بی جے پی اور جے ڈی یو نے ملکر بہار کو ملک کی "کرائم کیپیٹل" بنا دیا ہے، ملکارجن کھڑگے
اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT
اپوزیشن اور عوام دونوں حکومت سے جوابدہی چاہتے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ بہار کو خوف، غربت اور بے یقینی سے نکالنے کیلئے فوری اقدامات کئے جائیں۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی ریاست بہار میں کاروباری گوپال کھیمکا کے قتل اور پورنیہ میں جادو ٹونا کے شبہ میں پانچ افراد کو زندہ جلانے کے دل دہلا دینے والے واقعے نے ریاست کی نظم و نسق پر گہرے سوالات کھڑے کر دئے ہیں۔ ایک طرف تاجر طبقہ صدمے میں ہے، تو دوسری جانب عوام اور حزب اختلاف کی جانب سے شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ کانگریس کمیٹی کے صدر ملکارجن کھڑگے نے ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے بہار کی حکمران جماعت "جے ڈی یو-بی جے پی حکومت" پر سخت تنقید کی اور کہا کہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران آٹھ تاجروں کو قتل کر دیا گیا، جبکہ پانچ بار پولیس اہلکاروں کو بھی عوامی غصے کا سامنا کرتے ہوئے پٹائی کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ کل ہی پورنیہ میں ایک ہی خاندان کے پانچ افراد کو توہم پرستی کی بنیاد پر جادو ٹونا کرنے والے قرار دے کر زندہ جلا دیا گیا، جن میں معصوم بچے بھی شامل تھے۔
ملکارجن کھڑگے نے جے ڈی یو اور بی جے پی کے اتحاد کو "ٹھگ بندھن" قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ان دونوں جماعتوں نے مل کر بہار کو ملک کی "کرائم کیپیٹل" بنا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت کے اپنے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بہار میں غربت اپنی انتہا پر ہے، جبکہ سماجی اور اقتصادی انصاف کی صورتحال دن بدن بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ بہار میں قانون کا نظام مفلوج ہو چکا ہے، جس کے سبب ریاست میں سرمایہ کاری صرف فائلوں اور تقریروں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ملکارجن کھڑگے کا کہنا تھا کہ ریاست کے عوام اب بیدار ہو چکے ہیں اور اس بار بہار نے طے کر لیا ہے کہ وہ مزید بیمار نہیں رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ انڈیا اتحاد بہار میں تبدیلی لا کر رہے گا، کیونکہ عوام اب ٹھوس تبدیلی چاہتے ہیں۔
دریں ثنا گوپال کھیمکا کے قتل پر تاجر برادری میں خوف کا ماحول ہے۔ ان کے اہل خانہ اور مقامی تاجروں نے بہار حکومت سے قاتلوں کی فوری گرفتاری اور تحفظ کی یقین دہانی کا مطالبہ کیا ہے۔ پورنیہ کے واقعے نے بھی انسانی سماج کے اندر جڑیں پکڑتی توہم پرستی اور حکومت کی ناکامی کو بے نقاب کر دیا ہے، جہاں معمولی شک کی بنیاد پر ایک پورے خاندان کو زندہ جلایا گیا اور پولیس کچھ نہ کر سکی۔ ان پے در پے واردات نے ریاست کی قانون و انتظامیہ پر اعتماد کو شدید دھچکہ پہنچایا ہے۔ اپوزیشن اور عوام دونوں حکومت سے جوابدہی چاہتے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ بہار کو خوف، غربت اور بے یقینی سے نکالنے کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ملکارجن کھڑگے بہار میں انہوں نے کہ بہار بہار کو کہا کہ
پڑھیں:
گلگت بلتستان کا یوم آزادی اور درپیش چیلنجز
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-4
راجا ذاکرخان
گلگت بلتستان کے عوام یکم نومبرکو یوم آزادی گلگت بلتستان بھرپور انداز سے مناتے ہیں، یکم نومبر 1947 کو گلگت بلتستان کے بہادر اور غیور عوام نے ڈوگرہ فوج سے 28 ہزار مربع میل کا علاقہ جہاد سے آزاد کرایا، گلگت بلتستان کے بچوں، بوڑھوں، مرد اور خواتین نے آزادی کے لیے اپنے سب کچھ قربان کرکے آزادی کی نعمت حاصل کی، تقسیم ہند کے اصولوں کے مطابق مسلم اکثریت والے علاقوں نے پاکستان بننا تھا اور ہندو اکثریتی علاقوں نے ہندوستان میں شامل ہونا تھا مگر انگریزوں اور ہندووں کی ملی بھگت سے وہ مسلم علاقے پاکستان میں شامل نہ ہوسکے جس میں کشمیر بھی شامل ہے، کشمیر پر مسلط ڈوگرہ نے ہندوستان سے جعلی اعلان الحاق کیا جس کی وہ سے تنازع پیدا ہوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام نے جہاد سے یہ خطے آزاد کرالیے مقبوضہ کشمیر سمیت دیگر کشمیرکے علاقوں پر ہندوستان نے جبری فوجی قبضہ کرلیا جو آج تک قائم ہے۔
گلگت بلتستان کا یہ آزاد علاقہ آج دس اضلاع پر مشتمل ہے دنیا کی بڑی اونچی چوٹیاں یہاں ہیں، دنیا کا بلند ترین سطح پر میدان دیوسائی یہاں موجود ہے، دریا پہاڑ جنگلات ریگستان یہاں پائے جاتے ہیں، اس حوالے سے یہ دنیا کا خوبصورت ترین علاقہ ہے، دنیا کے مختلف ممالک سے سیاح یہاں آتے ہیں، سب سے اہم بات یہ ہے کہ سیاح جو دیکھنا چاہتے ہیں وہ ایک ہی نظر میں وہ سارے منظر دیکھ لیتے ہیں جو نظروں کو خیرہ کردیتے ہیں۔
آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان بیس کیمپ کی حیثیت رکھتے ہیں بانی پاکستان قائد اعظم نے ان آزاد خطوں کے عوام کے لیے انقلابی حکومت قائم کرائی تاکہ یہاں کے عوام کے مسائل حل بھی ہوں اور بقیہ کشمیرکی آزادی کے لیے حقیقی بیس کیمپ کا کردار ادا کریں، بیس کیمپ کی یہ حکومت قائد اعظم کے وژن کا نتیجہ ہے۔ لیکن آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی ایک ہی حکومت زیادعرصہ نہ چل سکی، پھر معاہدہ کراچی کے تحت گلگت بلتستان کا انتظام پاکستان کے حوالے کیا گیا، اگرچہ عوام چاہتے تھے کہ یہ دونوں ساتھ ساتھ چلیں مگر کسی وجہ سے ان دونوں خطوں کا نظام حکومت الگ کیا گیا۔ نظام حکومت الگ کرانے میں گلگت بلتستان کے مقابلے میں آزاد کشمیرکی قیادت نے زیادہ کردار ادا کیا۔
گلگت بلتستان کے نظام حکومت میں کافی تبدیلیاں آئی ہیں، اس وقت عبوری صوبے کا اسٹیٹس ہے، گورنر اور ویزرا علیٰ ہیں مگر یہ عبوری ہیں جب تک کشمیر آزاد ہوتا یہاں کے عوام پاکستان اور مقبوضہ کشمیرکے بھائیوں سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں۔ ابتداء میں نظام حکومت کافی کمزور تھا ابھی کافی حد تک نظام حکومت میں بہتری آئی ہے اور ابھی بھی ارتقائی عمل جاری ہے۔ اس حساس خطے پر دشمن کی نظریں ہمیشہ سے رہی ہیں۔ فرقہ واریت کا شکار رہا ہے مگر یہاں کے تمام ہی مکاتب فکر کے علماء اور عوام نے سوچا کہ ہمیں تقسیم کرو اور حکومت کرو کا عمل کارفرما ہے اس لیے یہاںکے عوام نے فیصلہ کیا کہ اب ہم کو مل کر رہنا ہے اور اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے اور ترقی کا راستہ بھی یہی ہے۔ اس سوچ اور فکر کو پذیرائی ملی ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں امن ہے۔ اس خطے میں سنی، اہل تشیع، نوربخشی، اسماعیلی سمیت دیگر مذاہت کے لوگ آباد ہیں۔
سیاسی جماعتوں میں پاکستان کی جماعتوں کی شاخیں موجود ہیں مگر جماعت اسلامی، لبریشن فرنٹ سمیت دیگر ریاستی جماعتیں بھی موجود ہیں جو فعال کردار ادا کررہی ہیں۔ ریاستی جماعتوں میں جماعت اسلامی بڑی اور فعال جماعت ہے جو پورے گلگت بلتستان میں موجود ہے عوام کے کام کررہی ہے، انتخابات میں حصہ لیتی ہے اور اچھا مقابلہ کرتی ہے۔ امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیرگلگت بلتستان ڈاکٹر محمد مشتاق خان نے کئی دورے کیے ہیں۔
گلگت بلتستان سی پیک کا گیٹ وے ہونے کی وجہ سے اور بھی اہمیت اختیار کرگیا ہے، یہ پاکستان کا قدرتی حصار ہے، گلگت بلتستان کے عوام بھی اپنی آزادی کا دن منانے کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کے بھائیوں کے لیے بھی دعائوں کرتے ہیں کہ وہ بھی آزادی ہوں حقیقی آزادی وہ ہوگی جب پور ا کشمیرآزاد ہوکر پاکستان کا حصہ بنے گا۔