سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک فیصلے میں قرار دیا ہے کہ بینک کا گوشوارہ آمدن ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں، صرف رقم کی منتقلی کو آمدن کا ثبوت نہیں سمجھا جا سکتا۔

چیف جسٹس یحییٰ خان آفریدی کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، جس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: سپر ٹیکس کیخلاف اسلام آباد اور لاہور ہائیکورٹس میں زیر التوا اپیلیں سپریم کورٹ منتقلی کا حکم

سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ مالی لین دین کا ریکارڈ خود بخود آمدن نہیں کہلاتا، بغیر واضح اور قابل بھروسہ ثبوت کے نوٹس جاری نہیں کیا جا سکتا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ محض شک یا اندازے پر ٹیکس کی جانچ نہیں ہو سکتی، اور اکاؤنٹ میں موجود رقم کو بلاوجہ خفیہ آمدن قرار نہیں دیا جا سکتا۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں محکمہ ٹیکس کی نظرِ ثانی کی کارروائی کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے کہاکہ آمدن ثابت کرنے کے لیے مخصوص اور ٹھوس معلومات لازمی ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ معلومات کا براہِ راست تعلق ٹیکس کے قابل آمدن سے ہونا چاہیے، محض بینک کا ریکارڈ قانون کے تحت کارروائی کے لیے کافی نہیں۔

سپریم کورٹ نے محکمہ ٹیکس کے مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے شہری کو رعایت دے دی، اور غیرمصدقہ معلومات پر مبنی کارروائی کو غلط قرار دے دیا۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ ٹیکس قانون کے غلط استعمال کو روکنے کی ضرورت ہے، ہر اطلاع کی جانچ پڑتال ضروری ہے، ہر کارروائی شفاف ثبوت پر مبنی ہونی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے سابقہ فاٹا اور پاٹا میں سیلز ٹیکس ترمیمی ایکٹ بحال کردیا

درخواست گزار نے خداداد ہائٹس اسلام آباد کے خلاف ایف بی آر کی کارروائی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ ایف بی آر نے بینک اسٹیٹمنٹ کو آمدن قرار دے کر ازسرنو ٹیکس سے متعلق کارروائی شروع کی تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews انکم ٹیکس ایف بی آر بینک اسٹیٹمنٹ ثبوت جسٹس یحییٰ آفریدی چیف جسٹس رقم کی منتقلی سپریم کورٹ شہری کو ریلیف وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: انکم ٹیکس ایف بی ا ر بینک اسٹیٹمنٹ ثبوت جسٹس یحیی ا فریدی چیف جسٹس رقم کی منتقلی سپریم کورٹ شہری کو ریلیف وی نیوز سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کے لیے

پڑھیں:

پولیس کی تحویل میں ریکارڈ اعترافی بیان ناقابل قبول‘ سپریم کورٹ نے بچے کے قتل کے الزام میں گرفتار ملزم کو بری کر دیا

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔08 جولائی ۔2025 )سپریم کورٹ نے پولیس کی تحویل میں میڈیا کے ذریعے ملزم کے ریکارڈ کیے گئے اعترافی بیان کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے ایک بچے کے قتل کے الزام میں گرفتار ملزم کو بری کر دیا ہے. جسٹس اطہر من اللہ نے تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے کراچی میں ایک بچے کے قتل کے مقدمے کا فیصلہ سنایا ہے سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے جاری پچیس صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ملزم کا پولیس افسر کی تحویل میں میڈیا کے ذریعے اعتراف جرم اس کے خلاف استعمال نہیں ہو سکتا جب تک اس کا بیان مجسٹریٹ کی موجودگی میں نہ لیا جائے.

(جاری ہے)

ان کا کہنا تھا کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ کسی رپورٹر کو ملزم کے انٹرویو کیلئے رسائی دی جائے، اسکا بیان ریکارڈ کیا جائے اور پھر اسے عوام میں پھیلایا جائے خیال رہے کہ اس مقدمے میں متعلقہ تھانے کے انچارج اور تفتیشی افسر نے ایک صحافی کو اس بات کی جازت دی کہ وہ جسمانی ریمانڈ کے دوران پولیس کی تحویل میں موجود ملزم کا انٹرویو کرے.

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس بیان کا ترمیم شدہ حصہ بعد میں ایک نجی ٹی وی چینل پر نشر کیا گیا یہ پہلا کیس نہیں ہے جس میں زیرحراست ملزم کے ساتھ اس طرح کا رویہ اپنایا گیا ہو، ایسا رویہ عام ہوتا جا رہا ہے اور بغیر کسی روک ٹوک کے جاری ہے جو نہ صرف ملزم بلکہ متاثرین کے حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے، کسی جرم کی خبریں ہمیشہ لوگوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہوتی ہیں، خاص طور پر جب کیس ہائی پروفائل ہو یا جرم کی نوعیت عام لوگوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہو، ایسے کیسز میں عوام کی غیر معمولی دلچسپی میڈیا ٹرائل کا باعث بن سکتی ہے جس کے نتائج نہ صرف ملزمان بلکہ دیگر متاثرین کے لیے بھی ناقابل تلافی ہو سکتے ہیں.

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ میڈیا کے پاس بیانیہ تخلیق کرنے کی بے پناہ طاقت اور صلاحیت ہے جو سچ یا غلط ہو سکتی ہے، یہ صلاحیت بھی ملزمان اور ان کے خاندان کے افراد کی زندگیوں کو برباد کرنے اور ان کی شہرت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتی ہے. عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ میڈیا پر نشر کیا گیا ملزم کا بیان قابلِ قبول نہ تھا کیونکہ یہ نہ تو کسی مجسٹریٹ کے سامنے دیا گیا تھا اور نہ ہی قانونی تقاضے پورے کیے گئے تھے، ایسا اقدام شاید اپنی کارکردگی دکھانے یا عوامی دباﺅ سے نمٹنے کے لیے کیا گیا ہو لیکن یہ کسی طور پر عوامی مفاد میں نہیں تھا.

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ فیصلے کی کاپی سیکرٹری وزارت داخلہ، سیکرٹری وزارت اطلاعات و نشریات، چیئرمین پیمرا، صوبائی چیف سیکرٹریز کو بجھوائی جائے، فیصلے میں دی گئی آبزرویشنز کی روشنی میں فوجداری کیسز کے فریقین کے حقوق اور تفتیش و مقدمے کی شفافیت کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں عدالت نے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے ملزم کو بری کردیا واضح رہے کہ ٹرائل کورٹ نے ملزم کو موت کی سزا سنائی تھی، سندھ ہائی کورٹ نے واقعاتی شواہد اور ٹی وی انٹرویو میں اس کے اعتراف جرم کی بنیاد پر اس کی توثیق کی تھی. 

متعلقہ مضامین

  • بینک کا گوشوارہ آمدن ثابت کرنے کیلئے کافی نہیں، سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ آگیا
  • جسٹس محسن کا اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی سنیارٹی کو چیلنج کرنے کا فیصلہ
  • بینک کا گوشوارہ کافی نہیں۔ آمدن ثابت کرنے اور ٹیکس سے متعلق سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ
  • بینک کا گوشوارہ آمدن ثابت کرنے کیلئے کافی نہیں ،سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ
  • اسلام آباد ہائیکورٹ ججز منتقلی و سینیارٹی کیس، سپریم کورٹ فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیں دائر
  • پولیس کی تحویل میں ریکارڈ اعترافی بیان ناقابل قبول‘ سپریم کورٹ نے بچے کے قتل کے الزام میں گرفتار ملزم کو بری کر دیا
  • زیر حراست ملزم کا انٹرویو قابل قبول شہادت نہیں، سپریم کورٹ
  • سپریم کورٹ: پولیس تحویل میں میڈیا پر اعترافی بیان ناقابلِ قبول، ملزم بری
  • مخصوص نشستوں پر بحال 77 اراکین اسمبلی سے متعلق اہم فیصلہ