زیر حراست ملزم کا انٹرویو قابل قبول شہادت نہیں، سپریم کورٹ
اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ کا زیرِ حراست ملزمان کے انٹرویوز سے متعلق اہم فیصلہ سامنے آگیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ اعترافِ جرم صرف آزاد ماحول میں ممکن ہے۔ زیرحراست ملزم کا انٹرویو قابل قبول شہادت نہیں نہ ہی اس بنیاد پر سزا دی جاسکتی ہے۔
نجی ٹی وی سما نیوز کے مطابق جسٹس اطہر من اللہ نے 25 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا جس میں قتل کیس میں سزائے موت کے ملزم شاہد علی کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا گیا۔ عدالتی فیصلے کے مطابق ملزم کو سزا دینے میں صرف ٹی وی انٹرویو پر انحصار کیا گیا، جو کہ اس وقت ریکارڈ کیا گیا جب وہ پولیس کی تحویل میں تھا۔
وفاقی کابینہ کا 5 لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کا حتمی فیصلہ
فیصلے میں کہا گیا کہ ملزم نے اعترافِ جرم لاک اپ سے نکال کر میڈیا کے سامنے کیا جو کہ غیرقانونی طریقہ ہے۔ تفتیشی افسر اپنا اختیار کسی رپورٹر یا صحافی کے حوالے نہیں کرسکتا۔
عدالت نے قرار دیا کہ اعترافِ جرم صرف مجاز افسر یا مجسٹریٹ کے سامنے آزاد ماحول میں ہی قابلِ قبول ہوتا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ زیر حراست ملزمان اکثر دباؤ کا شکار ہوتے ہیں اور کئی بار دباؤ سے بچنے کے لیے جھوٹا اعتراف بھی کر لیتے ہیں۔
عدالت نے فیصلے کی نقول وفاقی اور صوبائی حکومتوں، پیمرا اور وزارتِ اطلاعات کو بھجوانے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے کہا کہ کسی رپورٹر کو زیرِ حراست ملزم تک رسائی دینا معمولی بات نہیں، اور ایسا طرزِ عمل میڈیا ٹرائل کا سبب بن سکتا ہے۔
آسٹرالوجر سامعہ خان نے بھی 9مئی کے بعد پی ٹی آئی کے لوگوں سے پارٹیاں تبدیل کروانے اور سیاست چھڑوانے کا دعویٰ کردیا
سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ ہر ملزم اس وقت تک بے گناہ ہے جب تک منصفانہ ٹرائل سے مجرم ثابت نہ ہو جائے۔
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: عدالت نے
پڑھیں:
چیئرمین پی ٹی اے کی اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ میں اپیل دائر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے چیئرمین نے اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے عہدے سے ہٹائے جانے کے فیصلے کو چیلنج کر دیا ہے، چیئرمین نے پیر کو انٹرا کورٹ اپیل دائر کی، جو کہ انٹرا کورٹ اپیل آرڈیننس 1972 کے تحت فائل کی گئی۔
میڈیا رپورٹس کےمطابق اپیل کنندہ نے مؤقف اختیار کیا کہ انہیں پہلے 24 مئی 2023 کو پی ٹی اے میں بطور ممبر (انتظامیہ) تعینات کیا گیا تھا، جس کے اگلے ہی روز یعنی 25 مئی 2023 کو ترقی دے کر چیئرمین پی ٹی اے بنایا گیا۔
درخواست میں کہا گیا کہ ہائیکورٹ نے عہدے سے ہٹانے کا جو فیصلہ سنایا ہے وہ غیر منصفانہ ہے اور اس کے خلاف اپیل اس لیے دائر کی گئی ہے تاکہ تقرری کو قانونی ثابت کیا جا سکے۔
چیئرمین پی ٹی اے نے اپنی اپیل میں عدالت سے استدعا کی ہے کہ اس کیس کو فوری سماعت کے لیے مقرر کیا جائے، تاکہ ادارے کے انتظامی معاملات میں غیر یقینی کی کیفیت ختم کی جا سکے، وہ اپنی تقرری کے تمام قانونی تقاضے پورے کر کے اس عہدے پر فائز ہوئے تھے اور عدالت کے فیصلے سے ان کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے آج ہی ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے چیئرمین پی ٹی اے کو عہدے سے ہٹانے کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ چیئرمین کی تعیناتی قانون کے مطابق نہیں کی گئی، جس پر فوری طور پر عمل درآمد کا حکم دیا گیا۔ اس فیصلے کے بعد چیئرمین نے اپنی قانونی ٹیم کے مشورے سے انٹرا کورٹ اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا۔
خیال رہےکہ یہ معاملہ نہ صرف پی ٹی اے کے اندرونی انتظامی ڈھانچے پر اثر انداز ہوگا بلکہ ملکی سطح پر ٹیلی کام سیکٹر کے اہم فیصلوں پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔