اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ کا زیرِ حراست ملزمان کے انٹرویوز سے متعلق اہم فیصلہ سامنے آگیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ اعترافِ جرم صرف آزاد ماحول میں ممکن ہے۔ زیرحراست ملزم کا انٹرویو قابل قبول شہادت نہیں نہ ہی اس بنیاد پر سزا دی جاسکتی ہے۔

نجی ٹی وی سما نیوز کے مطابق جسٹس اطہر من اللہ نے 25 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا جس میں قتل کیس میں سزائے موت کے ملزم شاہد علی کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا گیا۔ عدالتی فیصلے کے مطابق ملزم کو سزا دینے میں صرف ٹی وی انٹرویو پر انحصار کیا گیا، جو کہ اس وقت ریکارڈ کیا گیا جب وہ پولیس کی تحویل میں تھا۔

وفاقی کابینہ کا 5 لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کا حتمی فیصلہ

فیصلے میں کہا گیا کہ ملزم نے اعترافِ جرم لاک اپ سے نکال کر میڈیا کے سامنے کیا جو کہ غیرقانونی طریقہ ہے۔ تفتیشی افسر اپنا اختیار کسی رپورٹر یا صحافی کے حوالے نہیں کرسکتا۔

عدالت نے قرار دیا کہ اعترافِ جرم صرف مجاز افسر یا مجسٹریٹ کے سامنے آزاد ماحول میں ہی قابلِ قبول ہوتا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ زیر حراست ملزمان اکثر دباؤ کا شکار ہوتے ہیں اور کئی بار دباؤ سے بچنے کے لیے جھوٹا اعتراف بھی کر لیتے ہیں۔

عدالت نے فیصلے کی نقول وفاقی اور صوبائی حکومتوں، پیمرا اور وزارتِ اطلاعات کو بھجوانے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے کہا کہ کسی رپورٹر کو زیرِ حراست ملزم تک رسائی دینا معمولی بات نہیں، اور ایسا طرزِ عمل میڈیا ٹرائل کا سبب بن سکتا ہے۔

آسٹرالوجر سامعہ خان نے بھی 9مئی کے بعد پی ٹی آئی کے لوگوں سے پارٹیاں تبدیل کروانے اور سیاست چھڑوانے کا دعویٰ کردیا

 سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ ہر ملزم اس وقت تک بے گناہ ہے جب تک منصفانہ ٹرائل سے مجرم ثابت نہ ہو جائے۔

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: عدالت نے

پڑھیں:

سپریم کورٹ میں خانپور ڈیم کیس کی سماعت، ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو نوٹس جاری کر دیا

سپریم کورٹ نے خانپور ڈیم آلودہ پانی فراہمی کیس میں ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو نوٹس جاری کردیا۔ آلودہ پانی کی فراہمی کے خلاف ازخود نوٹس کیس کی سماعت سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے کی، جس میں واپڈا کے وکیل احسن رضا نے مؤقف اختیار کیا کہ خانپور ڈیم پانچ ملین لوگوں کو پانی کی فراہمی کا واحد ذریعہ ہے۔ ایگزیکٹو ضلعی انتظامیہ سہولت کاری فراہم کر رہی ہے، جہاں پہلے 20 کشتیاں چلتی تھیں، اب 326 کشتیاں ڈیم میں چل رہی ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پی ایچ اے ڈیپارٹمنٹ بھی تو ہے، وہ اس حوالے سے کوئی اصول طے کر لے۔ جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ ڈیم کی انتظامیہ کہہ سکتی ہے کہ یہاں موٹر بوٹس چلانا منع ہے۔ وکیل نے بتایا کہ یہ لوگ بوٹنگ پر پیسے کما رہے ہیں، 6 ریزروٹس بھی بنا لیے ہیں۔ جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ آپ کی اجازت کے بغیر وہ کیسے کشتیاں چلا سکتے ہیں؟۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ بوٹنگ رکوانے کے لیے آپ کا کیا کردار ہے؟، جس پر وکیل نے بتایا کہ ہم نے مجسٹریٹ کے سامنے بھی درخواست دائر کی تھی۔ خانپور تحصیل بننے کے بعد حالات مزید خراب ہوئے ہیں۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کشتیوں سے آلودگی پھیل رہی ہے،تو اس کا متبادل کوئی راستہ ہے تو بتائیں، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ جی متبادل راستہ ہے کہ الیکٹرک کشتیاں بھی ہیں، جس سے آلودگی نہیں پھیلے گی۔ بعد ازاں عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔

متعلقہ مضامین

  • شہریوں پر بندوق تاننا کسی صورت قابل قبول نہیں، گورنر سندھ
  • سپریم کورٹ کا 24سال بعد فیصلہ، ہائیکورٹ کا حکم برقرار،پنشن کے خلاف اپیل مسترد
  • گورنر ہاؤس میں اسپیکر کی مکمل رسائی؛ سپریم کورٹ نے فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے
  • سپریم کورٹ میں خانپور ڈیم کیس کی سماعت، ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو نوٹس جاری کر دیا
  • سپریم کورٹ کراچی رجسٹری  نے ڈاکٹر کے رضاکارانہ استعفے پر پنشن کیس کا24سال بعد فیصلہ سنا دیا
  •  پاکستان کے خلاف کسی کی بھی ہرزہ سرائی اور سازش برداشت اور قابل قبول نہیں، سینیٹر عبدالکریم 
  • کراچی: 2005 سے 2008 تک لسانی بنیادوں پر وارداتیں کرنے والا ملزم گرفتار
  • سپریم کورٹ میں اہم تقرریاں، سہیل لغاری رجسٹرار تعینات 
  • غلط بیانی قابل قبول نہیں، پاکستان نے استنبول مذاکرات سے متعلق افغان طالبان کا بیان مسترد کردیا
  • امریکی عدالت نے ٹرمپ کا وفاقی انتخابات سے متعلق اہم حکم نامہ کالعدم قرار دے دیا