا چاہتے تھے۔ اس لیے بنی گالہ گئے۔ ایک ایجنڈا موجود تھا۔
لیکن آج دیکھیں یہ ملاقات کامیاب رہی یا ناکام ۔ اگر نواز شریف کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو وہ آج سوچتے ہونگے میں ایسے ہی گیا۔ جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ بانی پی ٹی آئی نے جانے کی کوئی لاج نہیں رکھی۔ نواز شریف کی حکومت ختم کرنے کے لیے اسٹبلشمنٹ کے کندھوں پر بیٹھ کر خوب کھیل کھیلا۔ نواز شریف کو نا اہل کروایا ، مائنس کرنے کی ہر کوشش کی۔
جیل بھیجا، گندی زبان استعمال کی، ہر ظلم کیا۔ اگر نواز شریف نہ بھی جاتے تو اچھا نہ تھا۔ جانے کاکوئی فائدہ نہیں ہوا۔ بانی پی ٹی آئی نے اپنا کھیل کھیلا۔اس لیے آج نواز شریف کیوں جائیں۔ ان کے پاس کیا ایجنڈا ہے۔ اور بانی پی ٹی آئی کی کیا گارنٹی ہے۔ بانی پی ٹی آئی کے چکر میں چوہدری نثار نے نواز لیگ سے اپنی سیاست ختم کر لی۔ نواز شریف کو بانی پی ٹی آئی کے گھر لے جانا ہی چوہدری نثار کا سب سے غلط فیصلہ تھا۔
آج بھی بانی پی ٹی آئی کی کوئی گارنٹی نہیں۔ کوئی بھی ان کی گارنٹی دینے کے لیے تیار نہیں۔ جنھوں نے ماضی میں گارنٹی دی ہے وہ عبرت کا نشان بنے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی نے ان کی گارنٹی کی کوئی پرواہ نہیں کی ہے۔ اب کوئی گارنٹی دینے کے لیے بھی تیار نہیں۔
فرض کریں نواز شریف اور بانی پی ٹی آئی کے درمیان کوئی بات طے بھی ہوجائے تو بانی پی ٹی آئی اس پر قائم رہیں گے اس کی کیا گارنٹی ہے۔ گارنٹی کا مسئلہ تو اسٹبلشمنٹ کو بھی درپیش ہے۔ وہ یوٹرن کو اپنی سیاست کا کمال کہتے تھے۔ آج وہی کمال ان کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
کیا ایسا کوئی موقع تھا جب نواز شریف اور بانی پی ٹی آئی کے درمیان کوئی سیاسی معاہدہ ہو سکتا۔ میں سمجھتا ہوں ایک موقع تھا۔ جب عدم اعتماد پیش کرنے کی باتیں ہو رہی تھیں۔ نواز شریف بانی پی ٹی آئی کی مدت مکمل کرنے کے حق میں تھے۔ لیکن ان پر عدم اعتماد میں شامل ہونے کا دباؤ تھا۔
تب بانی پی ٹی آئی چاہتے تو نواز شریف سے ایک سیاسی معاہدہ کر سکتے تھے۔ بانی پی ٹی آئی لندن جا کر نواز شریف سے ملاقات کر سکتے تھے۔ لیکن اس وقت بانی پی ٹی آئی نے نہیں کیا۔ وہ جنرل باجوہ کو تا حیات ایکسٹینشن کی پیشکش کرتے رہے۔ نواز شریف سے معاہدہ نہیں کیا۔ پھر نواز شریف عدم اعتما دکے ساتھ آگئے۔ شاید وہ چند دن تھے جب نواز شریف سے بات ہو سکتی تھی۔ مستقبل کی سیاست پر بات ہو سکتی تھی۔ سیاست میں اصولوں پر بات ہو سکتی تھی۔ چارٹر آف ڈیموکریسی میں بانی پی ٹی آئی کی شمولیت پر بات ہو سکتی تھی۔ اب ممکن نہیں۔
نواز شریف اور بے نظیر کے درمیان چارٹر آف ڈیموکریسی تب ہی ہوا تھا۔ جب دشمن مشترک تھا۔ دونوں مشرف کے خلاف تھے۔ اس لیے اکٹھے ہوئے تھے۔ تحریک انصاف کی سب سے بڑی ناکامی تو یہی ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد نہیں بنا سکی۔ اپوزیشن کا اتحاد بنانا سب سے آسان ہوتا ہے۔ حکومت مشترکہ دشمن ہوتی ہے۔ بانی پی ٹی آئی تو مولانا کے ساتھ اتحاد نہیں بنا سکے۔ انھوں نے نواز شریف کے ساتھ کیا ملاقات کرنی ہے۔ وہ مولانا کو سیاسی راستہ نہیں دے سکے۔ انھوں نے کسی اور کیا سیاسی راستہ دینا ہے۔
اس لیے میری رائے میں نواز شریف بانی پی ٹی آئی ملاقات کا کوئی امکان نہیں۔ ایک فیصد بھی امکان نہیں۔ دونوں اب سیاسی دشمن ہیں۔ یہی حقیقت ہے۔ نواز شریف جیت کے نشہ میں ہیں۔ انھوں نے ایک کھیل میں بانی پی ٹی آئی کو شکت دے دی ہے۔بانی پی ٹی آئی اس وقت شکست کا شکار ہیں۔ ان کے پاس کچھ نہیں۔ سیاست میں جس کے پاس کچھ نہیں۔ اس کا بھی کچھ نہیں۔