سیاست بھی عجیب کھیل ہے۔ کئی دفعہ ایسی باتیں جو ممکن نہیں ہوتیں زیر بحث آجاتی ہیں۔ سب کو معلوم ہو تا ہے کہ یہ ممکن نہیں لیکن بحث شروع ہو جاتی ہے۔ شاید جب سیاست میں حقیقی کچھ نہیں ہوتا تو لوگ مفروضوں پر سیاست کرنے لگ جاتے ہیں۔ آج کل بھی سیاست کا مندا رجحان چل رہا ہے۔ سیاست میں کچھ خاص نہیں ہو رہا۔
جمود کا شکار ہے۔ اس لیے ایسی ایسی باتیں سامنے آجاتی ہیں جن کو سوچ کر بھی حیرانی ہوتی ہے۔ ایسی ہی ایک بات نواز شریف اور عمران خان ملاقات کی بھی ہے۔ ویسے مجھے یہ موجودہ حالات میں ممکن نظر نہیں آتی۔ لیکن پھر بھی اچھا چرچا ہے۔ سب بات کر رہے ہیں۔
میں پھر واضح کر دوں میری رائے میں اس وقت ملکی سیاست میں ایسا کوئی ماحول نہیں کہ نواز شریف چل کر اڈیالہ جائیں اور بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کریں۔ لیکن پھر بھی سب بات کر رہے ہیں تو میں نے سوچا آپ سے بھی اس پر بات کر لوں۔ پہلی بات یہ کیوں ممکن نہیں۔ سادہ بات ہے کہ سیاست مفادات کا کھیل ہے۔
لوگ اکٹھے بھی تب ہوتے ہیں جب مفادات اکٹھے ہوتے ہیں۔ جب دشمن مشترکہ ہو تب بھی اکٹھے ہوتے ہیں۔ اس لیے سیاست میں اتحاد یا اکٹھا چلنے کی دو ہی شرائط ہیں۔ پہلی یا مفاد مشترکہ ہو دوسرا یا دشمن مشترکہ ہو۔ اس وقت نواز شریف اور بانی پی ٹی آئی کا نہ تو مفاد مشترکہ ہے اور نہ ہی دشمن مشترکہ ہے۔ اس لیے اتحاد کیسا ۔ ملاقات کیسی۔ بانی پی ٹی آئی اس نظام کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ نواز شریف اس نظام کا تحفظ چاہتے ہیں۔
اس لیے مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ اکٹھے چلنے کا کوئی ایجنڈا ہی نہیں ہے۔ کوئی دشمن بھی مشترکہ نہیں۔ بانی پی ٹی آئی کے دشمن نواز شریف کے دشمن نہیں ہیں۔ اس لیے سیاست کے سادہ اصول بھی اس ملاقات کے حق میں نہیں۔ ان کے مطابق بھی ملاقات ممکن نہیں۔
اس وقت نہ بانی پی ٹی آئی نواز شریف کو کچھ دے سکتے ہیں اور نہ ہی نواز شریف بانی پی ٹی آئی کو کچھ دے سکتے ہیں۔ اقتدار نواز شریف کے گھر میں موجود ہیں۔ اس کے لیے انھیں بانی پی ٹی آئی کی ضرورت نہیں۔
نواز شریف بھی بانی پی ٹی آئی کو کچھ نہیں دے سکتے۔ نواز شریف چاہتے ہوئے بھی بانی پی ٹی آئی کو اڈیالہ سے رہائی نہیں دے سکتے۔ بانی پی ٹی آئی کی رہائی نواز شریف کی سیاست کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ ان کی بیٹی اور بھائی کے اقتدار کے لیے خطرہ ہو سکتی ہے۔
نواز شریف اگر بانی پی ٹی آئی کی رہائی کی بات کریں تو ان کا مقتدرہ سے اتحاد ٹوٹ سکتا ہے۔ اس لیے کوئی ایسی شکل نظر نہیں آتی کہ نواز شریف بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے کوئی کردار ادا کر سکیں۔ سیاست میںکوئی بھی بات ایسے ہی نہیں ہوتی۔
آپ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ نواز شریف جب وزیر اعظم تھے تب بھی تو بانی پی ٹی آئی سے ملنے اڈیالہ گئے تھے۔ اب کیوں نہیں جا سکتے۔ یہ درست ہے کہ نواز شریف نے ماضی میں بانی پی ٹی آئی سے ایک سیاسی ورکنگ ریلشن شپ قائم کرنے کی کوشش کی۔
ایسا انھوں نے وزیر اعظم بننے سے پہلے بھی کیا جب بانی پی ٹی آئی انتخابی مہم کے دوران گر گئے تب بھی نواز شریف ان کی خبر لینے اسپتال گئے۔ اپنی انتخابی مہم ان کے لیے ملتوی کی۔ پھر وزیر اعظم بننے کے بعد بنی گالہ گئے۔ لیکن دونوں دفعہ ایک ایجنڈا موجود تھا۔
نواز شریف کا اندازہ تھا کہ اسٹبلشمنٹ کی واحد آپشن بانی پی ٹی آئی ہے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ بانی پی ٹی آئی اسٹبلشمنٹ کی گود میں بیٹھ کر ان کی حکومت کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ وہ سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے تھے۔ پیپلزپارٹی اپوزیشن میں ہوتے ہوئے ان کے ساتھ تھی، وہ بانی پی ٹی آئی کو بھی ساتھ لے کر چلنا چاہتے تھے۔ اس لیے بنی گالہ گئے۔ ایک ایجنڈا موجود تھا۔
لیکن آج دیکھیں یہ ملاقات کامیاب رہی یا ناکام ۔ اگر نواز شریف کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو وہ آج سوچتے ہونگے میں ایسے ہی گیا۔ جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ بانی پی ٹی آئی نے جانے کی کوئی لاج نہیں رکھی۔ نواز شریف کی حکومت ختم کرنے کے لیے اسٹبلشمنٹ کے کندھوں پر بیٹھ کر خوب کھیل کھیلا۔ نواز شریف کو نا اہل کروایا ، مائنس کرنے کی ہر کوشش کی۔
جیل بھیجا، گندی زبان استعمال کی، ہر ظلم کیا۔ اگر نواز شریف نہ بھی جاتے تو اچھا نہ تھا۔ جانے کاکوئی فائدہ نہیں ہوا۔ بانی پی ٹی آئی نے اپنا کھیل کھیلا۔اس لیے آج نواز شریف کیوں جائیں۔ ان کے پاس کیا ایجنڈا ہے۔ اور بانی پی ٹی آئی کی کیا گارنٹی ہے۔ بانی پی ٹی آئی کے چکر میں چوہدری نثار نے نواز لیگ سے اپنی سیاست ختم کر لی۔ نواز شریف کو بانی پی ٹی آئی کے گھر لے جانا ہی چوہدری نثار کا سب سے غلط فیصلہ تھا۔
آج بھی بانی پی ٹی آئی کی کوئی گارنٹی نہیں۔ کوئی بھی ان کی گارنٹی دینے کے لیے تیار نہیں۔ جنھوں نے ماضی میں گارنٹی دی ہے وہ عبرت کا نشان بنے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی نے ان کی گارنٹی کی کوئی پرواہ نہیں کی ہے۔ اب کوئی گارنٹی دینے کے لیے بھی تیار نہیں۔
فرض کریں نواز شریف اور بانی پی ٹی آئی کے درمیان کوئی بات طے بھی ہوجائے تو بانی پی ٹی آئی اس پر قائم رہیں گے اس کی کیا گارنٹی ہے۔ گارنٹی کا مسئلہ تو اسٹبلشمنٹ کو بھی درپیش ہے۔ وہ یوٹرن کو اپنی سیاست کا کمال کہتے تھے۔ آج وہی کمال ان کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
کیا ایسا کوئی موقع تھا جب نواز شریف اور بانی پی ٹی آئی کے درمیان کوئی سیاسی معاہدہ ہو سکتا۔ میں سمجھتا ہوں ایک موقع تھا۔ جب عدم اعتماد پیش کرنے کی باتیں ہو رہی تھیں۔ نواز شریف بانی پی ٹی آئی کی مدت مکمل کرنے کے حق میں تھے۔ لیکن ان پر عدم اعتماد میں شامل ہونے کا دباؤ تھا۔
تب بانی پی ٹی آئی چاہتے تو نواز شریف سے ایک سیاسی معاہدہ کر سکتے تھے۔ بانی پی ٹی آئی لندن جا کر نواز شریف سے ملاقات کر سکتے تھے۔ لیکن اس وقت بانی پی ٹی آئی نے نہیں کیا۔ وہ جنرل باجوہ کو تا حیات ایکسٹینشن کی پیشکش کرتے رہے۔ نواز شریف سے معاہدہ نہیں کیا۔ پھر نواز شریف عدم اعتما دکے ساتھ آگئے۔ شاید وہ چند دن تھے جب نواز شریف سے بات ہو سکتی تھی۔ مستقبل کی سیاست پر بات ہو سکتی تھی۔ سیاست میں اصولوں پر بات ہو سکتی تھی۔ چارٹر آف ڈیموکریسی میں بانی پی ٹی آئی کی شمولیت پر بات ہو سکتی تھی۔ اب ممکن نہیں۔
نواز شریف اور بے نظیر کے درمیان چارٹر آف ڈیموکریسی تب ہی ہوا تھا۔ جب دشمن مشترک تھا۔ دونوں مشرف کے خلاف تھے۔ اس لیے اکٹھے ہوئے تھے۔ تحریک انصاف کی سب سے بڑی ناکامی تو یہی ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد نہیں بنا سکی۔ اپوزیشن کا اتحاد بنانا سب سے آسان ہوتا ہے۔ حکومت مشترکہ دشمن ہوتی ہے۔ بانی پی ٹی آئی تو مولانا کے ساتھ اتحاد نہیں بنا سکے۔ انھوں نے نواز شریف کے ساتھ کیا ملاقات کرنی ہے۔ وہ مولانا کو سیاسی راستہ نہیں دے سکے۔ انھوں نے کسی اور کیا سیاسی راستہ دینا ہے۔
اس لیے میری رائے میں نواز شریف بانی پی ٹی آئی ملاقات کا کوئی امکان نہیں۔ ایک فیصد بھی امکان نہیں۔ دونوں اب سیاسی دشمن ہیں۔ یہی حقیقت ہے۔ نواز شریف جیت کے نشہ میں ہیں۔ انھوں نے ایک کھیل میں بانی پی ٹی آئی کو شکت دے دی ہے۔بانی پی ٹی آئی اس وقت شکست کا شکار ہیں۔ ان کے پاس کچھ نہیں۔ سیاست میں جس کے پاس کچھ نہیں۔ اس کا بھی کچھ نہیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
سیاسی درجہ حرارت میں تخفیف کی کوشش؟
بانی پی ٹی آئی کو جیل میں گئے دو سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے ۔ شروع شروع میں کہا گیا تھا کہ بانی صاحب زیادہ عرصہ پسِ دیوارِ زنداں نہیں گزار سکیں گے ۔ جیل کی سختیاں اور صعوبتیں جَلد ہی اُنہیں مُک مکا کرنے کی طرف راغب کر دیں گی اور وہ ’’ڈِیل‘‘ یا ’’ این آر او‘‘ لے کر جیل سے باہر آ جائیں گے ۔ ایسا مگر نہیں ہو سکا ۔ یہ حقیقت ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی نہ ہونے سے اُن کے عشاق میں غصہ بتدریج بڑھتا ہی گیا ہے۔
اِسے پی ٹی آئی کی فرسٹریشن کہا جائے یا غیر حکیمانہ اسلوبِ سیاست کہ وہ9مئی ایسا سانحہ بھی کر گزرے۔ اُن کا خیال تھا کہ ایسے آتشیں ہتھکنڈے استعمال کرکے وہ حکومت اور طاقتوروں کو دباؤ میں لے آئیں گے اور یوں وہ اپنے’’ محبوب‘‘ کو دوبارہ برسرِ اقتدار یا اپنے درمیان لا بٹھائیں گے۔مگر یہ ہتھکنڈہ اور کوشش بھی ناکامی پر منتج ہُوئی۔
26 نومبر 2023کو خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ اور بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ محترمہ کی زیر قیادت اسلام آباد پر پی ٹی آئی کے جوشیلے اور جذباتی کارکنوں کی چڑھائی بھی اپنے مقاصد حاصل نہ کر سکی۔اِن پے درپے ناکامیوں نے پی ٹی آئی کے کارکنوں اور وابستگان میں مزید فرسٹریشن پیدا کی ہے ۔ یہ فرسٹریشن دراصل حکومت اور پی ٹی آئی میں سیاسی درجہ حرارت کو بڑھانے کا سبب بھی بنی ہے ۔ یہ بڑھی ہُوئی فرسٹریشن اور بڑھا ہُوا سیاسی درجہ حرارت خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلیٰ ، علی امین گنڈا پور، کی وزارتِ اعلیٰ بھی نگل گیا ہے ۔
جب سے کے پی کے میں نئے وزیر اعلیٰ تشریف لائے ہیں ، سیاسی درجہ حرارت مزید بڑھا ہے ۔سہیل آفریدی صاحب نے بطورِ وزیر اعلیٰ جن بیانات کے ’’گولے‘‘ داغے ہیں، ان کی حرارت بھی محسوس کی گئی ہے ۔ اِس گرمائش کو ٹھنڈا کرنے اور درجہ حرارت کو نیچے لانے کے لیے وزیر اعظم ، جناب شہباز شریف، نے نئے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کو مبارکباد اور ملاقات کی دعوت بھی دی ہے ۔ اِس کے ساتھ ہی کور کمانڈر پشاور کی سہیل آفریدی صاحب سے ملاقات کے لیے جانا بھی اِسی ضمن کی ایک کوشش کہی جا سکتی ہے ۔
خیبر پختونخوا میں افغان طالبان کے زیر سرپرستی ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے جو بدمعاشیاں شروع کر رکھی ہیں، ان کا ٹیٹوا دبانے اور سر کچلنے کے لیے بھی لازم ہے کہ ملک میں سیاسی درجہ حرارت نیچے لایا جائے ؛ چنانچہ تین روز قبل جب لاہور کے ایک مشہور اسپتال میں بغرضِ علاج داخل پی ٹی آئی کے سینئر وائس چیئرمین ، جناب شاہ محمود قریشی، کی عیادت کے لیے پی ٹی آئی کی سابق سینئر قیادت( فواد چوہدری، عمران اسماعیل ، محمود مولوی) پہنچی تو اِسے بھی سیاسی درجہ حرارت نیچے لانے سے معنون کیا گیا۔
میڈیا میں یہ خبریں بھی آئی ہیں کہ فواد چوہدری ، عمران اسماعیل، محبوب مولوی ، علی زیدی ، سبطین خان اور دیگر پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی زیر قیادت ’’ریلیز بانی پی ٹی آئی‘‘ کی ایک نئی تحریک کا آغاز بھی ہُوا چاہتا ہے۔ قیافوں کے مطابق : پی ٹی آئی کی مذکورہ سابق قیادت اڈیالہ جیل میں قید بانی پی ٹی آئی سے ملے گی اور بتوسط شاہ محمود قریشی ، بانی صاحب کو ایک قدم پیچھے ہٹنے کی طرف مائل کریگی ۔
ساتھ ہی یہی لوگ حکومت سے بھی میل ملاقاتیں کریں گے ، حکمرانوں سے بھی گزارش کریں گے کہ بہت ہو گیا تناؤ اور کھچاؤ ، اب اِس ضمن میں حکومت بھی ایک قدم پیچھے ہٹے ۔ اور یوں مفاہمت کی ایک فضا قائم کرنے کی دانستہ کوشش کی جائے ۔ اور جب مفاہمت کے لیے فضا ہموار ہوجائے گی تو بڑھے ہُوئے سیاسی درجہ حرات میں تخفیف یا کمی بھی واقع ہو جائے گی۔ اور یوں بانی پی پی ٹی آئی کی رہائی کی بھی کوئی سبیل نکل آئے گی ۔ مگر سب سے پہلا مرحلہ تو یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی خود تو جیل سے رہائی پائیں ۔ توقعات ظاہر کی گئی ہیں کہ رہائی کے بعد شاہ محمود قریشی حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان پُل کا کردار ادا کر سکیں گے۔
یہ خبریں سامنے آنے کے بعد کہ پی ٹی آئی کے بعض ’’اولڈ گارڈز‘‘ اپنے تئیں کوششیں کرنے لگے ہیں کہ ملک میں بڑھتے سیاسی درجہ حرات کو نیچے لایا جائے ، چند ’’اولڈ گارڈز‘‘ تردیدوں پر بھی اُتر آئے ہیں ۔ مثال کے طور پر اسد عمر اور علی زیدی۔خبروں میں دونوں ہی کے اسمائے گرامی شامل کرکے دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ صاحبان بھی بانی پی ٹی آئی کی مبینہ رہائی تحریک میں شامل ہیں ۔
پی ٹی آئی کے سابق وفاقی وزیر ، اسد عمر، نے یکم نومبر2025ء کو اپنے ٹویٹ میں کہا:’’ آج اخباروں اور سوشل میڈیا کے زریعے نظر آیا کہ مَیں عمران خان کی رہائی کے لیے کسی تحریک کا حصہ ہُوں۔ مبینہ طور پریہ تحریک پی ٹی آئی کے ماضی کے لیڈر شروع کررہے ہیں۔ کوئی بھی کاوش جو عمران خان اوردوسرے اسیروں کی رہائی کے لیے ہو، اچھی بات ہے، لیکن جس (رہائی)تحریک کا ذکر کیا جا رہا ہے، مَیں اُس کا حصہ نہیں ہُوں۔‘‘ اِسی طرح پی ٹی آئی کے سابق لیڈر اور سابق وفاقی وزیر، علی زیدی، نے ایک انگریزی معاصر کے توسط سے مذکورہ رپورٹوں اور تحریکِ رہائی میں حصہ لینے کی تردید کرتے ہُوئے، یکم نومبر ہی کو، کہا:’’ مَیں ایسا کام کرنے کا قطعی ارادہ نہیں رکھتا ہُوں۔میرے معاشی حالات اجازت دیتے ہیں نہ خاندانی ، اس لیے مَیں یہ بات کلیئر کرنا چاہتا ہُوں کہ مَیں جلدکسی بھی طرح سیاست میں داخل نہیں ہورہا۔ ‘‘ پھر وہ سیاست میں جَلد داخل نہ ہونے کی وجہ بتاتے ہُوئے اپنے ٹویٹ میں کہتے ہیں:’ ’ملک میں کوئی سیاست ہے ہی نہیں ۔ کرپشن کا غلبہ ہے۔
بانی پی ٹی آئی واحد لیڈر تھے اور ہیں جنھوں نے اِس سسٹم کو تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ افسوس اُنہیں غیر قانونی طور پر جیل میںرکھا گیا ہے ۔ اور ہم سب جانتے ہیں کیوں۔‘‘اسد عمر، علی زیدی ، فواد چوہدری، عمران اسماعیل وغیرہ پی ٹی آئی کی وہ’’ ہستیاں‘‘ ہیں جو9مئی کے سانحہ کے بعد شروع ہونے والے کریک ڈاؤن کے دوران سیاست ہی سے تائب ہو گئے تھے یا جنہیں بانی پی ٹی آئی نے خود پارٹی سے نکال باہر کیا تھا۔ شائد اِسی لیے جب مذکورہ شخصیات کی شاہ محمود قریشی سے ملاقات کے بعد سیاسی ہلچل پیدا ہُوئی اور سیاسی درجہ حرارت میں تخفیف کے مباحث شروع ہُوئے (اور خاص طور پر فواد چوہدری کی سیاسی پتنگ اُڑنے لگی) تو پی ٹی آئی کے ایم این اے اور مرکزی سیکریٹری اطلاعات، شیخ وقاص اکرم ، نے مبینہ طور پر ردِ عمل دیتے ہُوئے کہا:’’مذکورہ ملاقات اور ملاقات کرنے والوں کی اہمیت تب ہو جب ان کی پارٹی میں کوئی حیثیت بھی ہو۔
جب انھیں پارٹی سے نکالا جا چکا ہے تو ان کی ملاقاتوں کی بنیادی حیثیت ہی ختم ہو جاتی ہے۔‘‘ اِس سخت ردِ عمل سے یہ اندازہ لگانا سہل ہو جاتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو رہا کرانے کی مبینہ تحریک اور سیاسی درجہ حرارت کو نیچے لانے کی مبینہ کوششیں ، کم از کم، پی ٹی آئی میں(فی الحال) کوئی قبولیت نہیں رکھتیں ؛ چنانچہ بعض اطراف سے یہ بدگمانی بھی کی جارہی ہے کہ مذکورہ رہائی تحریک کی شروعات کرنے والوں کودراصل کسی کا اشارہ ہے ۔
بانی پی ٹی آئی کے جیل میں مقید ہونے سے کئی ملکی سیاسی معاملات اور خیبر پختونخوا میں امن و امان کی فضا معلّق سی ہو کر رہ گئی ہے ۔ اِسی کی تحلیل کے لیے پی ٹی آئی کی سابقہ سینئر قیادت نے شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی ہے۔ یہی سابقہ قیادت جیل میں قید پی ٹی آئی کے سابق سینیٹر اعجاز چوہدری ، سابق صوبائی وزیر میاں محمود الرشید اور پی ٹی آئی کے سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ سے بھی ملی ہے ۔
آخر الذکر دونوں شخصیات بھی اسپتال میں بوجوہ داخل ہیں ۔ پی ٹی آئی کی مذکورہ سابقہ قیادت کا موقف ہے کہ پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت بانی پی ٹی آئی کو باہر نکالنے کی ہمت ، سکت اور اہلیت نہیں رکھتی، اس لیے ہمیں یہ قدم اُٹھانا پڑا ہے ۔سیاسی درجہ حرارت نیچے لانے کی یہ کوشش و سعی مستحسن تو قرار دی جاسکتی ہے ، مگر سوال یہ ہے کہ اِس کوشش کے خلاف پی ٹی آئی قیادت میں جو ردِ عمل دیکھنے میں آرہا ہے، اِس کا سبب اور علاج کیا ہے؟ بانی پی ٹی آئی بھی تو اِس ضمن میں ابھی کچھ نہیں بولے۔