Express News:
2025-07-08@01:49:07 GMT

ایک مفروضہ ملاقات کے چرچے

اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT

 سیاست بھی عجیب کھیل ہے۔ کئی دفعہ ایسی باتیں جو ممکن نہیں ہوتیں زیر بحث آجاتی ہیں۔ سب کو معلوم ہو تا ہے کہ یہ ممکن نہیں لیکن بحث شروع ہو جاتی ہے۔ شاید جب سیاست میں حقیقی کچھ نہیں ہوتا تو لوگ مفروضوں پر سیاست کرنے لگ جاتے ہیں۔ آج کل بھی سیاست کا مندا رجحان چل رہا ہے۔ سیاست میں کچھ خاص نہیں ہو رہا۔

جمود کا شکار ہے۔ اس لیے ایسی ایسی باتیں سامنے آجاتی ہیں جن کو سوچ کر بھی حیرانی ہوتی ہے۔ ایسی ہی ایک بات نواز شریف اور عمران خان ملاقات کی بھی ہے۔ ویسے مجھے یہ موجودہ حالات میں ممکن نظر نہیں آتی۔ لیکن پھر بھی اچھا چرچا ہے۔ سب بات کر رہے ہیں۔

میں پھر واضح کر دوں میری رائے میں اس وقت ملکی سیاست میں ایسا کوئی ماحول نہیں کہ نواز شریف چل کر اڈیالہ جائیں اور بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کریں۔ لیکن پھر بھی سب بات کر رہے ہیں تو میں نے سوچا آپ سے بھی اس پر بات کر لوں۔ پہلی بات یہ کیوں ممکن نہیں۔ سادہ بات ہے کہ سیاست مفادات کا کھیل ہے۔

لوگ اکٹھے بھی تب ہوتے ہیں جب مفادات اکٹھے ہوتے ہیں۔ جب دشمن مشترکہ ہو تب بھی اکٹھے ہوتے ہیں۔ اس لیے سیاست میں اتحاد یا اکٹھا چلنے کی دو ہی شرائط ہیں۔ پہلی یا مفاد مشترکہ ہو دوسرا یا دشمن مشترکہ ہو۔ اس وقت نواز شریف اور بانی پی ٹی آئی کا نہ تو مفاد مشترکہ ہے اور نہ ہی دشمن مشترکہ ہے۔ اس لیے اتحاد کیسا ۔ ملاقات کیسی۔ بانی پی ٹی آئی اس نظام کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ نواز شریف اس نظام کا تحفظ چاہتے ہیں۔

اس لیے مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ اکٹھے چلنے کا کوئی ایجنڈا ہی نہیں ہے۔ کوئی دشمن بھی مشترکہ نہیں۔ بانی پی ٹی آئی کے دشمن نواز شریف کے دشمن نہیں ہیں۔ اس لیے سیاست کے سادہ اصول بھی اس ملاقات کے حق میں نہیں۔ ان کے مطابق بھی ملاقات ممکن نہیں۔

اس وقت نہ بانی پی ٹی آئی نواز شریف کو کچھ دے سکتے ہیں اور نہ ہی نواز شریف بانی پی ٹی آئی کو کچھ دے سکتے ہیں۔ اقتدار نواز شریف کے گھر میں موجود ہیں۔ اس کے لیے انھیں بانی پی ٹی آئی کی ضرورت نہیں۔

نواز شریف بھی بانی پی ٹی آئی کو کچھ نہیں دے سکتے۔ نواز شریف چاہتے ہوئے بھی بانی پی ٹی آئی کو اڈیالہ سے رہائی نہیں دے سکتے۔ بانی پی ٹی آئی کی رہائی نواز شریف کی سیاست کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ ان کی بیٹی اور بھائی کے اقتدار کے لیے خطرہ ہو سکتی ہے۔

نواز شریف اگر بانی پی ٹی آئی کی رہائی کی بات کریں تو ان کا مقتدرہ سے اتحاد ٹوٹ سکتا ہے۔ اس لیے کوئی ایسی شکل نظر نہیں آتی کہ نواز شریف بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے کوئی کردار ادا کر سکیں۔ سیاست میںکوئی بھی بات ایسے ہی نہیں ہوتی۔

آپ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ نواز شریف جب وزیر اعظم تھے تب بھی تو بانی پی ٹی آئی سے ملنے اڈیالہ گئے تھے۔ اب کیوں نہیں جا سکتے۔ یہ درست ہے کہ نواز شریف نے ماضی میں بانی پی ٹی آئی سے ایک سیاسی ورکنگ ریلشن شپ قائم کرنے کی کوشش کی۔

ایسا انھوں نے وزیر اعظم بننے سے پہلے بھی کیا جب بانی پی ٹی آئی انتخابی مہم کے دوران گر گئے تب بھی نواز شریف ان کی خبر لینے اسپتال گئے۔ اپنی انتخابی مہم ان کے لیے ملتوی کی۔ پھر وزیر اعظم بننے کے بعد بنی گالہ گئے۔ لیکن دونوں دفعہ ایک ایجنڈا موجود تھا۔

نواز شریف کا اندازہ تھا کہ اسٹبلشمنٹ کی واحد آپشن بانی پی ٹی آئی ہے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ بانی پی ٹی آئی اسٹبلشمنٹ کی گود میں بیٹھ کر ان کی حکومت کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ وہ سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے تھے۔ پیپلزپارٹی اپوزیشن میں ہوتے ہوئے ان کے ساتھ تھی، وہ بانی پی ٹی آئی کو بھی ساتھ لے کر چلنا چاہتے تھے۔ اس لیے بنی گالہ گئے۔ ایک ایجنڈا موجود تھا۔

لیکن آج دیکھیں یہ ملاقات کامیاب رہی یا ناکام ۔ اگر نواز شریف کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو وہ آج سوچتے ہونگے میں ایسے ہی گیا۔ جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ بانی پی ٹی آئی نے جانے کی کوئی لاج نہیں رکھی۔ نواز شریف کی حکومت ختم کرنے کے لیے اسٹبلشمنٹ کے کندھوں پر بیٹھ کر خوب کھیل کھیلا۔ نواز شریف کو نا اہل کروایا ، مائنس کرنے کی ہر کوشش کی۔

جیل بھیجا، گندی زبان استعمال کی، ہر ظلم کیا۔ اگر نواز شریف نہ بھی جاتے تو اچھا نہ تھا۔ جانے کاکوئی فائدہ نہیں ہوا۔ بانی پی ٹی آئی نے اپنا کھیل کھیلا۔اس لیے آج نواز شریف کیوں جائیں۔ ان کے پاس کیا ایجنڈا ہے۔ اور بانی پی ٹی آئی کی کیا گارنٹی ہے۔ بانی پی ٹی آئی کے چکر میں چوہدری نثار نے نواز لیگ سے اپنی سیاست ختم کر لی۔ نواز شریف کو بانی پی ٹی آئی کے گھر لے جانا ہی چوہدری نثار کا سب سے غلط فیصلہ تھا۔

آج بھی بانی پی ٹی آئی کی کوئی گارنٹی نہیں۔ کوئی بھی ان کی گارنٹی دینے کے لیے تیار نہیں۔ جنھوں نے ماضی میں گارنٹی دی ہے وہ عبرت کا نشان بنے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی نے ان کی گارنٹی کی کوئی پرواہ نہیں کی ہے۔ اب کوئی گارنٹی دینے کے لیے بھی تیار نہیں۔

فرض کریں نواز شریف اور بانی پی ٹی آئی کے درمیان کوئی بات طے بھی ہوجائے تو بانی پی ٹی آئی اس پر قائم رہیں گے اس کی کیا گارنٹی ہے۔ گارنٹی کا مسئلہ تو اسٹبلشمنٹ کو بھی درپیش ہے۔ وہ یوٹرن کو اپنی سیاست کا کمال کہتے تھے۔ آج وہی کمال ان کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

کیا ایسا کوئی موقع تھا جب نواز شریف اور بانی پی ٹی آئی کے درمیان کوئی سیاسی معاہدہ ہو سکتا۔ میں سمجھتا ہوں ایک موقع تھا۔ جب عدم اعتماد پیش کرنے کی باتیں ہو رہی تھیں۔ نواز شریف بانی پی ٹی آئی کی مدت مکمل کرنے کے حق میں تھے۔ لیکن ان پر عدم اعتماد میں شامل ہونے کا دباؤ تھا۔

تب بانی پی ٹی آئی چاہتے تو نواز شریف سے ایک سیاسی معاہدہ کر سکتے تھے۔ بانی پی ٹی آئی لندن جا کر نواز شریف سے ملاقات کر سکتے تھے۔ لیکن اس وقت بانی پی ٹی آئی نے نہیں کیا۔ وہ جنرل باجوہ کو تا حیات ایکسٹینشن کی پیشکش کرتے رہے۔ نواز شریف سے معاہدہ نہیں کیا۔ پھر نواز شریف عدم اعتما دکے ساتھ آگئے۔ شاید وہ چند دن تھے جب نواز شریف سے بات ہو سکتی تھی۔ مستقبل کی سیاست پر بات ہو سکتی تھی۔ سیاست میں اصولوں پر بات ہو سکتی تھی۔ چارٹر آف ڈیموکریسی میں بانی پی ٹی آئی کی شمولیت پر بات ہو سکتی تھی۔ اب ممکن نہیں۔

نواز شریف اور بے نظیر کے درمیان چارٹر آف ڈیموکریسی تب ہی ہوا تھا۔ جب دشمن مشترک تھا۔ دونوں مشرف کے خلاف تھے۔ اس لیے اکٹھے ہوئے تھے۔ تحریک انصاف کی سب سے بڑی ناکامی تو یہی ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد نہیں بنا سکی۔ اپوزیشن کا اتحاد بنانا سب سے آسان ہوتا ہے۔ حکومت مشترکہ دشمن ہوتی ہے۔ بانی پی ٹی آئی تو مولانا کے ساتھ اتحاد نہیں بنا سکے۔ انھوں نے نواز شریف کے ساتھ کیا ملاقات کرنی ہے۔ وہ مولانا کو سیاسی راستہ نہیں دے سکے۔ انھوں نے کسی اور کیا سیاسی راستہ دینا ہے۔

اس لیے میری رائے میں نواز شریف بانی پی ٹی آئی ملاقات کا کوئی امکان نہیں۔ ایک فیصد بھی امکان نہیں۔ دونوں اب سیاسی دشمن ہیں۔ یہی حقیقت ہے۔ نواز شریف جیت کے نشہ میں ہیں۔ انھوں نے ایک کھیل میں بانی پی ٹی آئی کو شکت دے دی ہے۔بانی پی ٹی آئی اس وقت شکست کا شکار ہیں۔ ان کے پاس کچھ نہیں۔ سیاست میں جس کے پاس کچھ نہیں۔ اس کا بھی کچھ نہیں۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

نواز شریف اور عمران خان کی ملاقات کی خبریں بے بنیاد ہیں، اسحاق ڈار

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

 

لاہور: نائب وزیرِاعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے درمیان اڈیالہ جیل میں ہونے والی مبینہ ملاقات کو محض افواہ قرار دے دیا۔

حضرت داتا گنج بخش کے مزار پر 982 ویں عرس کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ یہ خبر کسی کی خواہش تو ہوسکتی ہے مگر اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

انہوں نے دوٹوک کہا کہ مسلم لیگ (ن) اور اس کی قیادت کا ایجنڈا واضح ہے، جس کا محور ملک کی معاشی خوشحالی اور سلامتی ہے۔

اسحاق ڈار نے بتایا کہ حالیہ آذربائیجان کے دورے کے دوران پاکستان نے 2 ارب ڈالر مالیت کے معاہدے کیے ہیں، جو ملکی معیشت کے لیے بڑی پیش رفت ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی کوششوں سے مہنگائی میں کمی آئی ہے اور عوام کو مزید ریلیف دینے کے لیے جامع اقدامات کیے جارہے ہیں۔

نائب وزیراعظم نے مزار داتا دربار پر ترقیاتی منصوبوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے دربار کے احاطے میں مدینہ منورہ طرز کی چھتریوں کی تنصیب کی منظوری دے دی ہے۔

خارجہ امور پر بات کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان نے بھارتی جارحیت کا 9 اور 10 مئی کی درمیانی شب بھرپور جواب دیا اور فضائی حدود میں بھارت کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ اللہ کے فضل سے آج پاکستان عالمی سطح پر ایک منفرد مقام رکھتا ہے اور سلامتی کونسل کی صدارت اس کی واضح مثال ہے۔

ایران سے تعلقات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہر مشکل وقت میں ایران کا ساتھ دیا، جس کا ایران کی عوام نے بھرپور خیر مقدم کیا۔ ساتھ ہی اسرائیل کی جانب سے ایران پر کیے گئے حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے اور جنگ اس کے ایجنڈے کا حصہ نہیں۔

سیاسی صورتحال پر بات کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے واضح کیا کہ پیپلز پارٹی حکومت کی مضبوط اتحادی ہے اور کسی قسم کے عہدوں کی خواہشمند نہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پارلیمنٹ میں مستحکم اکثریت رکھتی ہے اور نواز شریف و عمران خان کی ملاقات سے متعلق گردش کرنے والی افواہیں حقائق کے برعکس ہیں۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ نواز شریف اور عمران خان کی ملاقات کی خبریں محض افواہیں ہیں، نہ ایسی کوئی ملاقات ہوئی اور نہ ہی اس کا کوئی امکان ہے۔

 

 

 

متعلقہ مضامین

  • صدر کی تبدیلی کی کوئی تجویز زیر غور نہیں، نواز شریف کی اڈیالہ ملاقات کی خبر بے بنیاد ہے، عرفان صدیقی
  • چوہدری نثار کی واپسی زیر غور نہیں، نواز شریف کے قریبی ساتھی عرفان صدیقی کا بیان
  • اسحاق ڈار نے نواز شریف کی عمران خان سے ملنے کی خبروں کی تردید کردی
  • نواز شریف کی اڈیالہ جیل میں بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی باتیں قیاس آرائیاں ہیں، اسحاق ڈار
  • نواز شریف کی عمران خان سے ملاقات،اسحاق ڈار نے آخرکاراندرکی بات بتادی
  • نواز شریف کی عمران خان سے ملاقات کی خبریں محض افواہیں ہیں : اسحاق ڈار
  • نواز شریف اور عمران خان کی ملاقات کی خبریں بے بنیاد ہیں، اسحاق ڈار
  • نواز شریف کا اڈیالہ جیل جانے کا ارادہ نہیں، عمران خان سے ملاقات کی کہانی بے معنی ہے، سینیٹر عرفان صدیقی
  • نوازشریف کوتو ان کی فیملی نہیں پوچھتی، عمران سے ملاقات نہیں ہوسکتی، علیمہ خان